خواتین کی عصمت دری

Published on April 6, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 730)      No Comments

عمرفاروق قاسمی
عزت مآب ہماری مائیں اور بہنیں عام طور پر جنسی درندوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں، چند سال پہلےدارالحکومت کی ایک بس میں اجتماعی عصمت دری کی شکار ہونے والی ’’دامنی ‘‘کی موت نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا۔ یہ اتفاق ہے کہ ذرائع ابلاغ نے اس موقع سے پوری دیانت داری اور دلچسپی سے اس خبر کو نشر کرکے لوگوں میں بیداری پید اکی تھی ، ورنہ تو ہندوستان کی سیکڑوں عصمت دری کی شکار لڑکیاں شرم وحیا اور عزت وخودداری کی حفاظت کی خاطر گلاگھونٹ کر رہ جاتی ہیں۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں ہر 22منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتاہے اور ہر 72منٹ میں کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25منٹ پر چھیڑخوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتاہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 92فیصد وہ عورتیں جو مختلف حلقوں میں میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔
بہرکیف !اس واقعہ نے زنا، زنابالجبر ، عورت کی عصمت وعفت ، پردہ اور حجاب ونقاب کی ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی ۔ کسی نے مجرمین کیلئے سزائے موت تجویز کی، کسی نے اسلامی سزائوں کا مطالبہ کیا، کسی نے لڑکیوں کو کراٹے بازی کے مشورے سے نوازا تو کسی نے سخت قانون بنانے کی تجویزپیش کی۔بلکہ مشروط طریقے سے صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ ملک میں پھانسی کی سزا نافذ بھی کردی گئی تھی لیکن معاملہ جوں کا توں بنا ہوا ہے ۔ ایسے وقت میں اسلام کی دہائی دینے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اب تک اسلام میں زنا کاروں کیلئے رجم یا سوکوڑے کو آج کے متمدن اور مہذب دور میں درندگی سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن مغربی طرز کے آزادی کے بتوں نے جب رنج دیا تو انہیں خدا،یاخدائی قانون نظر آنے لگا۔ یہاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن راج ٹھاکرے کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ ریپ کو اگر روکنا ہے تو شریعت قانون لاگو کرنا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے اس اخلاق سوزحرکت، معاشرہ کش فواحش اور بے حیائی کی روک تھام کیلئے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔ لیکن اسلام نے اس سے قبل بڑے پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر بھی اختیار کئے ہیں۔ اس محزب اخلاق اور معاشرہ سوز عمل سے روکنے کیلئے بہت دور سے بانڈری باندھی ہے تاکہ ایسے جرائم کیلئے مواقع ہی میسر نہ ہوں۔ وہ ہرگز موجودہ عالمی قوانین کی طرح اس کا روادار نہیں کہ زنا بالجبر کو توجرم قراردیاجائے اور اس سے قبل اس کے محرکات یعنی آزادانہ میل جول، کھلے عام بوس وکنار پر عمل کرنے کی آزادی اور ہوش ربا لباس زیب تن کرنے کی کھلی چھوٹ ہو۔ اسلام اس بے وقوفی کاروادار ہرگز نہیں کہ ’’گوشت کے کھلے ہوئے لوتھڑے‘‘ کو طشت میں سجاکر چارکتوں کے درمیان چھوڑدیاجائے اور صرف اس بنیاد پر کتے کے اوپر ڈنڈا چارج کردیاجائے کہ اس نے میری اجازت کے بغیر لوتھڑے سے منہ کیوں لگالیا۔ اسلام اس عقلمندی کو دورہی سلام کرتاہے کہ ’’مٹھائی کے ڈبوں‘‘ پر شیرہ لگاکر’’ چیونٹیوں‘‘ کے درمیان چھوڑدیاجائے اور امید لگائی جائے کہ میٹھائی کے ’’مالک‘‘ کی اجازت کے بغیر’’ چیونٹیاں‘‘ وہاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ اسلام اس کا ہرگز روادارنہیں کہ کھیت کی آڑ پر’’ بیلوں اور بھینسوں ‘‘کو چھوڑدیاجائے اور ’’کھیت کا نگہبان‘‘ یہ سونچ کر مطمئن ہوجائے کہ میری اجازت کے بغیر ’’بیل یا بھینس‘‘ کھیت میں منہ نہیں ڈال سکتی بلکہ اسلام نے زنا بالجبر اور بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام کیلئے سب سے پہلے عورتوں کو گھر میں رہنے کا حکم دیا اور بلاضرورت انسان نما درندوں کے سامنے جانے سے روکا اور اگر ضرورت پڑے بھی’’ توجھکی ہوئی نگاہ‘‘ کے ہتھیار سے لیس ہوکر باہر جانے کی اجازت دی ،تاکہ اس کی طرف بدنیتی کے ساتھ لوگ میلان نہ کریں، اسے اظہارزینت سے روکا گیا ، شہوت کے غلام لوگ اس کی عصمت کو داغدار نہ کریں اسے گفتگو میں لچکیلے رویے اختیار کرنے سے منع کردیاگیا ، ’’صنف نازک کے شکاریوں‘‘ کو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، کسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان‘‘ اس کی آبرو کا سودانہ کرلے ، بال بچوں کے اخراجات بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،اگر انسانی کسی بھی ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانک لیاکریں تاکہ ’’چہرے کی رونق کا اظہار‘‘ اس کی اپنی زندگی کو ’’بے رونق‘‘ نہ بنادے ، اس کی ’’بے لباسی‘‘ اقربا ورشتہ دار کو ’’ذلت کالباس‘‘ نہ پہنادے ، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ ، باپ ، بیٹا ، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا ، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اور شرمگاہ کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اور بارگراں نہیں بنایا۔ نہ تو لمبی چوڑی مجلس کے انعقاد کی شرط رکھی اور نہ ہی قاضی اور ججوں کو ضروری قراردیا۔ ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی۔ ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔ جنسی تعلقات کی تسکین نہ ہوسکے تو عدالت میں اپیل کرنے کا حق دیاگیا۔ ان ساری سہولیات اور حلال راستوں کے باوجود اگر کوئی مرد اجنبی عورتوں سے یاکوئی عورت اجنبی مردوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتی ہے اور ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اتنی دیدہ دلیری اور بے باکی کے ساتھ اس فعل قبیح کو انجام دیا جاتا ہے کہ اس کو ایک نہیں دو نہیں چار آدمی اس پوزیشن میں دیکھ رہے ہوں جیسے سرمہ دانی میں سلائی جس کو چھپانا اب ناممکن نہیں رہا اور نہ ہی اس کی اصلاح ممکن رہی ۔ ان ساری سہولیات اور کڑی شرطوں اور حصار بندی کے توڑنے کے باوجود کیا اس بات کی گارنٹی ہے کہ ایسا مرد رضا کے حدودکو پھلانگ کر کسی معصوم دوشیزائوں کی عصمت کو تارتار نہیں کرے گا ؟اور ایسی شہوت پسند عورتیں اپنے پریمی کی بیوی اور بچوں کی خانگی زندگی کی تباہی کا ذریعہ نہیں بنے گی؟۔ خاص طورپر موجودہ دور میں ایڈز جیسے متعدی امراض یاددگرجنسی مہلک بیماریوں کا جنسی تعلقات سے گہرا رشتہ ہونے کی وجہ سے شریعت اسلامیہ ایسے شخص کو ملت اسلامیہ کے جسم میں روگی اور انتہائی بدبو دار زخم تصور کرتی ہے جو جسم کے دیگر حصے میں سرایت کرکے پورے جسم کو کینسر زدہ کردیگا ۔ شریعت اسے ایساہی کینسر زدہ عضو تصور کرکے معاشرہ سے الگ کردینا ہی بہتر سمجھتی ہے اور حکم دیتی ہے کہ اس کی کھال ادھیڑ دی جائے اور غیر شادی شدہ ہے تو کوڑے لگاکر معاشرے کے ان تمام لوگوں پر سائیکلوجیکل آپریشن کرتی ہے جو اس قسم کی حرکت میں مبتلا ہوں یا اس کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہوں۔ زنا بالرضا کو جائز قراردینے والوں کے پاس کیا اس کا کوئی جواب ہے کہ فریقین کی آپسی رضامندی سے ایڈز جیسا مہلک مرض پیدا ہوتاہے جو ہزاروں اور لاکھوں کو موت کی نیند سلادے۔ وہ معاشرہ ذمہ دار کیسے ہوسکتا ہے ،جو مادہ منویہ کو صرف اس لئے اجنبی جگہوں میں ضائع کردیتاہے کہ بعد میں اس کی ذمہ داری نبھانی پڑسکتی ہے۔ کون سا حساس تمدن اس بات کو برداشت کرتاہوگا کہ معاشرہ میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسی مطلقہ عورتیں سڑکوں پرہاتھ پھیلاتی پھرے جسے اس کے شوہر نے صرف اس بنیاد پر طلاق دے دیا کہ اس کے لئےمزہ آوری اور شہوت کی تسکین کیلئے دیگر ذرائع بھی موجود تھے۔ اس معاشرہ کی ترقی وتابانی آخیر کیسے ہوسکتی ہے جس میں زنا بالرضا کی وجہ سے جنسی امراض کے ساتھ ساتھ بریسٹ کینسر، چیسٹ کینسر ، آتشک سوزاک کے مریضوں کی کثرت ہو۔ وہ خاندان، سوسائٹی اور معاشرہ متمدن کیسے کہلاسکتا ہے جس میں ایک کالے کرتوت سے ہونے والے بچے معاشرہ اور حکومت کیلئے وبال جان بن جائے ۔ وہ کن سا تمدن ہوگا جسے یہ گواراہوجائے کہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے آوارگی اور غنڈہ گردی کی راہ پر چل رہے ہوں جسے ان کے والدین نے وقتی عیشِ کوشی کے بعد ہمیشہ کیلئے منہ پھیر لیاہو۔ اگر کسی کو موت کا انجکشن دینا جرم ہے تو زنا بالرضا بھی ایڈز کا انجکشن ہے جو انجانے میں ایک دوسرے کو دے دیاجاتاہے ۔ دنیا اگر اپنے نظام میں غیر ملکی عناصر کی کسی بھی قسم کی مداخلت کو جرم قراردیتی ہے تو ناجائز بچے کے تحمل کے خوف سے مانع حمل تدابیر اختیار کرکے بچوں کی ولادت پر روک لگادینا بھی خدا کے بنائے ہوئے سسٹم میں مداخلت ہے۔ ماحصل یہ کہ آزادنہ جنسی تعلقات ایسا جرم ہے جس سے جہاں ایک طرف نسل انسانی کی جڑکٹ کر تباہ ہو جاتی ہے تو دوسری طرف انسانی تہذیب وتمدن کی ہوااکھڑ کر نسیامنسیا ہوجاتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ عصمت دری کو اگر روکنا ہے تو اس سے پہلے دعوت گناہ دینے والے اسباب پر بھی روک لگانی ہوگی، بلاشبہ اس عمل کو انجام دینے والے درندہ ہیں لیکن اس میں میں قصور ہماری میڈموں کا بھی ہے ، فحاشی اور عریانیت پر مبنی لباس، غیر محرموں کے ساتھ سیر و تفریح، بھرکیلے لہنگے، جالی دار کرتے، پنڈلی اور ران سے چپکا ہوا شلوار، جسم کے نشیب وفراز کو نمایاں کرنے والا اسکرٹ اور جنس پینٹ، ناگن نما اور ہپی کٹ زلفیں، ایک بالشت سے بھی کم بلاوز بھی مردوں کو ریپ پر مجبور کرتا ہے۔ اس تناظر میں راجستھان اسمبلی میں اس وقت کے بی جے پی رکن مسٹر بھوانی لال کا حکومت سے یہ مطالبہ بلاشبہ ایک مثبت مطالبہ تھا کہ ’’ لڑکیا ں اسکرٹ کے بجائے شلوار قمیص پہنیں،کیونکہ میںنے کئی مرتبہ لڑکوں کو اپنے موبائل فون پر اسکرٹ پہنے ہوئے لڑکیوں کا فوٹو گراف لیتے ہوئے دیکھاہے‘‘۔ ایگریکلچر ریسرچ سینٹرکی ممتاز خاتون سائنس داں محترمہ انیتا شکلا کا اس واقعہ پریہ تبصرہ بھی بے جانہیں تھا کہ آخر وہ لڑکی اپنے محبوب کے ساتھ رات کے وقت کیوں ادھر ادھر گھوم رہی تھی، اگر لڑکیاں ایسی حرکتیں کریںگی تو ایسے واقعات کوٹالانہیں جاسکتا۔ زنابالجبر جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے اس وقت موہن بھاگوت کا یہ کہناسوفیصدصحیح تھا کہ ’’شوہر اور بیوی ایک سماجی کنٹریکٹ کے ذریعہ پابند ہیں جہاں بیوی کو اپنا گھر چلانے کیلئے دیکھ بھال کرنی ہوگی وہیں شوہر کا فرض ہےکہ وہ گھر کیلئے کمائیں اور اپنی بیویوں کا تحفظ کریں‘‘ بشرطیکہ یہ جملے ہمیشہ یاد رہیں اس وقت بھی جس وقت یہ جملے آپ جیسے ’’روشن خیال‘‘ لوگوں کی زبان سے نکلے اوراس وقت بھی جب ہم جیسے’’ کٹر پنتھ‘‘لوگ بولیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme