چاروں صوبوں کی زنجیر ۔۔۔بے نظیر بے نظیر

Published on December 27, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 394)      No Comments

\"logo\"
چاروں صوبوں کی زنجیر ٹوٹے ہوئے چھ سال کا عرصہ گزر گیا ۔آج محترمہ بینظیر بھٹو کی چھٹی برسی منائی جارہی ہے ۔بینظیر بھٹو کو 27دسمبرکی شام راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔جمہوریت کو پروان چڑھانے کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے ساتھ اپنی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے والی بینظیر بھٹو کو ملک دشمن عناصر نے ایسے وقت میں قتل کیا گیا جب ملک نازک دور سے گزر رہاتھا ۔بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ ملک میں جمہوریت قائم ہوملک سے بیروزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔غریب عوام کو ریلیف ملے ۔کوئی نوجوان تعلیم یافتہ بیروزگار نہ رہے۔ملک کو امن کو گوارہ بنانا ایک خواب بن گیا تھا۔جس کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے اپنی جان کی پرواہ تک نہ کی ۔ وہ 18اکتوبر کو جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آگئیں۔ انہیں پارٹی رہنماؤں اور ملک میں موجود ہمدرد پارٹی رہنماؤں پاکستان جانے سے منع کیا تھاکہ آپ کی جان کو خطرہ ہے ۔ دہشت گرد عناصر کی جانب سے بھی انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ لیکن عوامی خدمت کی آس اور جمہوریت کی مضبوطی ان کا جنون بن چکی تھی ۔ اس لئے انہوں نے کسی بھی بات کی پرواہ کئے بغیر وطن عزیز کی زمین پر قدم رکھا۔ کراچی میں ان کے تاریخی استقبالیہ قافلے میں خود کش دھماکے بھی ہوئے۔جس میں کئی جیالے اپنی جان سے گذر گئے اور متعدد زخمی بھی ہوئے ۔ان میں سے بیشتر اب تک معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں نے اپنی جان کانذرانہ دیکراپنی قائد کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچایا۔تاہم ان خودکش حملو ں کے باوجود ان کے قدم ڈگمگائے ہیں ۔انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا ۔سیکورٹی اداروں اور اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے جاں کے خطرات لاحق ہونے کی پیشگی اطلاع دینے کے باوجود محترمہ نہیں گھبرائیں ۔اور انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کئے ۔تاہم اس وقت قسمت کی دیوی ان پر مہربان نہ تھی اور شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔وہ 27دسمبر جمعرا ت کی شام کی تھی جب راولپنڈی لیاقت باغ میں جہاں ہر جگہ چیل پہل تھی سب کو محترمہ بینظیر بھٹو کی آمد کا تھا، کیونکہ انہوں نے جمہوریت اور ملک کی خاطر اپنی جان کی پراوہ کئے بغیر لیاقت باغ منعقدہ جلسے سے خطاب تھا ۔بینظیر بھٹو کی لیاقت باغ آمد سے ساتھ ہی لیاقت باغ باغ باغ ہوگیا اور کارکنوں نے پر جوش نعروں میں اپنی قائد کا استقبال کیا اور ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی۔کسی کو کیا خبر تھی کہ یہی پھولوں کی پتیاں محترمہ کے جسد خاکی پر بھی نچھاوڑ کی جائیں گی ۔وہ مغرب کے قریب کا وقت تھا جب بینظیر بھٹو جلسے سے خطاب کرکے واپس جارہی تھی اور جیسے ہی وہ اپنی میں گاڑی میں سوار ہونے لگیں تو گاڑی کی چھت سے کارکنوں کی نعروں کا جواب دی رہی تھی کہ اچانک فائنگ شروع ہوتے ہی دھماکہ ہو گیا اور ہو جگہ افرا تفری پھیل گئی ۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ۔سب کو محترمہ کی فکر تھی۔محترمہ بینظیر کو سر میں گولی لگی یا گاڑی کے دروازے کا لیور کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا ۔بینظیر کوفوری طور پر مقامی ہسپتال میں لیجایا گیا جہاں ان کے ہمراہ رحمن ملک و دیگر بھی موجود تھے۔اسپتال کے باہر سینکڑو ں کارکنوں کی تعدا د پہنچ گئی ۔ڈاکٹروں کو انتھک محنت کے باوجو د بینظیر بھٹو جانبر نہ ہوسکی ۔ محترمہ بینظیر محترمہ دنیا سے رحلت کرگئی ۔یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور یہ وہ خبر تھی کہ کسی کو یقین نہ آئے کیونکہ ایک ہنستا بستا چہرہ اور دل چھولینے والی آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی ۔اس خبر کے بعد اسپتال کے باہر موجود سیکڑوں کارکن دھاڑے مار کر رونے لگے ۔اور ساتھ ہی ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ گئے تھے ۔
بینظیر بھٹو ایک عظیم لیڈر تھیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں بینظیر کی موت سے پاکستان کو جو نقصان پہنچا ہے شاہد ہی اس کا ازالہ ہو سکے ۔بینظیر بھٹو کا قتل کرنے والوں نے صرف ان کا قتل ہی نہیں کیا بلکہ پوری 18کروڑ عوام کے مستقبل کو بھی قتل کیا ۔ان کی موت کی خبر پر کوئی ایک آنکھ ایسی نہ تھی جو اشک بار نہ ہو ۔کوئی ایسا دل نہیں تھا جو غم کی کیفیت میں نہ تھا ۔
بلا شبہ محترمہ محترمہ بینظیر اسلامی دنیا کی واحد حکمرا ن تھیں۔جنہوں نے بین القوامی سطح پر اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنی پہچان بنائی۔ پاکستان میں جمہوریت کیلئے جو قربانیاں اور جدوجہد شہید رہنما نے دیں ان کے ان احسانا ت کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔
قابل افسوس حقیقت ہے کہ ہم مردہ پرست اور احسان فراموش طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے محسنوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں اور وقتی حکمرانوں چاہے وہ لٹیرے اور ڈاکو ہوں ان کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور حقیقی لیڈروں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے کہ جو کسی اجنبی کے ساتھ بی نہیں کیا جاتا ۔
محترمہ کو چاہنے والوں کو حلقہ آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے ان کو ان کے چاہنے والے چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہا کرتے تھے جوکہ اب ٹوٹ چکی ہے ۔ اور شاہد ہی پاکستان سمیت دنیا میں دوبارہ کوئی بینظیر پیدا ہو سکے۔بینظیر بھٹو کا قتل لیاقت علی خان اور والد ذوالفقار علی بھٹو کی طر ح ہماری پیشانی سے نہیں مٹایا جا سکتا ۔یہاں ایک بات یاد دلاتا چلوں کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی میں شہادت نصیب ہوئی ۔جہاں انہیں ضیاء الحق کے دور میں عدالتی حکم پر سزائے موت دی گئی تھی۔بینظیر بھٹو کے قتل نے پاکستان میں سیاست کی بنیادوں پر بھونچال پید کردیا ہے ۔کم ظرفی یہ ہے کہ آج پورے چھ سال بیت گئے ۔مگر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سمیت گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت کرنے والے پیپلز پارٹی نے اپنی شہید قائد کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا اور انہیں سزا دلوانے کی بات کی ۔حسب روایت سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اخباری بیان دیتے رہے اور کہتے کہتے نہیں تھکے کہ ہم نے شہید بی بی کے قاتلوں کا سراغ لگا لیا ہے اور انہیں جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
یہ یہاں دیکھنا ہوگا کہ اس قتل سے کس کو فائدہ پہنچا ۔اس کا گزشتہ 6سال سے مجھ سمیت پوری عوام اور خصوصاً پی پی کے جیالے اور محترمہ کے چاہنے والے کررہے ہیں۔اور مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا کہ پاکستان میں کی تقدیر ، چاروں صوبوں کی زنجیر کو توڑنے اور مٹانے والے پس پردہ عناصر اور ان کے عزائم سب بے نقاب ہوجائیں گے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy