ڈی پی او قصور اسماعیل کھاڑک کے کھڑاک 

Published on September 19, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 1,004)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ 
ڈسٹرکٹ پولیس افسروں اور ڈپٹی کمشنروں کی طرف سے مختلف علاقوں یا شہروں میں لگائی جانے والی کھلی کچہریاں کوئی خاص بات نہیں یہ ایک اچھا اور قابل عمل قدم ضرور ہے اس طرح حکومت کی “گڈ گورننس “کا پتہ لگتا ہے آیا کہ عام شہریوں کو انصاف ملتا ہے یا نہیں بہر حال کچھ نہ کچھ سائلوں اور متاثرین کے دلوں ودماغوں کا بوجھ ہلکا ضرور ہوجا تا ہے اگر افسران کا روئیہ اور طرز گفتگو اچھا ہو تو حکومت کی “گڈ گورننس”بہتر ہوا کرتی ہے گذشتہ روز میرے شہر کے پریس کلب کے صدر حاجی عبدالقادر نے مجھے فون پر بتایا کہ آج 2بجے تھانہ کوٹرادھا کشن میں ڈی پی او قصور اسماعیل کھاڑک کی کھلی کچہری کا اہتمام کیا گیا ہے اور آپکی حاضری بہت ضروری ہے آپ نے کچہری کا صحافتی جائزہ لینا ہے قارئین کو میں یہ بتاتا چلوں کہ میں حکومتی کھلی کچہریوں میں بہت کم شرکت کرتا ہوں میری نظر میں یہ عوام کو طفل تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں اور بہت کم ایسے افسر ہیں جو اپنے اچھے کردار و عمل سے سائلین کو متاثر کرتے ہیں اور بعض افسروں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور ایک عرصہ تک دلوں اور دماغوں پر طاری رہتا ہے اس سے پیشتر بھی میں سابق ڈی پی او علی ناصررضوی کی کھلی کچہری میں شرکت کر چکا ہوں اس نے اپنے دفتر کے عین دروازے کے سامنے پڑاؤ ڈالا تھا او ردور دراز سے متاثرین اور سائلین آئے ہوئے تھے جن کے مسائل سن کر موقع پر احکامات جاری کررہے تھے بعض کا تو کام فوری ہوجاتا اور بعض ایک عرصہ تک تھانوں ، چوکیوں اور دفتروں کے چکر لگا لگا کر ہلکان ہوجایا کرتے در اصل سچی بات تو یہ ہے کہ افسران جتنے بھی اچھے کردار و عمل کے ہوں جب تک ان کے ماتحت چھو ٹے بڑے تھانے دار اور تفتیشی افسران اچھے نہ ہوں ضلعی افسر کے احکامات پر عملدر آمد ممکن نہیں ہوا کرتا میں نے ضلع قصور کے کئی تھانوں اور پولیس چوکیوں کا طائرانہ جائزہ لیا ہے ایسے تفتیشی آفیسرزدیکھے ہیں جو شراب و شباب کے رسیا ہیں اور تفتیش کے دوران بھی نشے میں ہوا کرتے ہیں اور بعض چوکیوں اور تھانوں کے سر براہ بھی ایسے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا شراب ،شباب اور کباب ہے میں نے سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کی ایک کھلی کچہری میں شرکت کی جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ ہاں یہ درست ہے کہ کئی ایک تھانوں اور چوکیوں میں ایسے کردار کے افسران ہیں مگر مجھے کوئی بتائے بھی تو میں ایکشن لوں میں نے کہا جی ایسے ہرگز نہیں ہوسکتا کون ہے جو اتنی ہمت وجرأت کرے آپ تو چلے جائیں گے اور شکایت کنندہ جھوٹے پرچوں کی زد میں رہے گا اور اسے بچانے والا کوئی بھی نہیں ہوگا انہوں نے جواباً کہا کہ میرے فون پر تو بتا سکتے ہیں نا ۔ یہ بھی ایک سچی حقیقت ہے کہ چند ایک صحافی ہیں جو دل گردے سے اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد کو بالکل ننگا کر دیتے ہیں ورنہ زیادہ تر ایسے نامہ نگار اور رپورٹر ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ان کے قلم سے کبھی پیشہ ور مجرم کا نام تک نہیں لکھا جاتا ہاتھ کانپنے لگتے ہیں میرے شہر کے متعدد صحافیوں کو بس اور بس مرغن کھانے اور مزے دار مٹھائیاں چاہئیں انکی خبریں اس طرح کی ہوتی ہیں “فلاں گٹر میں کتے کا بچہ گر کر مر گیا، دو موٹر سائیکلیں آپس میں ٹکرانے سے دونوں کو سخت چوٹیں آئیں، ریل گاڑی کے نیچے بلی کا بلونگڑا کچلا گیا، فلاں نائی کے استرے سے فلا ں شخص زخمی ہوگیا ،نا معلوم چور فلاں کی دکان لوٹ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے پولیس تفتیش کررہی ہے” حالانکہ ان کے علاقے میں جرائم کی ہولناکیاں ، تشویش ناکیاں اور خوف ناکیاں شریف شہریوں کا ناک میں دم کئے ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض دیانتداری سے اد اکرنے کی توفیق عطا فرمائے ایسے نامہ نگاروں اور رپورٹروں کے بارے میں متعلقہ نیوز ایڈیٹروں کو مطلع کیا جانا ضروری ہے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ ان کے ہاتھوں سے بننے والے صحافی چھوٹے بڑے تھانیدار کس حال میں ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کے چیف ایڈیٹروں کو جب میں نے ایسے نامہ نیموں کے بارے میں بتایا تو انہیں شو کاز نوٹس جاری ہوگئے اور پھر وہ مجھ سے ایک عرصہ تک ناراض رہے ڈی پی او قصور اسماعیل کھاڑک کی کھلی کچہری نے مجھے بہت متاثر کیا ہے مجھے خوشی ہوئی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی جسامت کا حامل یہ ڈی پی او کتنی ہمت و جرأ ت کا مالک ہے اس کی آواز میں وہی رعب اور دبدبہ دیکھا جو ہمارے قائد کا تھا انہوں نے جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی اور انجام تک پہنچا نے کا وعدہ کیا ہے انہوں نے امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے اقدامات بارے بتایا انہوں نے محرم کے دنوں میں فول پروف سیکورٹی کے سخت انتظا مات کرنے کی ہدایت کی ان دنوں عوام میں بھائی چارے کی فضاء قائم رکھنے کی اپیل کی امن کمیٹیوں کو فعال بنانے کا عہد کیا انہوں نے کہا کہ انصاف معاشرتی امن کا ضامن ہے امن و امان کی ذمہ داری پولیس کا اوّلین فریضہ ہے انصاف کئے بغیر جرائم پر قابو پانا نا ممکن ہے انہوں نے کہا اس لئے تھانوں کو جرائم پیشہ افراد کے لئے دارلحساب بنایا ہے جو کہ میری نظر میں ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا جب آپ ایسے تھانیدارکا تقررکریں گے جو اس کا اہل نہ ہو وہاں جرائم کی بیخ کنی بہت مشکل ہوا کرتی ہے میرے شہر کی چوکی کا انچارج بھی اس قابل نہیں کہ وہ جرائم پیشہ کو نکیل ڈال سکے بہتر یہ ہوگا کہ تھانوں اور چوکیوں میں محرر بنیامین جیسے دیانتدار افسران کی تقرری کو یقینی بنایا جائے جو سائلوں اور متاثرین کی داد رسی کرسکیں ورنہ آپ کی ساری جدو جہد اور کوششیں رائیگاں جائیں گی میری اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ آپ کے ارادے ، کوششیں اور وعدے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں تاکہ ہم شہری امن و سکون سے جی سکیں اور سو سکیں آپ جیسے پولیس افسران بہت کم ملتے ہیں اگر ہمیں مل ہی گئے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم شہری ،سماجی کارکن اور صحافی بھی مقامی پولیس کی صحیح انداز میں مدد اور تعاون کریں تا کہ جو افسران کو درست سمت قدم اٹھانے کے قابل بناسکے ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes