انتہاء پنسدانہ رویوں کے اثرات

Published on March 11, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 432)      No Comments

تحریر ۔۔۔ شاہدجنجوعہ
حالیہ تاریخ میں پاکستان میں یہ جس بدتہزیبی، عدم برداشت اور تشدد پرستانہ کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے اسکا نتیجہ قتل عام ہوگا کسی کی جان محفوظ نہیں رہےگی۔ اسلام تو یہ ہے کہ مسجد نبویؐ شریف میں رسولؐ اللہ کا بدترین مخالف جگہ جگہ پیشاب کرتا ہے جسکے ردّعمل میں اسے زدوکوب کرنا تو درکنارکسی نے زبان سےبھی اس کافر کو برا بھلا نہیں کہا اور رسولۖ اللہ نے اس کا فضلہ خود اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔
لیکن آج ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم اس عدم برداشت اور متشددانہ رویے کو عقیدے اور اسلام سے جوڑ کر فخریہ اپنی حیوانگی اور جاہلیت کا پرچار کررہے ہیں۔ اس انتہاءپسندی کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس پر قہقے لگانا اسلام اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے مترادف ہے ۔
ایسے گھٹیا عمل سے پاکستان میں عامۃ الناس مزہبی طبقات سے مزید متنفر ہونگے اور شاید ایسے واقعات اس درپردہ سازش کا حصہ ہیں جسے پاکستان دشمن اور استعماری طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔
مگر افسوس یہ ہے کہ حضور رحمت عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے مزہبی لوگ انتہائی جہالت و نادانی میں بڑے فخر سے ایسے شرانگیز عمل کا حصہ بن رہے ہیں ۔ جنکے سے سر شرم سے جھک جانے چاہیے تھے وہ فخریہ اس غلیظ حرکت کو ختم نبوت اور ناموسِ رسالتمآب سے جوڑ رہے ہیں ۔
یادرکھیں پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اختلاف رائے کی بنیاد پر جوتا یا ڈنڈا مارنےکی ابتداء منہاج القرآن مسجد ماڈل ٹاؤن سے ہوئی جب #مولاناطاہرالقادری کے سر پر یوم الجمعہ کو ایک بزرگ نے اچانک اٹھ کر زور سےڈنڈامارا مگر وہ حضرت کے سر پر لگنے کی بجائے انکی کن پٹی پر لگا ۔ شدت درد سے حضرت کے کراہنے کی آواز اور چیخیں اسپیکر کے زریعے میلوں دور تک سنی گئیں ۔
مجھے یاد ہے اسوقت سیاسی لوگوں نے تمام تر اختلاف رائے کے باوجود اس واقعے کی شدید الفاظ میں مزمت کی تھی ۔ ڈنڈا مارنے والا شخص موقع پر پکڑا گیا اور مولانا کے باڑی گارڑز نے اسے مسجد میں شدیدزدوکوب کیا اور اسکی خوب مرمت کی ____ مگرمنہاج القرآن میں بحثیت مجموعی اس کلچر کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے مزید جزباتی نعرےبازی اور مخالفین کے گھر جاتی امراء جاکر ان کے بخرے ادھیڑنے کے اعلانات کئے جاتے رہے جو مزہبی طبقات میں منفی سوچ کی عکاس ہے یہ سلسلہ دیگر مزہبی راہنماؤں نے بھی جاری رکھا۔
مگرحالیہ دنوں میں اسے تیزی سے فروغ ملا اور آپس کی لڑائی میں ریاست خاموش تماشائی بنی رہی اور اس نے اپنی زمہ داری پوری نہیں کی ۔
جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بداخلاقی اور بے غیرتی و بے حمیتی کا یہ طوفان مدرسوں تک جاپہنچا۔ گزشتہ روز وزیرخارجہ خواجہ آصف پر تحریک انصاف کے ایک جیالے نے سیاہی پھینکی، اس سے قبل پاکستان کے سابق سپہ سالار پرویزمشرف کو بھی جوتا مارا گیا۔اسطرح کی ایک واردات میں مولانا سرفراز نعیمی قتل ہوئے۔ آج سابق وزیراعظم پاکستان #نوازشریف کی باری تھی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر نوازشریف کے سیاسی مخالفین اسے مظلوم اور #شہید بننے کا موقع دینےکی بجائے یکجان ہوکر سیاسی میدان میں اپنے ایک بھرپور فلاحی و رفاعی ایجنڈے سے اسکا مقابلہ کرتے اور اسے بیک فٹ پر لاکھڑا کرتے۔
مگر بدقسمتی سے ایسا کرنے کی بجائے ایسی بدترین مثال قائم کی گئ ہے کہ جس سے مزہبی و جنونی لوگ وقتی طورپر تو واہ واہ کرکے خوش ہولیں گے مگر اس حرکت سے پاکستان عالمی دنیا میں بدنام ہوگا اور اسکے اثرات کیا مرتب ہونگے شاید یہ بھولی عوام اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے ۔
پے درپے ہونے والے ایسے واقعات کے بعد اب لازم ہے کہ ریاست پاکستان عدلیہ کو گالیاں دینے والوں اور اس طرح کی ِحرکات کرنے والوں کو بلاامتیاز قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی زمہ داری پوری کرتے ہوئے سوموٹو ایکشن لیں ورنہ شکوک و شبہات کی یہ گرد باقی اداروں کے سربراہان تک بھی جائیگی جس سے اس خدشے کو تقویت ملے گی کہ یہ جنگ دراصل ختم نبوت کی نہیں پاکستان میں پارلیمانی بالادستی کو روکنے کی ایک منظم کاوش ہے ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes