حرف ِ غلط

Published on August 11, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 523)      No Comments

تحریر ؛ فاطمہ حیا خان
روز بہت سارا کھانا بچتا ہے .. پھینکنےسے اچھاہےساتھ والی بیوہ عورت کو دے آؤ .بیچاری دعا دے گی یتیم بچے بھوکے ہوں گے .اماں نے جائے نماز اٹھاتے ہو ئے تسبیح رکھی . بہت پیارسے شانزے کو کہا پر اس نے ڈرامہ دیکھتے ہوئے ماں کی بات ان سنی کردی .یہ روز کا معمول تھا کھا نے کے بعد ٹی وی کے آگے ۔بیٹھ جاتی اور ڈرامے کے ختم ہونے کے بعد وہ کچن سمیٹتی دن کا سارا بچا کھانا .ڈسٹ بن میں ڈال دیتی یہ سوچے بنا کے آج اللّه کی مخلوق ان کے پڑوس میں خود داری کی زنجیر سے بندھی چپ چاپ فاقوں سے لڑتے سوگئی بیش بہانعمتوں کے ساتھ اختتام کو تھارمضان آج متوقع چاند رات تھی ۔شانزے فرط مسرت سے آج چھت پے آگئی تھی .چاند دیکھنے .جب ہی بے ساختہ اس کی نظر ساتھ والےگھر میں اس بیوہ ،عورت پر پڑی جو ہاتھ بلند کئے دعا میں مشغول تھی اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔بہت کو شش کے باوجود بیوہ عورت کی آواز نہ سن سکی ..حسب معمول آج بھی امی نے کھانا دینے کو کہا تو وہ خلاف معمول کچن میں بچا سارا کھانا ٹرے میں رکھ کے دینے چلی گئی . اسلام وعلیکم ۔۔ کیسی ہیں آپ ..کھانا ایک بوسیدہ سی چارپائی پے رکھ کے وہ خود بھی عورت کے برابر بیٹھ گئی .
میں ٹھیک ہوں آپ. آج کیسے ہمارے ہاں آنا ہوا۔اس سادہ سے چہرے پے ثبت ملیح سی مسکراہٹ میں نا جانے ایسا کیا تھا کے شانزے خجل سی ہوگئی۔کہ وہ بچا ہوا کھانا لے کے آئی ہے
.جی میں وہ بس …کھانا دینے آئی تھی ..کھانے کے نام پے دو بچے بھاگ کے ماں کے پاس آئے تھے .زرد بلب کی ملگجی سی روشنی میں ان کی آنکھوں جگنو سے چمکے تھے ” امی نے ٹھیک کہاتھا بچے واقعی بہت بھوکے ہیں ..شانزے نے دل میں سوچا .جزاک اللّه بہنا ..اللّه آپکو اسکا اجر دے .آمین ..بچے ابھی کھانا مانگ رہے تھے اور آپ لے آئیں ۔۔آج واقعی چاند رات ہے .پر وقار چہرہ الو ہی سی مسکرا ہٹ پے شکر کا کلمہ وہ بولتی رہی اور شانزے حیران سی سنتی رہی اتنی لا چا ری وغربت میں بھی آسو د گی .اس عورت کے چہرے میں کتنے گہرے رنگ تھے .بس چاند نظرآجائےتوہم فرینڈز منائیں گے آپ بھی آنا خوب انجوائے کریں گے۔ شانزے نے خوش دلی سے کہا .آسمان کو دیکھا جہاں چاند کہیں نظر نہیں آیا .بہنا چاند رات تو چاند زادیاں مناتی ہیں ہم خاک زادیاں تو جس دن روٹی نظر آجائے عید منا لیتی ہیں .بظاہر مسکرا کر انہوں نے اپنی زندگی کی تلخ حقیقت بیان کی تھی ۔شانزے کو ذرا وحشت سی ہونے لگی زندگی کا یہ چہرہ پہلی بار دیکھ رہی تھی .کچھ دیر با ت کر کے وہ الجھے ذہن کے ساتھ گھر کو لوٹ آئی ۔نہ جانے کتنے معصوم چاند رات سے واقف بھی نہ ہوں انکی بھوک ایسے تہوا روں میں بھی نہ مٹتی ہوں تو کیا چاند رات کیا عید۔ لوگ عید کے نام پے کتنے خوش ہوتے ہیں ..یہ جانے بنا کے کچرےکےڈھیر سے اپنا رزق تلاش کرتے وہ معصوم چہرے عید کا نام سن کے رو پڑتے ہوں گے چاند رات کی چمکتی شام میں ننھے گالوں پے پھسلتے ان کے معصوم خواب کی کرچیاں کوئی نہیں دیکھ پا تا سوائے چاند کے لوگ چاند رات کو بادلوں میں چاند کو ڈھونڈ کے اپنی عید کی فکر کرتے ہیں اور چاند زمین کے ننھے چاند کے آنسو دیکھ کے شرم سے چپ جاتا ہے کے کوئی مجھے دیکھ کے رو نہ لے .چاند انسان نہیں .جواپنی عید کی خوشی میں کسی کے آنسو نہ دیکھے
.وہ ساری رات چاند رات بھول کے اس عورت کی صبروقناعت اور اپنی نا شکری کو سوچتی رہی ایک تن تنہا آزمائشو ں میں گھری ..دنیا کی بھیڑمیں اکیلے سفر کئے جا رہی تھی ساتھ دو بچوں کی ذمہ داری .ٹی وی دیکھتے جانے وہ کب سو ئی تھی۔چاند نظر نہیں آیا تھا ایک اور روزہ . امی چاند کیوں نظر نہیں آیا پتا نہیں نظر نہیں آیا کمیٹی والوں کو آف آج تیسواں روزہ میں اتنی ایکسائٹیڈ.تھی شانزے نے قدر ے جھنجھلاہٹ سےکہا۔ بیٹاسب ہماری طرح آسودہ حال نہیں ہوتے سب خوشی خوشی چاند رات کےمنتظر نہیں ہوتے .کچھ لوگوں کی بےبسی کا مذاق اڑاتی ہیں چاند رات کی خوشیاں .ان سے کل کی عورت یاد آگئی شانزے کو کچھ دیر ماں سے اسی کے بارے میں بات کرتی رہی .
ایک سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد بیوگی کا داغ لگتےزندگی تن تنہا ہو گئی ۔مشکل وقت میں رشتہ دار وں کی طوطا چشمی .دو بچوں کی بھاری ذمہ داری اس کے نازک کاندھوں پے آن پڑی تھی
اایک ہمدرد دوست نےہی سر چھپانے کے لیۓ یہ چھوٹا سا مکان دیا ہے .کم کر ا یہ پے .وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کے یا سلائی کڑھائی کر کے گزر بسر کر رہی تھی .بچے سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھے .
آج کل شد ید گرمی کے باعث بل بہت آ گیا تھا جب ہی آج کل فا قوں کی نوبت آگئی تھی .شانزے کو یہ سب جان کے بہت دکھ ہوا .وہ آ ب دیدہ ہوگئی .
نہ جانے دنیا میں روز کتنے لوگ کھانا کھا کے بچا ہوا کھانا ضائع کرتے ہوں گے .واقعی یہ سچ ہے کے کچرے کے ڈھیرمیں پڑا کھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان پیٹ بھر نے کے بعد اپنی اوقات بھول جاتا ہے .پتا نہیں کتنے لوگ اس بے حسی کی وجہ سے بھوکے سوتے ہوں گے .بے حس لوگ شانزے نے تاسف سے سوچا بلکل اندر سے آواز آئی تھی کون سےلوگ کیسے لوگ کسی نے گویا جنجھوڑ ھ کے پوچھا تھا. لوگ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں نہ جانے ہم کس کو لوگ کہہ کر خود کو لوگوں کے خانے سے ہٹا دیتے ہیں .شانزے کو بار بار ڈسٹ بن میں ڈالا ہوا کھانا اور ان بچوں کے فاقوں سے نڈ ھال چہرے نظر وں کے سامنے چکرانے لگے بے حسی کے بعد ایک احساس جاگا ان کے لیۓ اور اتنی شدّت سے جاگا کے رگ و پے میں سکون بن کے سرا ئیت کر گیا .
لوگوں میں سب کچھ ہوتا ہے بس احساس نہیں ہوتا ..ہو بھی تو سویا رہتا ہے بس جاگنے کی دیر ہوتی ہے .شانزے میں بھی دیر سے سہی احساس جاگ گیا تھا ..اور احساس ہی انسانیت کی معراج ہے .کہ دو سروں کا ہمدرد نہیں درد شناس بنا جائ سنو !کہاں جا رہی ہو .وہ دیکھو چاند نظر آگیا .امی نے پیچھے سے آواز دی ..بلایا مگر وہ نہیں گئی .شانزے نے مسکرا کے آسمان پے چمکتےچاندکو دیکھا۔واقعی کل عید تھی ..پر چاند زادیوں کی ..کیوں کے انکا چاند نظر آگیا تھا .پرخاک زادی کاچاندتو
نظر نہیں آیا تھا نا ..وہ کیسے عید کریں انکو انکا چاند بھی تو دکھانا تھاشانزےنے مسکرا کر سوچا اور کھانے کی بھری ٹرے لئے گھرسے نکل گئی

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes