تھانے کچہری کی سیاست و عوام 

Published on February 13, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 496)      No Comments

مہر سلطان محمود
سیاستدانوں پر کرپشن کے بعد سب سے بڑا ٹیگ تھانے کچہری کی سیاست کا لگتا ہے سیاسی مخالفین کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو وہ مدمخالف کو عوامی سطح پر رسوا کرنے کیلئے استعمال کر سکیں اس لیئے یہ ضروری ہے کہ واضع کیا جائے حقیقت سے قریب تر اس سیاست کا اصل ذمہ دار ہے کون!ایک تجزیئے کے مطابق ہماری جھوٹی اناء وناانصافی اس مکروہ سیاست کی داغ بیل رکھتی ہے بحثیت قوم ہم نے سچ کو شجر ممنوعہ بنا دیا ہے ہماری ساری عقل جھوٹ کے تابع ہے جس کا انتہائی رزلٹ تھانے کچہری کی سیاست میں وقت ،پیسے اور جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے ہم اپنے ناجائز کاموں کو نکلوانے کیلئے اس سیاست کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں سب سے بڑھ کر ہمارا دارومدار اپنے منتخب عوامی نمائندوں پر ہوتا ہے کچھ عوامی نمائندے تو اس سیاست کا شوق رکھتے ہیں بلکہ انکو لت پڑی ہوتی ہے اور بعض اپنے ووٹروں سے بلیک میل ہو کر اس شجر ممنوعہ کو چکھ لیتے ہیں بعد میں اس شجر ممنوعہ کو چکھنے کا صلہ ان کے مخالفین الیکشن میں طعنے مار کر ان کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچاکر دیتے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنامیرے حلقہ 138 این اے کے منتخب عوامی نمائندوں کو ہے سیاستدان الیکشن میں مخالفت کرنیوالوں کو سبق سکھانے کیلئے اس نسخہ کیمیاء کو استعمال کرتے ہیں جیسے آج کل کے نوجوان عشق کرتے ہیں۔
بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں کسی بھی قسم کی بے ایمانی کرنے دھوکہ دہی ،فراڈ بازی،اور کسی کو دنیاوی چودراہٹ سے ہٹانے خود کو بڑا چکڑ چوہدری ثابت کرنے کیلئے اس قسم کی سیاست کی دوکانداری استعمال کرنا عام سی بات ہے اس قسم کے بندے آخر کار عبرت ناک موت کا شکار ہوتے ہیں اس قسم کی بہت سی مثالیں ہم روزانہ دیکھتے ہیں مگر کیا مجال کہ عبرت پکڑیں ہم سچ بولنے کو گناہ اور جھوٹ بولنے کو ثواب سمھجے بیٹھے ہیں تھانے کچہری کی سیاست کے اصل ذمہ دار ہم عوام ہیں نہ کہ یہ مٹھی بھر سیاستدان اور گاؤں کے ڈیرے دار ،کسی پر ذیادتی کرلینے یا کر بیٹھنے کے بعد ہم اسے تسلیم کرنے کی بجائے اُلٹا مظلوم پر ہی مقدمات کا اندراج کروانا شروع ہوجاتے ہیں کوئی آفیسر یا سیاستدان کسی کے پاس یہ پیغام نہیں بھیجتا کہ آپ میرے پاس جھوٹے مقدمات لیکر آئیں ہم خود انہیں جا کر مجبور کرتے ہیں ووٹ نہیں دیں گے آپ کو چوہدری نہیں مانیں گے وغیرہ وغیرہ !اس کے بعد پھر تھانے کچہری کی سیاست کرنیوالے سیاستدانوں اور گاؤں کی سطح پر ڈیرداروں کی لمبی لائن لگ جاتی ہے جو اس لت کا شکار ہوتے ہیں محلے و علاقے میں اپنی چودراہٹ قائم کرنے کیلئے وہ سول و قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسران کے ساتھ تعلقات بنا کر ظلم و ستم کا نہ کرنے والا سلسلہ شروع کرتے ہیں موجودہ دور میں یہ وباء موذی مرض کی طرح پھیل کر آکاس بیل کی مانند اس معاشرے کو کھا چکی ہے اس سے بچنا اب عوام کے بس میں ہے لیکن عوام کی حالت اس ہاتھی جیسی ہے جس کے پاؤں میں ایک نا پختہ زنجیر باندھ دی جاتی ہے اور وہ ساری عمر اس کی غلامی میں گزار دیتا ہے ۔
ضلع قصور میں بھی اسی طرح کے ہزاروں واقعات رونماء ہو چکے ہیں انتہائی اقدام کے طور پر مدثر قتل کیس بھی اسی کا شاخسانہ ہے بڑے بڑے نام ملوث ہیں اس سیاست کے کھلاڑیوں کے جو سچ لکھنے والوں کو بھی اپنے حلقے میں سیاست کے ذریعے سبق سکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں پسند کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور خریدنے کیلئے ناجائز مقدمات کا سہارا لینا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے یہ پریکٹس ملک عظیم میں مکمل طور پر جڑیں پیوست کر چکی ہے اس سیاست کا خاتمہ صرف اور صرف حقیقی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے یا پھر بے لاگ احتساب ورنہ یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا میرے حلقہ انتخاب میں بھی کچھ ایسے ہی نعرے بلند ہو رہے ہیں 138 این اے پی پی 175/PP176 البتہ سیاستدانوں کا طریقہ واردات زرا ہٹ کے ہوتا ہے کچھ تو سرعام ہی اور کچھ اپنے ٹاؤٹ حضرات کو فرنٹ میں بنا کر مثال کے طور پر اسحاق ڈار صاحب کی طرح ملک سے بھاگنا ہے یا پھر پولیس انسپکٹر عابد باکسر و دیگر سیاستدان نماز روزوں اور دم درود کے پابند ہو کر یا بن کر بھی ایسے کو کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں بس لبادہ زرا سے اوڑھ لیا جاتا ہے اور کچھ اس وجہ سے بدنام ہو جاتے ہیں کہ ان کے قریبی عزیز پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہیں بہت سارے لوگ منتخب عوامی نمائندوں پر الزام لگانا اپنا فرض خیال کرتے ہیں کئی بار ثبوت مانگنے پر نہیں ملتے ہیں میں کسی کا حامی نہیں مگر ثبوت مانگتا ہوں محض پروپیگنڈہ کرنے سے آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے یہ کارخیر سرنجام دلوا کر پھر الزام منتخب لوگوں پر لگا دیتے ہیں انہیں یہ یاد نہیں ہوتا کہ وہ خود پیسوں کی گیم میں ماضی قریب میں کتنے ڈاکے چوریاں اور بوگس مقدمے درج کروا چکے ہیں منتخب نمائندوں کو عوام خود جا کر مجبور کرتی ہے کہ ہمارا جھوٹا پرچا ہمارے مخالف کے خلاف کروادیں جیسے بھی ہو ذیادہ تر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ سیاستدان اپنے اپنے ووٹرز کو دوسرے سیاستدان کے عتاب سے بچانے یا پھر ووٹ نہ دینے پر سبق سکھانے کیلئے اسی حربے کو استعمال کرتے ہیں اس کی واضع مثال حلقہ پی پی 176 کے نواحی گاؤں بگھیل سنگھ میں ہونے والا جھوٹا ذیادتی کا واقع ہے کمزور پر چڑھ دوڑنا یہ انتہائی ظلم کا آخری درجہ ہے سیاستدانوں کو حریفوں کو عوام میں رسوا کرنے کیلئے مکمل ثبوتوں کے ساتھ دعوی کرنا چاہیے اور دعوی کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ خود وہ کہاں پر کھڑے ہیں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ماریں گے تو پتھر اپنے گھر میں بھی آئے گا ۔
آخری لائنیں لکھ کر بات کو سمیٹتا ہوں اس سیاست کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں نہ کہ یہ مٹھی بھر مافیاء جو روزانہ یہ فعل سرانجام دیتا ہے مگر ہم لوگ اتنے بے حس ہیں اپنی زبانوں پر لگے تالے کھولنے پر تیار نہیں ہیں پتہ نہیں ابھی کتنے مدثر ،نقیب اللہ ،انتظار سیالکوٹ کے دو بھائی ناجانے اور کتنے جو شکار ہوچکے ہیں یا پھر مستقبل قریب میں ہوگے کسی کو بچانے کیلئے آگے کب بڑھیں گے میں خود اس سیاست کا شکار ہو چکا ہوں اب بھی یہ مافیاء کوشش کرتا ہے مگر میں نے لبوں کا تالہ کھول دیا ہے اس سیاست کی مداخلت ہر جگہ پر ہے انکار نہیں اللہ کرے سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدل کی زنجیر کو ہلایا ہے لوگ پر اُمید ہیں کبھی تو انصاف ملے گا ماڈل ٹاؤن والوں کو بلدیہ کراچی والوں کو مہاجر کا نعرہ لگاکرقتل کرنیوالوں سے سندھی وڈیروں کے سامنے سر اُٹھا کر اپنی عزتوں کو بچانے والوں کے عزیز و اقارب کو کبھی تو انصاف ملے گا ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy