تحریر راشد علی راشد اعوان
کائنات کے رنگوں میں سب سے منفرد رنگ ماں کا ہے،پیار، محبت، اخوت، خوشی، مسرت، قربانی اور بے لوث دعاؤں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خوبصورت رنگوں کو یکجا کرنے سے جو قوس و قزح کا جوحسن دکھائی دیتا ہے اسے ماں کہتے ہیں،دکھ درد کی اذیت کو ہنستے مسکراتے اپنے دامن میں چھپانے والے جذبات و احسات کی خوشبو سے معطر ہونے والی فضاء ’’ماں’’کہلاتی ہے،ماں ایک رشتے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک لطیف جذبے اور ایک عقیدت کا نام ہے، ماں کی محبت اس سایہِ شجر کی مانند ہے جس کی بدولت ٹھنڈک وسکون اور راحت و مسرت کا انمول خزانہ ملتا ہے،مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں مگر ان میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ جاتی ہیں ،8اکتوبر2005کے زلزلہ میں جب میں اس سانحہ کا غازی بن کر ملبہ سے زندہ سلامت باہر نکل آیا تھا تو میرے سامنے سارا منظر دھندلا تھا،اڑتی خاک،دھول،مٹی اور زخمیوں کی چیخ و پکار کے ساتھ لاشوں کے ڈھیر میں میں خود کو اکیلا محسوس کرتے ہوئے کسی خوفناک خواب کی طرح سب کچھ دیکھ رہا تھا،چپ تھا،ہچکیاں بھی بند ہو گئیں تھیں،فریادیں اور آہ بکا جب بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں تو اس وقت میری ماں نے جب مجھے اپنے سینے سے لگایا تو میرا خوف ختم ہو گیا،مجھ میں جینے کی ایک نئی امنگ پیدا ہوئی اور میرے دل سے یہ خوف نکل گیا کہ میں اکیلا ہی ہوں، مجھے اس وقت پتہ چلا کہ جو میں خواب سمجھ رہا تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے کا حقیقی منظر ہے،روزہ کی حالت میں وہ ایک دن جو ساری زندگی کا سب سے بھاری دن تھا سارا دن اپنوں کو تسلیاں دینے،لاشوں کو ملبوں سے ڈھونڈنے اور نکالنے میں جیسے تیسے گزر گیا تھا مگر رہ رہ کریہ احساس تنگ کر رہا تھا کہ کیا کسی کو ہمارے اوپر ٹوٹنے والی اس قیامت کی خبر کیوں نہیں؟؟کوئی ہماری مدد کو کیوں نہیں آ رہا؟؟میرے پاس اپنے بڑے بھائی کا ایک موبائل فون تھا مگر وہ بھی سروس سے محروم تھا،،شام گئے کہیں سے ایک دو سگنل کا اشارہ ملا تو میں نے سب سے پہلی کال راولپنڈی میں جنرل صلاح الدین ترمذی صاحب کو کی اورا نہیں بتایا کہ میرا بالاکوٹ تباہ ہو گیا ہے تو وہ مجھ سے کچھ پوچھتے رہ گئے مگر موبائل نے ایک بار پھر جواب دے دیا اور میرے من میں جو ایک امید جاگی تھی وہ پھر بجھتی چلی گئی کہ پتہ نہیں جنرل صاحب میری بات سن بھی سکیں ہیں یا نہیں؟؟میں انہیں کچھ بتا بھی سکا ہوں یا نہیں؟؟یہی سوچ سوچ کر بار بار موبائل فون کواور اپنے سامنے کے تاریک منظر کو دیکھتا ہی رہا۔کوئی لگ بھگ آدھے پونے گھنٹے بعد جوں ہی میرے موبائل کو کہیں سے ایک آدھ اشارہ ملا تو اس نے بجنا شروع کر دیا،راولپنڈی سے کال تھی،میں نے جوں ہی کال اٹینڈ کی تو جنرل صلاح الدین ترمذی صاحب کی اہلیہ مجھ سے مخاطب ہوئیں کہ راشد بیٹا خیریت ہے بالاکوٹ میں کیا ہوا ہے،تم نے جنرل صاحب کو جو بتایا ہے کیا وہ واقعی سچ ہے؟؟؟اوپر نیچے اتنے سوالوں کا جواب میں صرف ایک ہاں میں دے سکا اور اس وقت میرا ضبط ٹوٹ گیا میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا،وہ مجھے فون پر تسلیاں دیتی رہیں اور کال پھر کٹ گئی،،،محترم جنرل صاحب کی اہلیہ وہ عظیم ماں تھیں جنہوں نے ساری زندگی مجھے اپنے بچوں کی طرح لاڈ پیار کیا،مجھ پہ شفقت کی اور ایک ماہ سے زیادہ تک میرا رابطہ نہ ہوتا تو میری اگلی کال پر مجھ سے یہی پوچھتی کہ کدھر گم ہو،کوئی خبر نہیں تمھاری؟؟زلزلہ کی اسی رات جب میرا اس عظیم ماں سے رابطہ منقطع ہوا تو ان کے ایس ایم ایس یکے بعد دیگرے مل جاتے جس میں وہ یہی بتاتی رہیں کہ ان کی فلاں سے بات ہوئی ہے،انہوں نے فلاں کو بالاکوٹ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور مجھے ان کا ایک فقرہ باالکل ٹھیک طرح سے یاد ہے کہ جب انہوں نے بتایا کہ ان کا جیو ٹی کے کامران خان صاحب سے رابطہ ہو گیا ہے اور وہ تمھیں(مجھے) ٹیلی فون لائن پر لینے کی کوشش کر رہے ہیں،ان کے اس پیغام کے بعد مجھے کالز آتی رہیں مگر بات نہ ہو پاتی،،ایک یا دو منٹ کی ایک گفتگو میری جناب کامران خان صاحب سے ہوئی تو ان کو میں نے کیا بتایا مجھے اس کا علم نہیں کیوں کہ میرا ضبط ٹوٹا ہوا تھا بس انہیں صرف اپنی لاشوں اور بکھرے بالاکوٹ ہی کی خبر دے سکا،،صبح سے رات تک کا سفر گزر چکا تھا،پوری دنیا میرے اس بالاکوٹ کے سانحہ سے بے خبر تھی اور جس نے پوری دنیا کو اس سانحہ عظیم سے باخبر کیا تھا وہ جناب جنرل صاحب کی اہلیہ محترمہ اور میری ماں جیسی ایک عظیم ماں تھیں،جنہوں نے بالاکوٹ کے لوگوں کے دکھ کو اپنا درد اور اپنا دکھ سمجھا،جو میرے بتانے کے بعد سے بے تاب رہیں،جہاں تک ان کی پہنچ تھی انہوں نے بالاکوٹ پر ٹوٹنے والی قیامت کی خبرہر ایک کو دی،بقول جنرل صاحب انہوں نے اس رات انہیں ایک پل بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا،ہر جگہ انہوں نے فون کرایا،جی ایچ کیو تک اس پیغام کو پہنچایا کہ بالاکوٹ کے لوگوں پر رحم کریں وہ مدد مدد پکار رہے ہیں خدارا کوئی جا کے ان کی خبر لے،،زلزلہ سے پہلے کی بات اور سہی مگر زلزلہ کے بعد اس عظیم ماں نے مجھے جیت لیا تھا،اور مجھے یہ احساس دلا چکی تھیں کہ مائیں اچھی ہی نہیں بہت اچھی ہوتی ہیں،یہ عظیم ماں گزشتہ ہفتے 9مئی کو حرکت قلب بند ہونے سے اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئی ہیں اور اپنے پیچھے یادوں کے انمول خزانے چھوڑ گئی ہیں،اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور ایمان سے روشن اور کشادہ کرے اور رب کائنات ان پر اپنی ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے۔۔آمین ثم آمین،،میری مالک کائنات سے یہی التجا ہے کہ مولا کریم میری ماں سمیت سب کی ماؤ ں کو سلامت رکھنا جو اس جنت سے محروم ہو چکے ہیں مولا کریم ان کی ماؤں کو جنت کے باغوں کا مکین کر دے آمین،زندگی حقیقت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے اور کسی سے شفقت،ہمدردی کے دو بول بول دینے کا نام ہے،جنرل صاحب کی اہلیہ کی وفات کا یقیناً ان کے خاندان سمیت سب ہی کو دکھ ہو گا مگر میں اس عظیم خاتون اور عظیم ماں کی ہمدردی کو کبھی بھی نہیں بھول پاؤں گا،جنہوں نے اپنے تو کیا غیروں سے بھی ہمیشہ اخلاص اور ہمدردی کا سلوک کیا،بلاشبہ انسان ماں کی ایک نظر کرم سے اپنے سارے دکھ، درد اور غم بھول جاتا ہے کیونکہ دنیا میں واحد رشتہ ماں ہی کا ہوتاہے جو کسی غرض، مقصد یا مطلب کے بغیر اپنی اولاد پر عقیدت و محبت نچھاور کرتی ہے اوران کی مشکلات کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے،اور انہوں نے بھی ایسے ہی کیا جب اگلی روز منہ اندھیرے پاک فوج کے قافلے بالاکوٹ میں داخل ہونے شروع ہوئے تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اس عظیم ماں نے بالاکوٹ کی دھرتی کا حق ادا کرتے ہوئے بے خبر دنیا کو باخبر کر دیا ہے،میرا انگ انگ سراپا دعا ہے کہ مولا کائنات ان کی آخرت کی تمام منزلیں آسان فرمائے،انہیں اجر عظیم سے نوازے اور مولا کریم ان کی قبر کو گلشن بنا دے اور اس عظیم ماں ہی کی طرح ہر ماں کو صادق جذبے عطا کرے ،اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے،،آمین ثم آمین۔۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔سبزہء نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے۔