ننھی کلیاں 

Published on January 25, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 352)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
ننھی زینب صرف قصور کی ہی نہیں پوری قوم کی بیٹی تھی نہ جانے والدین نے کیسے کیسے خواب بُنے ہوں گے اس بیٹی کے لئے ؟ درندوں نے پوری قوم کو سو گوار کردیا ہے کوئی ایسا فرد نہیں جو زینب کے بہمانہ قتل پر اشک بار نہ ہوا ہو ! ٹی وی چینلوں پر صرف اور صرف زینب زینب ہوتی رہی خبر نشر کرتے ہوئے اینکر سسکیاں لیتے تبصرہ نگاروں کا کلیجہ منہ کو آتا رہا ہر چینل سوگ کی حالت میں اپنا پروگرام نشر کرتا رہا ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد زینب کے غم میں کھوئے رہے مسکراہٹوں ، قہقہوں کی جگہ سوگ نے لے لی زینب کا والد میرا کولیگ تھا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد با ران سے ملاقات ہوتی رہی وہ قصور کے سرکاری ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں بحثیت سٹور انچارج کام کررہے ہیں پابندی وقت اور نظم و ضبط کے داعی اور نمازی پرہیز گار ہیں دوستوں کے دوست اور اعلیٰ افسروں کے وفادار اپنے کام سے محبت وفا شعاری اور کفائت شعاری ان کا خاصہ ہے وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں وہ اپنے خاندان کے اہم فرد ہیں انہوں نے کبھی کسی سے دغا نہیں کیا کسی سے کبھی مکر و فریب نہیں کیا نہ جانے اتنا بڑا دکھ کیوں پلے پڑ گیا شائد کوئی آزمائش ہو مومنوں کی آزمائش ہونا کوئی بڑی بات نہیں مشاہدے میں آیا ہے کہ جمہوری دور غریبوں کے لئے دکھ ، غم اور رنج لے کر آتا ہے مہنگائی ، بے روزگاری ، غریب عوام کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے چند برسوں سے معصوم بچیوں اور بچوں کے اغواء اور جنسی درندگی کے بعد قتل کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے لگتا ہے قانون نے آنکھیں موند لی ہیں جمہوریت نے غریبوں کی قسمت میں رونا لکھ دیا ہے سیاست دانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ غریبوں کے گلے گھونٹتے رہیں گے بد معاشوں ، بد قماشوں ، چوروں ، ڈاکوؤں کی لگامیں کھلی چھوڑ کر غریبوں کے شب و روز میں آگ برساتے رہیں گے آج کی جمہوریت نے حد مکا دی ہے کوئی ایسا دن نہیں گذرتا جب کسی نہ کسی گاؤں ، قصبے اور شہر میں کسی بچی یا بچے کا اغواء نہ ہوتا ہو اور پھر جنسی درندگی کے بعد قتل نہ ہوتا ہوبلغاریہ میں شائد ہی کبھی ایسا سانحہ ہوا ہو چین میں ایک استاد نے اپنے ایک معصوم شاگرد سے بد فعلی کی تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا بعد از تفتیش عدالت نے موت کی سزا کی سفارش کی بعد ازاں اس کی کنپٹی پر رائفل رکھ کرگولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ایران اور بنگلہ دیش میں بھی بد فعلی کرنے والے مجرموں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا یا گیا اور بھی کئی ایک ممالک ہیں جہاں ایسے بد قماشوں کو پھانسی دی جاتی ہے افسوس کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہورہا 1981میں لاہور باغ بان پورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی بچہ اغواء ہوا تھا بعد میں اسکی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی فوجی آمر ضیاء الحق کا مارشل لا ء تھا قاتل گرفتار ہوئے ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگی جہاں آج کل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے پورے لاہور نے یہ منظر دیکھا کہ پھانسی کیسے لگتی ہے چاروں اغواء کار پورا دن پھانسی کے پھندے پر جھولتے رہے آرڈر یہ تھا کہ لاشیں غروب آفتاب کے بعد اتاری جائیں اس منظر کے بعد 10سال تک ایسا کوئی واقع نہ ہوا پھر جمہوریت بحال ہوگئی اور عصمتوں کے لٹیرے قاتل ، اغواء کار ، بردہ فروش ، چور ڈکیت جگہ جگہ ناکے لگاتے رہے اور معصوم جانوں سے کھیلنے لگے سیاست دانوں کی چھتری تلے پولیس کی سر پرستی میں منظم جرائم ہونے لگے یہ زینب ہی نہیں اس سے پیشر11معصوم بیٹیاں جنسی درندوں کے ہاتھوں موت کی وادی میں پہنچ چکی ہیں سانحہ قصور ایک بڑا مشہور سانحہ ہے جس میں 250کے قریب نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے بد فعلی کے دوران ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کیا جاتا رہا چند دن میڈیا نے اس سانحہ کو خوب کھنگالا متاثرین کے علاوہ مجرموں کی نشاندہی بھی کی پھر خاموشی نے آن لیا اور مسئلہ نو د و گیارہ ہوگیا اگر سانحہ میں ملوث با اثر کردار وں کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج کا یہ منحوس دن دیکھنے کو نہ ملتا جس ملک میں چوکیدار چوروں کے ساتھ مل گئے ہوں وہاں امن و سلامتی کیسے ممکن ہو سکتی ہے غریبوں کے گھر کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں پولیس حکمرانوں کی باندی بن چکی ہے اسی لئے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہاہے چھوٹی عدالتیں اور پولیس کے تفتیشی افسران غریبوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں عوام کی سوچیں سلب ہو چکی ہیں انتخابات میں ایم این اے کو 20کروڑ اور ایم پی اے کو 3کروڑ میں ٹکٹ فروخت ہوتاہے منسٹر ایک ارب تک ایسی حالت میں تو ملک کی لوٹ مار یقینی ہو گی۔ جمہوری نظام کرپٹ مافیا کے ہاتھوں میں آچکا ہے قوم اچھائی کی امید نہ رکھے جس جمہوری نظام میں متاثرین انصاف کے لئے ملک کے آرمی چیف اور چیف جسٹس کی طرف نظر یں جمائیں گے تو وہاں جمہوریت کیسے پھل پھول سکتی ہے جمہوریت پر حرام خور سیاست دان مسلط ہیں انہوں نے ملک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے غریب عوام کا ناک میں دم کردیاہے قصور کے گردو نواح میں قبائلی سرداروں کی طرح کے سرداروں اور چوہدریوں کا راج ہے وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ بڑی تگ و دو کے بعد پولیس نے زینب کے قاتل جنسی درندے عمران قادری کو ڈھوند نکالا ہے یہ کریڈٹ صرف پولیس کو ہی نہیں آرمی کی حساس ایجنسیوں کو بھی ملنا چاہئیے آرمی ایجنسیوں نے جنسی درندے کو تلاش کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کی وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے گذشتہ روز ٹی وی چینلوں پر اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا کہ سفاک قاتل عمران کو چوک میں اُلٹا لٹکا کے پھانسی دینی چاہئیے انہوں نے کہا کہ ان کے بس میں نہیں مگر وہ چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں کہ اس درندے قاتل کو سرِ عام پھانسی کے احکامات جاری کریں مگر افسوس کہ انہوں نے زینب کے والد کو اپنے خیالات کے اظہار سے روکنے کے لئے ان کے سامنے پڑے مائک کے سوئچ کو بند کرکے پرے ہٹا دیا ایسا کرنے سے ان کا دل ٹوٹا ہے یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اب ساری قوم عمران کو سرِ عام پھانسی دئیے جانے کا مطالبہ کررہی ہے تو عدلیہ کو چاہئیے کہ وہ اپنا فرض نیک نیتی سے ادا کرے ۔ایک خبررساں ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ عمران کے مختلف بینکوں میں ایک سو باسٹھ(162) اکاونٹس ہیں اور وہ ذہنی مریض یا آسیب زدہ نہیں ہے اس کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہیں مزید تفتیش کی ضرورت ہے لہٰذا حکومت کو اعلیٰ تحقیقاتی جے آئی ٹی بنانا ہو گی ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Weboy