لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے آسان اور سستے نسخہ جات 

Published on May 9, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 229)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ
موجودہ دور میں ہر شعبہ زندگی میں بجلی کی ضرورت اور افادیت اظہر من الشمس ہے بجلی حاصل کرنے کے متعدد ذرائع ہیں ان میں سے کچھ ذریعے ایسے بھی ہیں جن سے فضاء میں آلودگی بڑھتی ہے اور کچھ ذریعوں پر لاگت بہت زیادہ آتی ہے مگر بعض ایسے ذرائع بھی ہیں جن پر معمولی لاگت سے بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ہوا اور سورج سے پیدا ہونے والی بجلی آلودگی سے مبراء ہے ہوا اور پن بجلی کے جنریٹر کم خرچ بھی ہیں اپنی گونا ں گوں خوبیوں اور افادیت کے پیش نظر ہوا سے چلنے والے یا ونڈ پاور جنریٹروں کی مقبولیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے یہ بات تازہ ترین ائیر و وائن رپورٹ میں کہی گئی ہے جو فرائی برگ میں واقع شمسی توانائی نظام کے فراؤن بیو فر انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی جائزے کے بعد مرتب کی ہے اس انسٹی ٹیوٹ کو یہ ذمہ داری یورپی یونین کی طرف سے سونپی گئی تھی انسٹی ٹیوٹ نے اس مقصد کیلئے پورے یورپ میں مختلف مقامات پر نصب 6200ونڈ پاور جنریٹروں کے سروے اور تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کی ہے اس رپورٹ کے مطابق ہوا کی قوت سے چلنے والے ان جنریٹروں سے مجموعی طور پر ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی یعنی دو بلین کلو واٹ /گھنٹے توانائی حاصل ہوتی ہے جس سے دو بلین افراد کی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہے ان جنریٹروں کی کارکردگی ایک تہائی سے زیادہ بڑھ چکی ہے اس اضافے کی دو وجوہات ہیں اول ٹیکنالوجی میں بہتری دوم جنریٹروں کی موزوں اور سازگار جگہوں پر تنصیب ان جنریٹروں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے اب زیادہ قوت والے بڑے سائز کے جنریٹر لگانے کا رجحان بڑھ گیاہے 1990میں عموماً 150کلو واٹ گنجائش کے جنریٹر نصب کئے گئے تھے لیکن اب زیادہ تر 200کلو واٹ گنجائش کے جنریٹر استعمال کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف بجلی کی پیداوار بڑھی ہے بلکہ لاگت میں 20فیصد کمی ہوگئی ہے ان خوبیوں کے علاوہ جرمن الیکٹرک سٹی ایکٹ مجریہ یکم جنوری 1991کی وجہ سے بھی ان جنریٹروں میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس قانون کے تحت وفاقی حکومت ان جنریٹروں کی تنصیب پر سرمایہ لگانے والوں کو زر اعانت یا امدادی رقوم فراہم کرتی ہے یا پھر حکومت ان جنریٹروں سے پیدا ہونے والی بجلی گرڈ کے لئے خرید لیتی ہے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بجلی پیدا کرنے کے ان غیر روائتی اور پائیدار ذرائع کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکومت پر زر اعانت کا بوجھ کم سے کم ہوتا جارہا ہے حکومت نے اس مقصد کے لئے ایک شعبہ بھی قائم کر رکھا ہے جو گھریلو مقاصد کے لئے بجلی کے جنریٹر نصب کرنا چاہیں وہ اس شعبہ سے رابطہ کر کے اپنی رجسٹریشن کروانے کے بعد ضروری معلومات ، قرضہ کی تفصیلات اور ضروری سامان کی خرید کے لئے کہہ سکتے ہیں متعلقہ عملہ موقع پر جاکر تفصیلی رپورٹ تیار کر کے فنریبلٹی کا اشارہ دیتا ہے اور ضروری منظوری کے بعد کلائنٹ کے گھر جنریٹر کی تنصیب کر دی جاتی ہے آسان اقساط پر قرضہ جات کی فراہمی حکومت اپنا فرض اولین سمجھتی ہے اس طرح اس قسم کے معاملات میں کمیشن اور نہ ہی رشوت کا سلسلہ جنم لیتا ہے جبکہ ہمارے ہان وہ کچھ ہوتا ہے جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا بجلی ، پانی اور سوئی گیس کے میٹروں کی تنصیب کے لئے ہمارے لوگوں کو ایک بھاری عذاب سے گذرنا پڑتا ہے جہاں حکمران خود کمیشن مافیا بن چکے ہوں وہاں ہم شہریوں کو سکھ چین کہاں نصیب ہو سکتاہے یقین جانئیے جرمن حکومت نے اپنے شہریوں کو ایسی ایسی بنیادی ضرورتیں فراہم کی ہیں دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے اور ہم اپنا سر پیٹتے ہیں ہمارے ہاں ناقص حکمت عملی کمیشن مافیا کے بڑھتے ہوئے عذاب اداروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت میرٹ سے ہٹ کر اداروں میں بھرتیاں ، عملے کی غفلت و لاپرواہی وغیرہ وغیرہ نے ادارہ جاتی معاملات کو دگر گوں کر کے رکھا ہوا ہے اس وقت سوائے فوج کے کوئی ایک ادارہ بھی اچھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے بجلی، پانی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ کیبل کی لوڈ شیڈنگ نے بھی جنم لے لیاہے میرے شہر میں بجلی جاتی ہے یا نہیں جاتی کیبل کی آئے روز لوڈ شیڈنگ ہوتی رہتی ہے نظام زندگی مفلوج ہونا معمول کی بات بن چکی ہے ہمارے حکمرانوں کے دعوے سن کر کلیجہ منہ کو آتاہے انہیں 20سال اور دے دو اور زندگیاں عذاب میں ڈال دو جو حکومت 30سال میں کچھ نہ کر پائی ہو اسے 20سال مزید دے کر ملک کو برباد کرنے کے مترادف ہوگا خدارا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ مستقبل میں ہمیں نیک صالح اور اعلیٰ کردار کے حکمران عطا فرما ان ظالموں اور پرلے درجے کے جھوٹے حکمرانوں سے ہماری جان چھڑا بہت ہو چکے ڈرامے اور شو بازیاں ان کی ترقیاتی بڑھکیں سن سن کر کان بھی پک گئے ہیں جو صحافی ان کی خوبیاں بیان کر رہے ہیں وہ خود بھی ڈاکو ، لٹیرے اور بڑے ٹھگ ہیں صحافتی لٹیروں کی بھی کمی نہیں رہی بعض کا کردار بہت گھناؤنا ہے ایسے لوگوں کے پاس ٹوٹی سائیکلیں بھی نہ تھیں اب قیمتی ایک آدھ نہیں 6گاڑیاں ، کوٹھیاں اور اثاثے ہیں ایسے لٹیرے صحافیوں نے ایسے حکمرانوں کو جنم دیا ہے جن کے قلم صرف ایسے حکمرانوں کے قصے کہانیاں لکھنے میں دن رات کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ایسے ٹھگ صحافیوں کو بھی برباد کردے جنہوں نے ملک کو لوٹنے میں کسر نہیں چھوڑی میں بعض ایسے سینئر صحافیوں کو جانتا ہوں جن کا نہ صرف ماضی داغدار ہے بلکہ حال بھی بے حال ہے وہ ایسے ایسے کالم لکھتے ہیں جیسے و ہ جدید لانڈری سے دھل چکے ہیں ان کے اوپر کسی قسم کی میل کچیل نہیں رہی ہے اور وہ محب وطنی کی باتیں کرکے ہمارا منہ چڑھاتے ہیں جی تو کرتا ہے میں ان کے ڈھول کے پول کھول کے رکھ دوں پھر خیال آتا ہے کہ پہلے ہی ملک عزیز انتشار کا شکار ہے میری قارئین سے التجاء ہے کہ وہ ایسے صحافیوں کے اخبار نہ خریدیں جن کے بارے میں وہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes