دہشت گردی

Published on April 25, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 538)      No Comments

تحریر۔۔۔ میک رضوان
ماضی سے لے کر آج تک دوسرے غیر مذہب لوگوں نے بلا خوف و خطر مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا۔ اور اس پر تمام عالمی طاقتیں خاموش رہیں۔ کیا انہیں اس بات کا ذرہ سا بھی اندازہ نہیں ہے کہ اسلام دنیا کا دوسرا بڑامذہب ہے؟ میری سوچ کا تقاضہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا نام نہاد لقب جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے وہ سراسر مسلمانوں کے خلاف ایک پروپیگینڈہ ہے، داڑھی اور برقعہ کو بدنام کرنے کی سازش ہے، مسلمانوں کے معیار کو گرانے کا حربہ ہے، اور سب سے بڑی بات حق کو دبانے اور جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی سازش ہے۔ اسلام ہی دینِ حق ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ غیر مذہب طاقتیں یہ کیسے برداشت کر سکتی ہیں کہ وہ جس نظریہ کی پیروی کر رہے ہیں، جس نظام کے تحت چل رہے ہیں وہ ناقص ہے، اور اسلام ہی وہ واحد دینِ حق ہے جو تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ کوئی چیز ،کوئی مسئلہ ایسا نہیں ، جس کے متعلق اسلام نے احکام بیان نہ کئے ہوں، رہی بات اسلام میں جہاد کے فرض ہونے کی ، کہ اس کے متعلق غیر مذہب یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں کے تو مذہب میں ہی لڑنا مارنا شامل ہے لہذاموجودہ دور میں جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا سارا ملبہ جہاد کے ناپ پر مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہاں یہ بالکل درست ہے کہ اسلام میں جہاد فرض ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ غیر مذہب کو جہادکا اصل معنی ہی معلوم نہیں، وہ جہاد کو جنگ کے مترادف لیتے ہیں جبکہ جہاد جنگ نہیں ہے۔
ان کے لیے یہی کہا جاسکتا کہ اعتراض کرنا اور الزام لگانا تو آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنااتنا ہی مشکل ۔۔۔۔ اب میرا سوال ہے کہ اگر مسلمان دہشت گرد ہیں تو کس بنیاد پر؟ ایک اہم بات جو اسی موضوع میں کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ اگر کچھ افراد کو دیکھتے ہوئے یہ دہشت گردی کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا ہے تواس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ سب مسلمان تھے؟ اور اگر مسلمان تھے تو کیا چند ایک کی وجہ سے دہشت گردی کا الزام عالمِ اسلام پہ آئے گا ؟ اور یہ الزام لگا کون رہا ہے؟ کیا ان کی ہاں کوئی خون نہیں کرتا ؟ کیا ان کے قانون میں قتل سے متعلق کوئی شق نہیں ہے؟ یا وہ دنیا پہ اپنی سچائی ثابت کر چکے ہیں کہ وہ جس کو کہیں گے کہ فلاں بندہ، قوم یا کمیونٹی دہشت گرد ہے تووہ دہشت گردقرار دے دی جائیگی۔ کچھ بھی ہو مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اسلام کی پیروی کرتا ہے اور اسلام امن کا دین ہے۔
؂مت کر خاک کے پتلے پہ غرور و بے نیازی اتنی
خود کو خودی میں جھانک کر دیکھ تجھ میں رکھا کیا ہے
اب رہا یہ سوال کہ دہشت گردی کس کا فعل ہے؟ تو اس میں میری رائے یہ ہے کہ دہشت گردی ضروری نہیں کہ کسی مخصوص قوم ، ملک ، فرقہ یا قبیلے کی طرف سے ہو، دراصل ایک فرد کی ذہنیت میں یہ تصور پروان چڑھتا ہے ۔۔۔۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کے افراد ہر قوم ، ملک ، فرقے اور قبیلے میں موجود ہوں۔۔۔۔ تو کیوں کسی خاص طبقہ کو اس میں ملوث کیا جائے؟ اور اس حد تک ملوث کردیا جائے کہ جب جب دہشت گردی کا نام آئے تو اسی مخصوص طبقے کا نشانہ بنایا جائے۔ کیا ہر دورمیں حق کو دبانا ضروری ہے؟ دہشت گرد ہر قوم ، ہر ملک میں موجود ہیں کیونکہ انسان جب اپنی انتشار پسند سوچ و ذہنیت کا برملا اظہارکرتاہے تو دہشت گردی وجود میں آتی ہے۔ لہذاایسے انسان ہر جگہ پائے جاتے ہیں نہ کہ صرف ایک طبقے میں۔۔۔۔ اللہ پاک سب کو مثبت سوچ اور حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ 
؂ تو میرے لیے اب کوئی الزام نہ تلاش کر
بس خاموش ہوں تیرے لیے اتنا ہی کافی ہے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes