تیرے بین کیا جینا 

Published on July 1, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 380)      No Comments

قسط نمبر آٹھ
تحریر۔۔۔ نرجس بتول علوی 
اس وقت بی اے کی سیج پھولوں سے سجی پڑی ہے عظمی بی اے کا انتظار کر رہی ہے اور پھوپھو بی اے کے صدقے کیے جا رہی ہیں لیکن بی اے آج بھی پہلے سے بھی زیادہ اداس ہے بی اے کے چہرے سے اداسی چھلک رہی ہے آنکھوں کی یہ کفیت ہے کہ جسے ابھی ساون کے بادلوں کی طرح برس پڑیں گی بی اے کی پھوپھو بی اے کی یہ حالت دیکھ کر دل ہی دل میں بہت پریشان ہیں پھوپھو نے بی اے کے دوست ارشد کو بلایا پھوپھو نے ارشد سے کہا کے وہ بی اے سے پوچھے کہ آخر اس کو کیا ہوا ہے کہ یہ اپنی شادی کے دن بھی اداس ہے ارشد پھوپھو سے ارے پھوپھو جان کیا ہونا ہے بس امی ابو یاد آ رہے ہونگے پھوپھو ہاں یہ بھی سہی ہے ارشد مسکراتے ہوئے بھابھی کے ہاتھ لگے گا تو بالکل سیدھا ہو جائے گا پھوپھو ارشد کے کان سے پکڑ کر تم بہت شرارتی ہو گے ہو دوسری جانب وفا بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی ہے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر چاند کو دیکھ کر کہہ رہی ہے اے چاند کتنی خوبصورتی سے آسمان پر چمک رہے ہو تیرے ساتھ آسمان تو بہت ہی خوبصورت لگتا ہے تجھے جب میں دیکھتی ہوں تو تجھ میں مجھے بی اے کا عکس نظر آتا ہے اور مسلسل روئی جا رہی ہے کہ یا رب یہ کیسا امتحان ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہا ہے آج اتنے دن ہو گے بی اے کا کچھ پتہ نہیں وہ جانتا بھی ہے کہ میرا پل بھی اس کے بغیر ادھورا ہے اس کے بغیر میرا جینا محال ہے شاید میرے دل کا وہم ہے نہیں یہ سچ یٹ وہم ہے کہ میرا بی اے مجھ سے جدا ہو رہا ہے نہیں یہ وہم ہو سکتا ہے پھر دل کو تھام کر نہیں آج دل کی دھڑکن بتا رہی ہے میرا بی اے مجھ سے روٹھ سا گیا دوسری جانب بالاآخر وہ ٹائم آگیا جب بی اے نے اپنی دلہن کو منہ دکھائی دینی تھی اس وقت بی اے اپنے کمرے میں آنا ہے چاروں جانب کمرہ پھولوں سے مہک رہا ہے سیج پر عظمی بی اے کے انتظار میں گھونگٹ گرائے بیٹھی ہے بی اے آکر بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے عظمی بہت خوبصورت لڑکی ہے چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہی تھی بی اے پاس ایسے بیٹھا ہے جیسے تنہا اکیلا گم سم بی اے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ عظمی کا گھونگٹ سے اٹھاتا اور اسے منہ دکھائی دیتا بی اے ہوش و حواس پر وفا کی یادیں پہرا دے رہی ہیں سیج پر بی اے کو عظمی کی جگہ وفا نظر آ رہی ہے چند لمحوں کے لیے بی اے کے منہ سے اداسی دور ہوئی منہ پر مسکراہت کھل کر واضع ہونے لگی بی اے نے عظمی کا ہاتھ بڑے پیار سے تھاما اور کہنے لگا مجھے یقین تھا کہ مجھے تم ایک دن ضرور ملو گی بی اے نے منہ دکھائی کے لیے کنگن عظمی کی کلائی میں پہنائے لیکن وہ تو عظمی تھی بی اے تو وفا سمجھ رہا تھا بی اے وفا سے بہت محبت کرتا تھا بی اے کو چاروں طرف وفا ہی دکھائی دے رہی تھی اس لیے بی اے کو شادی کی رات عظمی نہیں وفا نظر آ رہی تھی اب بی اے عظمی کو ہاتھوں سے پکڑے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیے جا رہا تھا تمھیں پتا ہے میں تم سے بہت بہت محبت کرتا ہوں عظمی بی اے کی باتیں سن سن کر دل ہی دل میں خوش ہونے لگی ہونٹوں میں مسکرا رہی تھی جانے دیں عظمی بی اے سے پھوپھو رشتہ لے کر آئی تھیں آپ نے کون سا چاہت کا اظہار کیا تھا بی اے کے کانوں پر عظمی کی آواز پہچہنی بی اے نے عظمی کا ہاتھ چھٹک کر بیڈ سے اٹھ کر چند قدم دور جا کر کھڑا ہو گیا بی اے کی پیشانی پر پسینہ واضح ہونے لگا عظمی کا رنگ پیلا پڑھ گیا یا اللہ میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بڑبڑانے لگی عظمی بڑے نرم لہجے میں بی اے لگتا ہے آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں بڑی معصومیت سے بولی بی اے تلخ لہجے میں میری طبعیت بالکل ٹھیک ہے کلہا اتار کر صوفے پر رکھتا ہے (جاری ہے) ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog