پی ایم یوتھ بزنس لون

Published on December 28, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 294)      No Comments

\"Amjad
سب سے پہلے تو میں صحافتی دنیا سے دور رہتے ہوئے کچھ عرصہ سے اپنے معزز قارئین کرام کی الیکٹرانک خط و کتابت کے جوابات نہ دے سکنے کی ان سب سے معذت چاہوں گا جو میرے جوابات نہ دینے پر مجھ سے نالاں ہونے کی بجائے اس فقر میں پڑ جاتے ہیں کہ خدا خیرکرے بڑے دن ہوئے کالم نہیں آیا اور خیریت دریافت کرنے کی ہر ممکن کوشش کے ساتھ ساتھ میری حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ان سب کے نام اور ایڈریس لکھ کر جوابات دینے تو ذرا مشکل ہیں اس لئے ان سب کے ایک ہی قسم کے ایک ہی پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں بالکل خیریت سے ہوں کالم نہ لکھ سکنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ دس محرم الحرام کے بعد مصروفیات ہی کچھ اتنی بڑھ گئی تھیں کہ لکھنے لکھانے یا کسی کے کسی سوال کا جواب دینے کا موقع نہ مل سکا جبکہ دوسرا سوال ان کا پی ایم یوتھ بزنس لون پروگرام کے حوالے سے تھا ،جس کا جواب یہ ہے ،یوتھ بزنس لون میں ظاہری طور پر تو 45سال سے کم عمر ہرشناختی کارڈ ہولڈر پاکستانی اس کا اہل ہے ،جس کے قرضہ فارم نیشنل بنک کی تمام تر برانچز پر بلا معاوضہ دستیاب ہیں مگر جمع کراتے وقت پروسیسنگ فیس کے طور پر100روپے چارج کئے جاتے ہیں ،اس قرض کے حصول کیلئے ایک ایسا ضمانتی ہونا ضروری ہے جو گزٹڈ آفیسر ہو یاآپ کی مطلوبہ رقم کی ڈیڑھ فیصدملکیت رکھتا ہو ،اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آپ کے مطلوبہ قرض کی پہلی قسط وصول کرنے سے پہلے متعلقہ بنک آپ کے ضمانتی سے تین خالی چیک وصول کرے گا تاکہ قرض وصولی کے بعد آپ کے رفو چکر ہوجانے کی صورت میں بنک ان چیکوں کے ذریعے آپ کے ضمانتی کے خلاف کاروائی عمل میں لاتے ہوئے اپنی وصولی کر سکے جبکہ بنک کی شرح منافع نہ ہونے کے برابر یعنی کہ آٹھ فیصد ہے جس کا سات فیصد حکومت پاکستان ادا کرے گی ،اور فارم کی پشت پر دستخط کرکے آپ بنک کے ہر فیصلہ کے پابند ہونگے جس میں یہ بھی واضع کیا گیا ہے کہ اگر حکومت پاکستان مارک اپ میں دی گئی شرح کسی بھی وجہ کے سبب واپس لیتی ہے تو آپ بنک کی مقرر کردہ نئی شرع مارک اپ کے مطابق قرض کی ادائیگی کے پابند ہونگے ،اس مارک اپ کو بڑھا کر وہ چاہے دس فیصد کریں دیں چاہے تو پچیس فیصد وصول کریں،کاروبار سے آپ کو کچھ بچے نہ بچے مگریہ ہر صورت ادا کرنے ہونگے ورنہ خود جیل جانا ہوگا یا ضمانتی کو بھیجنا پڑے گا ،اب آپ بخوبی سمجھ گئے ہونگے کہ یہ قرض کس کے نام پر کن لوگوں کیلئے ہے اور کن کو ملے گا؟اگر نہیں سمجھے تو سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ غریب کے نام یعنی کہ بھوک افلاس کے مارے جو اپنے لخت جگر تک بیچنے کو تیار ہیں،بے روزگاری کا مارا جو نوجوان طبقہ خود کشیاں کررہا ہے،ان کے نام پر جاگیر داروں اور بیورو کریٹس کے بھتیجوں بھانجوں کیلئے ہے ،کیونکہ ضمانتیں ہمیشہ عزیز و عقارب ہی دیا کرتے ہیں مگر ان ان کا کوئی عزیز اتنی مالیت کی ملکیت نہیں رکھتا ہوگا ،اگر رکھتا ہوتا تو یہ بھوک افلاس سے مر نارہے ہوتے ، جن کی ضمانتیں دی جارہی ہیں ان کے عزیزو عقارت اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ یہ پی ایم یوتھ بزنس لون بے روزگاری و بھوک افلاس سے مرتے ہوئے لوگوں کے نام پر کھاتے پیتے گھرانوں کیلئے ہے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے حکومت کو کیا فائدہ ہوگا ؟اس کے جواب میں پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ پی ایم یوتھ بزنس لون پروگرا م کے شور و غل میں مظلوم کی آواز کم سنائی دے گی دوسرافائدہ یہ ہوگا کہ عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے میں مدد مل سکے گی ان حالات میں بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی کا وا ویلا کرتے ہوئے حکومتی جماعت کو اپنی تشہیر کا موقع مل سکے گا اور اس تشہیر کو دیکھتے ہوئے ہم بے وقوف پھر سے انہیں ووٹ دے دیں گے ،اور تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فارم جمع کراتے وقت دیئے گئے آپ کے سو سو روپے سے حکومت کو کروڑوں روپے کی بچت ہوجائے گی جو بلدیاتی الیکشن انتظامات پر دل کھول کر خرچ کئے جا سکیں گے ،جبکہ چوتھافائدہ یہ ہوگا کہ اگر حکومتی جماعت بلدیاتی الیکشن میں کامیاب نہیں ہوتی تو قرض کی شرع مارک اپ بڑھا کرحاصل کئے جانے والے منافع سے آزاد امید وار وں کو با آسانی خریدا جا سکے گا ،اگر حکومت کا کوئی ایساپلان نا ہوتا تو بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے اور بھی توبہت سے طریقے تھے جن پر عمل کرتے ہوئے جہاں چند ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کیا جارہا ہے وہاں کئی لاکھ بے روزگاروں کو روزگار دئے جانے کے ساتھ ساتھ کثیر زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا ، ان طریقوں میں سے ایک انڈسٹریز کو فروغ دینا ہے ،جہاں نہ کسی ضمانت کی ضرورت تھی اور نہ قرض لے کر کسی کے فرار ہونے کاکوئی خدشہ ،بلکہ یہ ایک مضبوط ملکی معیشیت کی ضمانت تھی ،اور آئندہ نسلوں تک اسے یاد رکھا جانا تھا مگر افسوس کہ ہم آئی ایم ایف کے پلان پر عمل کرتے ہوئے انڈسٹریز کوفروغ دینے کی بجائے گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے اس کے خاتمے پر ڈٹے ہوئے ہیں ،
اب رہاتیسرا اور آخری سوال جو پشاور کراچی لاہوراوکاڑہ اور کچھ بھکرکے باسی دوست احباب و قارئین کرام کی جانب سے میرا فون بند ہونے کے سبب میرے نمبر 03143663818پر بذریعہ ایس ایم ایس کیا گیا تھا کہ خان صاحب بڑے دن ہوئے کسی کا کوئی پردہ چاک نہیں ہواکہیں شادی وا دی کا چکر تو نہیں چل رہا جس کے سبب کالم لکھنے کا موقع نہیں مل پا رہا ؟جس کا جواب ہے کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں جب ہوگا تب سب کو پتہ چل جائے گا ،کالم نہ لکھ سکنے کی وجہ یہی تھی جو میں نے شروع میں ہی بتا دی خیر آج کیلئے اتنا ہی اگلے کالم تک کیلئے خُدا حافظ اپنا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ساتھ دعاؤ ں میں مجھے بھی یاد رکھئے گا (فی ایمانِ للہ) ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme