جیسی روح ویسے فرشتے

Published on August 28, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 680)      No Comments

تحریر : اظہر اقبال مغل
ایک مشہور کہاوت ہے،کہ جیسی روح ویسے فرشتے،اس بات پر اگر غور کیا جائے تو بہت گہری بات ہے اس کا مطلب ہے کہ انسان کا کردار جیسا ہوتا ہے اس کا واسطہ ویسے ہی لوگوں سے پڑتا ہے۔ آج ہم لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے رشوت عام ہے جھوٹ کا بول بالا ہے عورت کو کو کوئی تحفظ نہیں ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے کوئی پوچھنے والا نہیں،ہمارے حکمران ہی کرپٹ ہیں،ہمارے حکمران ہی ظالم ہیں۔غریب عوام کا ان کو کوئی خیال نہیں ہے ملک کو لٹ کر کھا رہے ہیں۔ تو اس میں کس کا قصور ہے ۔اس میں سو فیصد قصور ہمارا اپنا ہے۔ایک تو ان حکمرانوں کو ہم نے ہی منتخب کیا ہے دوسرا یہ ہمیں قدرت کی طرف سے سزا دی جارہی ہے۔،کیونکہ جیسی عوام ہوتی ہے اس پر حکمران بھی ویسا ہی مسلط کیا جاتا ہے،ہم لوگوں کو صرف باتیں ہی کرنی آتی ہیں عملا کچھ نہیں کر سکتے،آج اگر ہم اپنا بغور جائزہ لیں تو ہم لوگ کیا کر رہے ہیں،ہر بے ایمانی کا کام ہم لوگ کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اچھا ہو،بے ایمانی کا بازار ہم لوگوں نے گرم کیا ہوا ہے اور ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں کہ ہماری حکومت ہی کرپٹ ہے ۔آج ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اپنے گریبان میں جھانک کر کوئی نہیں دیکھنا چاہتا کہ میں کیا کر رہا ہوں جس کا جہاں بس چلتا ہے کوئی بھی کم نہیں ، ایک پھل والے سے لیکر ایک ساہو کار تک آج کرپشن میں ملوث ہے پھل والا کم تولے گا ساہو کار اپنے مطابق کرپشن کرے گا جس کا جہاں بس چلتا کسی طرح سے کم نہیں کرتا آج پاکستان میں کیا نہیں ہورہا ہر بے ایمانی کا کام پاکستان میں ہورہا ہے رشوت ،ملاوٹ ،کم تولنا ،جھوٹ ،دھوکا دہی تو ہمارے روز مرہ کے معمول بن چکے ہیں ۔جب ہم نے ہی ہر طرف لوٹ ما ر مچا رکھی ہے، تو شکوہ حکمرانوں سے کیوں؟ جب تک ہم اچھا نہیں کریں گے تو اچھے کی امید کیسے کر سکتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اچھا ہو تو ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہونگی خود کو بدلنا ہو گا۔تب ہی جا کر ہماری حالت بدل سکتی ہے ہمارے حالات بدل سکتے ہیں ہم پر کوئی اچھا حکمران تب ہی آسکتا ہے جب ہم خود ٹھیک ہو جائیں۔یہ شروع سے ہی ہوتا آیا ہے کہ طاقتور نے ہمہشہ ہی کمزور کو دبانے کی کوشش کی ہے،اور اپنا غلام بنا کر رکھا ہے،لیکن جب کسی ایک شخص کی طرف سے بھی بغاوت ہوئی ہے انقلاب برپاہوگیا ہے اس قوم کو آزادی ملی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی اپنی مثال ہے کہ کس طرح ہمارے بزرگوں نے جد و جہد کر کے پاکستان حاصل کیا اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف شکوہ ہی کرتے رہتے تو شائد آج ہم ہندؤں کے غلام ہوتے،اس لیئے ہمیں اگر کرپٹ لوگوں سے آزادی چاہئے تو ہمیں خود کو بدلنا ہو گا ہم لوگوں کو اپنا دامن صاف کرنا ہو گا تب ہی اللہ کی طرف سے بھی مدد ہوگی اور ہم پر اچھے لوگ مسلط ہونگے ۔ ہمارے حالات اس لیئے نہیں بدل رہے کہ ہم خود حالات بدلنا نہیں چاہتے،کوئی بھی حکمران اپنی مرضی سے منتخب نہیں ہوتا کسی بھی حکمران کو عوام منتخب کرتے ہیں،تو پھر ہم شکوہ کیوں کرتے ہیں کہ حکمران ہی ٹھیک نہیں ، اگر حکمران ٹھیک نہیں تو اسے منتخب بھی تو ہم لوگوں نے ہی کیا ہے ہماری اپنی ہی غلطیاں ہیں جو کہ ہمارے آگے آتی ہیں جو ہم بوتے ہیں وہی کاٹنا پڑتا ہے قانون قدرت ہے کہ جو انسان کرتا ہے جیسا کرتا ہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔اس لیئے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ایماندار حکمران آئیں تو ہمیں خود ایماندار ہونا ہوگا،ایک حکمران کا انتخاب ایمانداری سے کرنا ہوگا،جب کسی حکمران کو منتخب کرنے کی باری آتی ہے ہم لوگ چند پیسوں کی خاطر خود کو ایک سرمایہ دار کے ہاتھ بیچ دتیے ہیں اور اس کے حق میں جھوٹی گواہی دے دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عدالتوں کے باہر کرئے کے گواہ ہوتے ہیں جو کہ چند پیسوں ی خاطر لوگوں کی زندگیا برباد کر دتیے ہیں کچھ یہی حال ہمارے عوام کا ہے جب الیکشن آتا ہے تو ڈیہاڑیاں لگائی جاتی ہیں پھر 5 سال رو کر گزراتے ہیں۔ہمیں ان سیاستدانوں کی کٹھ پتلیاں بننے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے چاہئے اور ووٹ دتیے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں جس کو میں ووٹ دے رہا ہوں اس پر مجھے بعد میں پچھتانا پڑے گا اور ہماری اس غلطی کی سزا پوری قوم کو بھگٹنا پڑے گی۔ہمیں دوسروں سے شکوہ کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں کو سدہارنا چاہیے جس دن پاکستان کا ہر بندہ ایماندار ہو جائے گا تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ پاکستان پر کوئی ایسا حکمران مسلط ہو جو کہ بے ایمان ہو جب ہم پاکستانی خود ہی پوری دنیا میں بے ایمان مشہور ہیں تو ہم پر حکمران کیسے ایماندار آسکتا ہے ہمارے پاکستانی بیرون ممالک جا کر جو کرپشن کرتے ہیں وہاں تو ہمارے حکمران نہیں ہوتے وہاں جا کر یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اس لیئے کہ ہم لوگ خود بے ایمان ہو چکے ہیں ہر کام بے ایمانی سے کرتے ہیں ۔تو کیسے بدل سکتی ہے ہماری حالت جب تک ہم خود نہیں چاہیں گے ۔خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جسے خود خیال نہ ہو بدلنے کا ۔آج ہم لوگ اپنے دین سے بہت دور ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہمین اچھے برے کی تمیز ختم ہو گئی ہے ۔ہمارے پرکھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے ۔ اس لیئے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔ہم لوگ وقتی فائدہ دیکھتے ہیں اس کام کا نقصان نہیں سوچتے کہ جو کام ہم کر رہے ہیں اس سے مجھے تو فائدہ ہو رہا ہے لیکن کسی کو نقصان بھی ہو رہا ہے ۔جب تک یہ باتیں ہم لوگوں سے ختم نہیں ہوں گی ،ہم کسی کا اچھا نہیں کریں گے تو ہمارے ساتھ اچھا ہونے کی اُمید کہاں سے ہوگی ۔اس لیئے کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے جیسی روح ویسے فرشتے 

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes