وجود

Published on July 8, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 520)      No Comments

تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
بات ہے تو سوچنے کی لیکن اتنی گہرائی میں شاید ہی آج کوئی جانا پسند کرے کیونکہ کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔نہ تو زمین کیلئے ہے نہ آسماں کیلئے تیرا وجود ہے صرف داستاں کیلئے ۔کسی نے لکھا کسی نے گایا کسی نے سنا اور بھول گئے۔انیسویں صدی کے آغاز میں کئی ہسپتالوں میں ایک خاص وارڈ قائم کیا گیا جہاں ٹی بی اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا بعد ازاں دیگر قریب المرگ افراد کو وہاں منتقل کرنے سے اس وارڈ کو پیلی ایٹو سٹیشن اور پیلی ایٹو کئیر کا نام دیا گیا، انیس سو تہتر میں مانٹریال کے رائل وکٹوریہ ہاسپیٹل میں مختلف امراض میں مبتلا افراد اور بالخصوص قریب المرگ مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے کئی یونٹس قائم کئے گئے جہاں ڈاکٹرز اور ان کا عملہ انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھ سکتے کیونکہ وہ لوگ لاعلاج تھے۔اس وارڈ کے قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ موت سے قبل جتنا ممکن ہو سکے مریضوں کی ممکنہ دیکھ بھال کی جائے اور انہیں مرنے میں کوئی تکلیف نہ ہوکوشش کی جاتی کہ انہیں ہر قسم کی انٹر ٹینمنٹ سے دوبارہ زندگی کی رنگینیوں کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور چند دن یا ماہ مزید زندہ رہ سکیں،آج کل ایسے وارڈز میں کئی دیگر بیماریوں یعنی کینسر ، ایڈز اور اے ایل سی میں مبتلا افراد کا اضافہ ہوا ہے جنہیں طبی لحاظ سے اپنے ٹائم سے مرنا ہے چند لمحوں گھنٹوں یا دنوں کی دیر وسویر ہو سکتی ہے ان وارڈز میں ڈاکٹرز اور عملہ چوبیس گھنٹے مریضوں کی نگرانی کرتا ہے ان کے جسموں سے مخصوص انسٹرومنٹس ایڈ جسٹ کئے گئے ہیں جو انکی سانسوں کی گنتی تک عملے تک پہنچاتے ہیں عملہ ان مریضوں کی حرکات و سکنات سے ہر وقت آگاہ رہتا ہے ۔جرمنی کی پیلی ایٹو لیڈی ڈاکٹر بِرگت ہائڈر گزشتہ دس برسوں سے مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج کر رہی ہیں ان کا کہنا ہے پیدائش اور موت ایک ایسا لفظ ہے جس کا اصل میں نام ہی تکلیف ہے کیونکہ پیدا ہونے والا اور مرنے والا بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں ،میں نے کئی افراد کو اتنی تکلیف سے موت کے منہ میں جاتا دیکھا ہے کہ بیان نہیں کر سکتی کوئی بھی عام انسان ایسے افراد کی موت قریب سے دیکھ لے تو غش کھا کر بے ہوش ہو جائے۔پچپن سالہ ڈاکٹر ہائڈر جنرل پریکٹیشنر ہیں اور پیلی ایٹو ڈاکٹر کی حیثیت سے برلن کے ہاسپیٹل میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ان دس برسوں میں انہوں نے سیکڑوں شدید بیمار مریضوں کا علاج کیا اور مرنے میں آسانی پیدا کی ،ڈاکٹر ہائڈر ہاسپیٹل کے علاوہ مریضوں کے گھروں میں جا کر بھی ان کا علاج کرتی ہیں کیونکہ کئی مریض اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں اپنے گھر میں گزارنا پسند کرتے ہیں تاکہ موت کے وقت ان کے عزیز و اقارب ان کے قریب اور سامنے موجود ہوں۔ایسے افراد جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی لمحے دنیا چھوڑ دیں گے اور یہ لمحات نہایت دکھی اور رنجیدہ ہوتے ہیں ڈاکٹر کا کہنا ہے یہ لمحات بالکل ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے اور بچہ کسی بھی لمحے کسی وجہ سے فوت ہو سکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بچہ نہ جانتے ہوئے بھی جانتا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں بچے گا اور ایک ہوش مند انسان یہی دعا کرتا ہے کہ میں زندہ رہوں اور اگر موت آئے تو اذیت سے نہ مروں۔مرنے کے بعد ہر انسان میں ظاہری تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں زیادہ تر انسان پرسکون ابدی نیند سو جاتے ہیں کئی لوگوں کی ادھ کھلی آنکھیں اشاروں سے سوال کرتی ہیں کہ میں کہاں ہوں کیا یہ پر امن اور پرسکون جگہ ہے اور ایک احساس کے تحت وہ مطمئن ہو جاتے ہیں ، دوسری طرف انسان کی زندگی میں پیش آنے والے حالات و اقعات
اسے موت کی آخری گھڑی تک پیچھا نہیں چھوڑتے ،ایک پندرہ سالہ بچہ بستر مرگ پر کہتا ہے کہ میری زندگی طویل نہیں لیکن وسیع تھی جبکہ دوسری طرف ایک پچانوے برس کا انسان گڑگڑاتے ہوئے کہتا ہے آخر میں ہی کیوں مروں اور ابھی ہی کیوں مروں،سب سے زیادہ مشکل اور اذیت کی موت ان افراد کی ہوتی ہے جو زندگی میں ہر شے کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے عادی ہوتے ہیں بستر مرگ پر بھی وہ موت کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ ساری زندگی ہر شے میرے قبضے میں تھی اب موت کو بھی قابو کروں گا لیکن موت ہر شے پر قابض ہو جاتی ہے جسم رہ جاتا ہے روح پرواز کر جاتی ہے۔ہم نے ایسے افراد بھی دیکھے ہیں جو اکیلا مرنا چاہتے ہیں اور ایسے بھی جو اپنے ارد گرد عزیز و اقارب کا مجمہ دیکھنا چاہتے ہیں ہر انسان کی اپنی نیچر ہے کوئی سوچتا ہے اکیلا آیا تھا اکیلا ہی جاؤں گا کسی کو اپنی موت میں شرکت کرنے کی دعوت نہیں دونگا اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آخری وقت میں ہر جانے انجانے کو اپنی موت کا نظارہ دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن موت تو آتی ہے انسان اکیلا ہو یا ہزاروں کا جلوس۔ڈاکٹر کا کہنا ہے میں نہیں سمجھتی کہ ہم دوبارہ آسمان پر ملیں گے کیونکہ جیسے پیدائش سے پہلے کسی شے کا وجود نہیں ہوتا اسی طرح موت کے بعد بھی کسی شے کا وجود نہیں ، انسان کی موت کے بعد وہ دفنایا جائے یا جلایا جائے جسم ختم ہو جاتا ہے اور کچھ باقی نہیں بچتا۔آج جرمنی میں تین سو سے زائد پیلی ایٹو سٹیشن موجود ہیں جہاں قریب المرگ افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے کئی مریضوں کی دیکھ بھال انکے گھروں میں بھی ہوتی ہے عملہ چوبیس گھنٹے ہائی الرٹ رہتا ہے اور ان کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں آخری گھڑی میں مرنے والے کی خواہش پوری ہو جائے تو وہ آرام سے مر جاتا ہے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog