جرم اور مجرم کیا؟

Published on January 8, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 366)      No Comments

\"Farooq
اکثر جیلو ں کے باہر کچھ لکھا ہو تا ہے جس کو آپ نے بھی دیکھا ہو گا کبھی آپ کے کسی بھی دوست یا عزیز کے سا تھ جیل جانے کا اتفا ق ہوہو تو جیل کی دیوار پر خو بصورت سفیدی کر کے خو بصورت ہی لکھا ہوتا ہے نفرت انسانو ں سے نہیں بلکہ جرم سے ہے یہ پڑھ کربندہ سوچ میں پڑھ جاتا ہے کہ ان لو گوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے اور اوپر سے یہ لکھا ہے ضلع کچہری میں جب بھی جائیں تو قیدیوں کی وین کے قریب اکثر عورتیں اور بچے اپنے پیاروں کو ملنے کے لیے کھڑے ہو تے ہیں۔ملنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں مگر پولیس کا عملہ وہاں بھی اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مصروف ہو تا ہے جو رشوت نہ دے اس کو وین کے قریب ہی نہیں آنے دیتے چھوٹے چھوٹے بچے وین کی جالیوں میں قید اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کی کو شش کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا ہاتھ نہیں پہنچ پا تا جن سے ان کی حسر ت بھری نظریں ان کو دیکھ رہی ہو تی ہیں ان کی جوان بہنیں ، ماں بیٹیاں چھوٹے چھوٹے بچے وین سے چمٹتے نظر آتے ہیں یہ منظر بھی دل کو ہلا کر رکھ دتیا ہے آدمی کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں اصل میں جرم کیا ہے اور انسان کیا ہے یہ کبھی آپ نے سوچا ہے ؟کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے مجرم بن کر پیداا نہیں ہوتا اسے حالات مجرم بنا دیتے ہیں میں نے ایسے ایسے معصوم جوان دیکھے ہیں جن کے چہروں سے معصومیت ٹپک رہی ہو تی ہے لیکن وہ بنیادی طور پر مجرم ہوتے ہیں نہ با طنی طور پر قا بل نفرت ہوتے ہیں جر م کیا ہے جرم وہ ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے جس کام کرنے سے کسی کو اذیت پہنچے جب اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا تو نیکی اور برُائی کا عنصر اسمیں ڈال دیا ۔ اور اس کا ذین کھلا چھوڑ دیا ۔ اسے شعو ر عطاء کیا چا ہے وہ نیک کام کر کے نیکی کی طرف جائے چاہے وہ اپنے ذہین کا غلط استعمال کر کے جرم کے راستے پرچلا جائے اگرکسی کو غلط حالات میسر ہوں تو وہ برا آدمی بن جاتاہے ۔اگر کوئی شخص جرم کے راستے پر چلا جائے تو سب سے بڑے مجرم اس کے والدین ہو تے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی تر بیت صحیح طریقے سے نہیں کر سکتے ان کی تر بیت میں جھول رہی ہوتی ہے اس لیے انسان مجرم بن جاتا ہے اگر ہم رات کو سونے سے پہلے سوچیں کہ آج کتنے جھوٹ بولے ہیں کس کس کو تکلیف پہنچائی ہے کس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے کتنے بچوں کے مُنہ سے نوالہ کھنچا ہے یہ ترقی یا فتہ دور ہے لوگ اپنے والدین کی قدر ہی نہیں کرتے نہ ہی وہ مائیں رہی ہیں جن کے جسموں سے صلاح الدین ایوبی طارق بن زیادخالد بن ولید جیسے بیٹے پید ا ہوئے جہنو ں نے تا ریخ کا رُخ بدل دیا تھا وہ مائیں تھی وہ ہر وقت خدا کا نام لینے والی اپنے اللہ پر بھروسہ کرنے والی تھیں پا نچ وقت کی نماز ادا کر تی تھی قرآن پاک کی تلاوت کر تی تھیں صدقے دینے والی خیرات کرنے والی غریبوں کے ساتھ تعاون کر نے والی بچوں کو جہاد کی تعلیم قرآن پاک پڑھنے کا حکم دینے والی پاکیزہ حوریں تھیں اور تب یہ دینا کے عظیم جرنیل پید ا ہوئے تھے اور آج دیکھیں معاشرے کا کیا حال ہو چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خود کو مثال بنا کر پیش کرنا پڑے گا اگر ہم مثال ہونگے تو ہمارے بچے بھی مثال بنا کر اُبھریں گے جو ملک و قوم کے لیے بجائے اذیت کے شان بن کر ثابت ہونگے ہمیں یہ جرم ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی تب معاشرے میں جو بگاڑ ہے وہ بگا ڑ ختم کر نا ہو گا ۔ آج ہم اپنے بچوں کی تر بیت اچھی کریں گے پھر سے اسلام کے پہلے والے ماحول میں چلے جائیں گے اپنے آپکو بھول کر دوسروں کی خدمت کریں گے اگر ہم اپنے آپ کو سدھا ر لیں گے تو ہم اپنے معاشرے کو اپنے ملک کو بلکہ ساری اسلامی دنیا کو زوال سے بچاسکیں گے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes