جاپانی اور یورپی خواتین کے ازدواجی مسائل 

Published on April 2, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 316)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
جاپان میں خواتین اپنی زندگی میں بھلا کتنے بچوں کو جنم دیتی ہیں اس سلسلے میں اعدادو شمار اکٹھے کئے جارہے ہیں تاکہ اصل صورتحال سامنے آسکے 1990کے وسط میں جاری ہونے والے شماریات کے جائزے کے مطابق ایک جاپانی عورت کے ہاں اوسطاً 1.57بچے پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعداد اب تک ریکارڈ ہونے والے اعدادو شمار میں سب سے کم ہے حالانکہ آبادی کا توازن برقرار رکھنے کیلئے یہ تعداد کم از کم 2.1ہونی چاہئیے اگر آبادی کے اضافے میں مندی کا یہ رجحان برقرار رہا تو خدشہ ہے کہ جاپانی لوگ خفتہ ہوجائیں گے آبادی میں اضافے کی گرتی ہوئی شرح کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اب شادی کرنے کے بجائے کنواری رہنے کو ترجیح دینے لگی ہیں چند تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بیشتر خواتین شادی کرنے کے باوجود بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں بچے پالنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی ہیں اُن کے خیال میں 70فیصد یورپی خواتین بچوں کی پرورش سے لطف اندوز ہوتی ہیں اس کے بر عکس جاپان میں ایسی خواتین کا تناسب صرف 20فیصد ہے اس مسئلے کا تعلق سماجی اقدار کے شعور سے ہے لہٰذا اسے حل کرنا خاصا دشوار ہے ایک خصوصی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ ایسی کارکن خواتین جنکی عمر یں 20دہائی میں ہیں اُن میں سے 60فیصد کا خیال ہے کہ شادی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے شائد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ازدواجی بندھن انکی آزادی چھین لیتا ہے یا پھر شادی کرنا ایک طرح سے قربانی کی بھینٹ چڑھنے کے مترادف ہے یہ حقیقت ہے کہ یورپ کے بیشتر ممالک میں خواتین شادی کرنے سے گریز کرتی ہیں وہ خود کو آزاد رکھنا پسند کرتی ہیں وہ شادی کے بندھن کو غلامی تصور کرتی ہیں اسی لئے بعض یورپی اور مغربی ممالک میں طلاق کی شرح زیادہ ہے جاپان اور جرمن میں دو عالمی جنگوں کے باعث عورتوں کی تعداد زیادہ پائی گئی ہے عراق ، ایران اور دیگر ایسے عرب ممالک جہاں جنگ وجدل کا سما ں رہتا ہے مردوں کی تعدا د کم ہورہی ہے اور عورتوں کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے جرمن عورتیں انتہائی وفا دار ہوتی ہیں شادی کو اپنا فریضہ سمجھتی ہیں اور اپنی عمر سے زائد مرد سے شادی کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں 40سال سے زائد عمر کے لوگوں کو بہت پسند کرتی ہیں ایسے اشخاص سے محبت کرتی ہیں جو انکی خواہشات کا احترام لازم سمجھے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں قید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کے ایک کیمپ جو کہ خواتین میڈیکل کالج کے راستے میں واقع تھا ایک پاکستانی فوجی سے میڈیکل کی طالبہ نے عشق پیچا لڑایا کہ جب قیدیوں کی واپسی ہوئی تو وہ بہت پریشان ہوئی اس نے پہلے انڈیا کا رخ کیا ازاں بعد پاکستان جاکر اس فوجی کو تلاش کیا اورآخر اسے مل گیا وہ فوج سے فارغ ہوکر اپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کررہا تھا اور وہ پہلے ہی شادی شدہ تھا اس نے سب کچھ قبول کرتے ہوئے اس فوجی سے شادی کرلی اور ریلوے میں بحثیت لیڈی ڈاکٹر ملازمت اختیار کرلی اور اپنے فوجی خاوند کو ریلوے میں واچ مین بھرتی کروایا حیرانی اس بات کی ہوئی کہ ریلوے کا ہر آفیسر لیڈی ڈاکٹر کو طلاق لے کر اس سے شادی پر زور دینے لگا مگر اس نے ان افسروں پر تھوک دیا اور اپنے خاوند کے ساتھ عمر گذاری یہ ہے وفا داری ایسی اور بھی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جہاں جرمن خواتین بھوکی رہ کر بھی غیروں سے شادی رچا کر اپنی زندگی کے اچھے بُرے شب و روز ہنسی خوشی گذار دیتی ہیں کینڈین خواتین بھی کچھ اس طرح کی ہیں وہ بھی وفاداری کا ہنر جانتی ہیں امریکن اور برطانوی خواتین مردوں سے دوستی رکھنا پسند کرتی ہیں اس لئے لاکھوں کنواری خواتین مائیں بن جاتی ہیں جن کو فلاحی ہوسٹلوں میں پناہ ملتی ہے ان بچوں کو اپنے والد کا کچھ پتہ نہیں ہوتا بوائے فرینڈ کا کلچر اب کئی ممالک میں فروغ پانے لگا ہے کم عمری میں دوستی پروان چڑھنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے ترقی کرتا جارہا ہے اب تو کئی ایک تیسری دنیا کے ممالک فلپائن جیسے ممالک میں بھی کنواری مائیں بننے کا شوق فروغ پارہا ہے ایک فلپائن عورت نے بتایا کہ اس کے تین بچے ہیں اب میرا بوائے فرینڈ مجھے چھوڑ چکا ہے اور میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہوں اب وہ محسوس کرنے لگی ہے کہ یہ فعل انتہائی گھناؤنا ہے مسلمانوں کا مذہب عظیم مذہب ہے جس میں عورت کو باوقار زندگی گذارنے کا موقع حاصل ہوتا ہے اسے کسی نوع کی مصیبتوں سے قطعی پالا نہیں پڑتا اور قانونِ اسلام عورتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اسی لئے غیر مذہب کی بیشتر خواتین مسلمان مردوں سے شادی کی خواہاں ہوتی ہیں اور اب یہ عمل فیس بک پر ترقی کرتا جارہا ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme