جب پھول انگارے بن جائیں (دوسری قسط)۔

Published on May 10, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 320)      No Comments

مہر سلطان محمود
ملکی صورتحال اور گڈ گورننس سمیت تہہ در تہہ کرپشن کی رام کہانی پر عرصہ دوسال پہلے بھی اسی عنوان سے کچھ الفاظ کا گورکھ دھندہ بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی ترجمانی کی تھی اب اسی کی دوسری قسط بادل نخواستہ ایک شعر کیساتھ پیش خدمت ہے ۔
خاموشیاں ہی بہتر ہیں صاحب ۔۔۔۔!
لفظوں سے لوگ روٹھ جاتے ہیں 
مختلف حکومتوں کی گڈ گورننس الفاظ کی حد تک بہت اچھی ہے عملی طور پر نہ ہی دیکھی جائے تو بہتر ہے ورنہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوجاتی ہے صاحب بہادروں کی عزت نفس مجروح اور منتخب عوامی نمائندوں کا استحقاق پس پشت چلا جاتا ہے جیسے عباسی صاحب کہتے ہیں مہذب پارلیمان میں وزیراعظم سے پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی ہے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور بقول آپ کے قائد نواز شریف صاحب کے ہماری جماعت ملک کی خالق ہے تو پھر یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہو گی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب جوابدے ہیں چاہے وہ صدر ہو یا وزیراعظم یا امیرالمومنین خواہ قاضی قضاہ آخر پر سپہ سالار ماضی میں حکمران ہی سپہ سالار ہوا کرتے تھے موجودہ دور کی خرابی بسیار کہ وزیراعظم صاحب اس قابل نہیں ہیں کہ خود کو سپہ سالار کہلا سکیں خود کو شیر کہلوانے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل کے خلاف ایک لفظ بھی بولنا جمہوریت کے خلاف سازش سمجھتے ہیں البتہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ ہیں تھر پارکر کا ریگستان ہو یا جنوبی پنجاب تو دور کی بات لاہور کے نواحی اضلاع میں بنیادی سہولیات کی فراہمی چند ایک سڑکوں اور خوبصورت فرشی ٹائلوں والی بلڈنگز کے علاوہ کچھ دیکھنے کو چائنایا سیاستدانوں کے دوست ہمسایہ ملک کشمیریوں کے قاتل سے دوربین منگوانی پڑے گی عوام کو تو نظر نہیں آتی ہے پالیسی ساز اتنے اچھے کہ پالیسیاں پڑھ کر انہیں بحیرہ عرب میں پھینکنے کو دل بیتاب ہو جاتا ہے غیر ملکی ماہرین بھی حیران ہو کر دیکھتے ہیں کہ ملکی خزانے کو بے تحاشا نقصان پہنچانے والے دل کے قریب ہیں چالیس فیصد ادویات انتہائی تھرڈ کلاس ہیں عوام کو ادویات کے نام پر زہر کھلایا جا چکا اور کھلایا جا رہا ہے صاحب بہادر کو اشتہاری مہم اور اپنی تصویریں لگوانے سے فرصت نہی ملتی کہ وہ دیکھ سکیں ان کے بنائے ہوئے ہسپتالوں میں ادویات کے نام پر کسطرح زہر کھلایا جاتا ہے کمیشن کے نام پر جائیدادیں بے تحاشا شاید احد چیمہ وعدہ معاف گواہ بن جائے اور پھول جیسے افسران احتجاج کی دھمکی دیتے ہیں آئین پاکستان کو روندنے والے سیاستدانوں اور صاحب بہادر کہلوانے والے افسران جنہیں عوام پھول کی طرح معصوم سمھج کر عزت سے نوازتے ہیں اب انگارے بن چکے ہیں اور ان انگاروں سے اب جان چھڑانی اتنی ہی ضروری ہوچکی ہے جیسے زمین سے خودرو جھاڑیوں کا صفایا کیا جانا۔
قومیں تعلیم سے بنتی ہیں مگر ہمارے ملک میں نظام تعلیم کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے گئے ہیں نت نئے تجربوں نے اس نظام کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں ہیں کبھی انگلش میڈیم تو کبھی اردو میڈیم ماہرین تعلیم سے ایک پالیسی ہی نہیں بن سکی ہے سب بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جس کا محکمہ تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اسے اس ادارے کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے بیرونی دنیا میں محکمہ ایجوکیشن میں ساری ذندگی محنت کرنیوالوں کو ہی اس ادارے کا ہیڈ لگایا جاتا ہے چونکہ وہ زمینی حقائق سے واقف ہوتا ہے کوئی بھی پالیسی اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب اس میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا گیا ہو ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے ایک سیکرٹری موصوف جو کہ ماضی قریب میں کبھی ڈی سی او ہوا کرتے تھے سیکرٹری تعلیم لگ گئے ان کے دور میں دل کھول کر جعلی انرولمنٹ اوربوگس حاضریوں کی بھرمارسے پہلے نمبر پر آکر ضلعی افسران تعلیم نے بڑی ڈھٹائی کیساتھ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی میں سے ڈبل تنخواہ اپنے کھاتے میں ڈالی ضلع قصور میں جعلی ڈگریوں پر لوگ ٹیچر بھرتی ہوتے رہے مجال کے کسی نے دیکھا ہو ویسے بھی افسران کو ایسے کام نظر بھی نہیں آتے ہیں آخر جب کسی نے ہمت کرکے پکڑ ہی لیا تو پھر اس کیس کو دیوانی کیس یا دوسرے لفظوں میں کچی لسی کی طرح پس پشت ڈالنے کے تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں یہ کام ہمارے چہتے افسران ہی کررہے ہیں معاملہ اب اینٹی کرپشن کے پاس ہے محکمہ ایجوکیشن نے ابھی تک ریکارڈ فراہم نہیں کیا ہے سیکرٹری ایجوکیشن اللہ بخش ملک صاحب کے نوٹس میں بات ہے دیکھتے ہیں کیا چن چڑھایا جاتا ہے محکمہ ایجوکیشن قصور کے ہونہار چیف ایگزیکٹیو کیا کمال کے آفیسر ہیں بندہ جتنا مرضی گنہگار ہو ان کی چھاننی میں آکر بلکل ایسے ہوجاتا ہے جیسے دنیا پر آیا ہی چند پہلے ہوچور کے ہاتھ میں چور کی انکوائری تھما دی جاتی ہے ۔
یہ ایک محکمے کی داستان تھی قارئین بھی سوچتے ہوں گے جہاں اس ملک کے متعدد وزیراعظم اتنا پیسہ ڈکار گئے ہیں آپ ان بیچاروں کو کیوں پکڑنے بیٹھ گئے ہیں ایک پٹواری کو لگوانے کیلئے ایم این اے سفارشی خط لکھتا ہے تو دوسری جانب ریکارڈ یافتہ کرپٹ پٹواری کو لگوانے کیلئے ایک وزیر سفارشی خط لکھ دیتا ہے ویسے سیانے کہتے ہیں پٹواری ہی اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اس لیئے ان میں افسران بالا اور سیاستدانوں کی دلچسپی کیوں نہ ہوگی چونکہ ہمارے سیاستدان اور افسران پھول نما انگارے ہیں عوام کو مجال ہے سکھ کا سانس لینے دیں گڈ گورننس کی بات شروع کی تھی شاید یہ باتیں گڈ گورننس میں شامل نہیں ہیں اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اوران کے میعارپر کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے عوامی سروے میں کہیں نظر نہیں آئی ہے پھر بھی صاحب بہادر کہتے ہیں ہماری تعریف کی جائے بنیادی مراکز صحت میں تین ماہ سے ادویات کی قلت ہے خادم اعلیٰ پھر بھی کہتے ہیں میں ہسپتالوں کو لندن کے ہسپتالوں جیسا بنا دیا ہے متعدد دور ے قصور کے مگر ڈی ایچ کیوقصور ٹیڑھی دم کی طرح ابھی تک سیدھا نہیں ہوسکا تو باقی ملک کو کیسے سیدھا کریں گے پاکستان زبان حال سے چیخ کر کہہ رہا ہے میری التجا سن لوں مجھے ان پھول نما لیڈروں حکمرانوں اور دماغوں سے نجات دلا دو اس ملک نے پوری مسلم امہ و دنیا کی رہنمائی کرنی تھی آج اسے لولا لنگڑا کردیا ہے اغیار نے نہیں اپنوں کی غداریوں نے،یہ ملک کہتا ہے میں نے بہت بڑی غلطی کی جو ان پھولوں کو اچھے طریقے سے پالا پوسا مگر یہ آج مجھے ہی جلا رہے ہیں گلاب کے پھول کی ٹہنی کے کانٹوں سے معمولی سا درد ہوتا ہے مگر یہ پھول مجھے اپنی خواہشوں کی آگ میں جلا کر بھسم کرنے میں پہلے آنے کی دوڑ لگانے میں روزاول سے محنت کر رہے ہیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题