جس دن ملک پرشب وخون ماراگیامیں گھرچلاجاؤں گا۔ چیف جسٹس پاکستان

Published on April 21, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 312)      No Comments

لاہور(یواین پی)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ میں پاکستان کا چیف جسٹس ہوں عوام کا نہیں، مجھے پاکستانی قوم کے چیف جسٹس کے طور پر فیصلے کرنےہیں، عوام کیلئےبنیادی حقوق کی جنگ لڑرہےہیں ، جس دن ملک پرشب وخون ماراگیامیں گھرچلاجاؤں گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاہے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے اور کس میں ہمت ہے مارشل لاءلگائے، سپریم کورٹ کے 17 ججز مارشل لاءنہیں لگنے دیں گے۔
لاہور میں یوم اقبال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا، یہ ملک مستقل جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میری نظر میں سب سے اہم چیز تعلیم ہے، تعلیم سے متعلق کسی چیز پر سمجھوتا نہیں کروں گا، قوم کی بقا کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے، کیا ہم نے ایسے موقع پیدا کیے جو بچہ ڈاکٹر بن کے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے اسے بلا سفارش یا ایسا تعلیمی نظام میسر ہو جہاں جاکر وہ تعلیم حاصل کرسکے‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بجائے تباہ کیے جارہے ہیں ، پنجاب یونیورسٹی کی 80 ایکڑ زمین حکومت کوکیوں دی، ہمارے ملک میں یہ تعلیم کا عالم ہے، بلوچستان میں 6 ہزار پرائمری سکول پانی اور بیت الخلاءکے بغیر چل رہے ہیں، بچیاں حاجت کے لیے فصلوں میں جاتی ہیں، پینے کے لیے پانی میسر نہیں، پنجاب میں اسی طرح کی صورتحال ہے، کے پی میں بتایا گیا وہاں بہت اسکول ہیں جہاں پانی اور چار دیواری تعمیر نہیں ہوسکی، یہ کون دے گا؟ ہمارا ٹیکس کا پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو کہاں ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے اپنے اوپر وہ کیفیت طاری کریں جس میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہو، بنیادی حقوق دینے کا جذبہ ہو‘۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’امتیازی کلچر کو ختم کرنا ہوگا، بنیادی حقوق کی ذمہ داری کس کی ہے، کیا وہ پوری کی گئی، یہ میری ڈیوٹی ہے اور اس پر پرفارم کرنے کو تیار ہوں، اس میں میری مدد کریں اگر فیل ہوجاؤں تو اپنے آپ کو ساری زندگی معاف نہیں کر پاؤں گا‘۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’یہ میری نسل اور قوم کا حق ہے، اس حق کو استعمال کریں، کہیں ہمیں تعلیم چاہیے، جو والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں کوتاہی کررہے ہیں وہ مجرم ہیں‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’انسان کی زندگی بہت نایاب اور قیمتی ہے، ہم کیڑے مکوڑے نہیں، کیا یہ زندگی بے چارگی، مار کھانے، کسمپرسی اور ناجائز قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے ہے یا منہ بندی کرنے کے لیے ہے، زندگی بولنے کے لیے ہے لیکن جب کوئی بولنے کی کوشش کرت ہے اسے بولنے نہیں دیا جاتا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’زندگی صحت کے ساتھ جڑی ہوئی، جس ہسپتال میں گیا وہاں ایم آر آئی مشین نہیں، سی سی یو نہیں، کہیں انٹرا ساو¿نڈ نہیں، خیبرپختونخوا میں الٹرا ساﺅنڈ کرنے کے لیے لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت ہے، کیا یہ رائٹ ٹو لائف ہے؟ 1300 دوائیاں جو ہسپتال میں مفت تقسیم کی جانی چاہئیں وہ نہیں مل رہیں‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جس ووٹ کی قدر اور عزت کے لیے فرماتے ہیں اس کی عزت یہ ہے کہ لوگوں کی عزت کریں ان کو وہ حق دیں جو آئین نے ان کو فراہم کیا، میں نے بنیادی حقوق کے لیے کام کیا، کیا کوئی غلط کام کیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدلیہ مکمل آزاد ہے، میرا وعدہ ہے ہم کسی کا دباو¿ قبول نہیں کریں گے، سن کر حیرت ہوتی ہے، جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لاءآرہا ہے، کون لگا رہا ہے مارشل لائ؟ کس نے لگانے دینا ہے؟ کس میں ہمت ہے؟ یہ ملک صرف جمہوری ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور جمہوریت تھا اور ملک میں صرف جمہوریت رہے گی‘۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’پہلے میں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن اب کہتا ہوں کہ جس دن شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17 ججز نہیں ہوں گے، یہ 17 ججز مارشل لاءنہیں لگنے دیں گے، جب کہ کسی جوڈیشل مارشل لاءکا تصور ذہن میں ہے نہ آئین میں ہے، یہ کسی کے دل کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے، کیوں لوگوں کو اضطراب میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، ماورائے آئین کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’قوم کے تعاون سے آپ کے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں، جس دن محسوس کیا اس حیثیت اور طاقت میں نہیں رہے، سمجھ آئی قوم سپورٹ نہیں کررہی تو کام نہیں کریں گے‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ’ہر عدالت میں جارہا ہوں، دیکھ رہے ہیں کیسی کارکردگی ہے، یہاں کوئی وضاحت دینے کے لیے نہیں آیا، کسی ذمہ داری سے اپنے آپ کو نہیں چھڑانا چاہتا، لیکن کیا انصاف کرنا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے، ہر جس ادارے میں بے انصافی ہو ان کی ڈیوٹی ہے وہاں انصاف کریں کیونکہ جتنے لوگوں کے حقوق مارے جائیں گے اتنے ہی لوگ عدالت میں آئیں گے‘۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’قانون جدید تقاضوں کے تحت ہوتا ہے وہ قانون بدل دیں، مقننہ نے اس بارے میں کوئی قانون بنایا، سندھ میں پولیس لائ1861 کا ہے، میرے پاس کوئی وسائل نہیں کہ ججز کی تعداد بڑھاو¿ں یا بلڈنگ بناو¿ں، مجھے وسائل دیں‘۔
انہوں نے کہاکہ ’ہم پر الزام ہے عام کیسز کو ڈیل نہیں کررہے، ہم عام کیسز کو ڈیل کررہے ہیں، اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کررہا ہے، اپنی ذات پر لعنت بھیجتا ہوں، میں کوئی عوامی چیف جسٹس نہیں، میں اس ملک اور قوم کا چیف جسٹس ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی صوبے کی بات نہیں کررہا، اپنی مرضی سے وائس چانسلر لگادیا جاتا ہے، کسی جگہ وی سی ڈھائی سال سے نہیں لگا کسی جگہ تین ماہ سے نہیں لگا، میرٹ کا کوئی تعلق نہیں، سنیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے، اگر کام ٹھیک ہوں تو عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا‘۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog