نظریہ کی سیاست یا پھر نظریہء ضرورت

Published on August 3, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 261)      No Comments

تحریر:ڈاکٹر ایم ایچ بابر 
الیکشن ۲۰۱۸ء خدا خدا کر کے پایہء تکمیل کو پہنچے جس میں پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے یعنی پاکستانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی تبدیلی کی خواہاں تھی اور اس نے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو منتخب کر بھی دیا روائتی سیاست ،کو اپنے ووٹ کی طاقت سے پچھاڑتے ہوئے حق حکمرانی پی ٹی آئی کو تفویض کر دیا ناصر وفاق میں بلکہ کپتان کی پارٹی کو دو صوبوں میں بھی بڑی اکثریت سے نوازا تاکہ پاکستانی قوم خاندانی اور موروثی سیاست کے چنگل سے آزاد ہو سکے ،قاتلوں اور بھتہ خوروں سے نجات پا سکے ،سرمایہ داروں اور وڈیرہ شاہی کے جال سے نکل سکے ، عام شہری کو بھی انسان کا درجہ مل سکے ،نوکریاں فار سیل نہ ہوں،صحت اور تعلیم کی سہولیات امیر اور غریب کو بلا تفریق یکساں میسر ہوں ،قانون کی نظر میں تمام قوم برابر ہو امیر کے لئے قانون علیحدہ اور غریب کے لئے الگ نہ ہو ،جہاں بھوکے کو روٹی چوری کرنے کی سزا جیل نہیں بلکہ ایسا بندوبست مل سکے کہ اسے گھر بیٹھے روزی اور روزگار مہیا کیا جائے اور روٹی چرانے کی سزا اسے نہیں بلکہ اس جرم کی باز پرس حاکم سے کی جا سکے کہ روٹی چرانے کی نوبت ہی کیوں آئی ،ایسی تبدیلی آئے کہ کسی کو بھی مزدور اور غریب کا استحصال کرنے کی ہمت نہ ہو ،یہ سب کچھ سوچ کر ہی پاکستانی قوم نے کپتان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا مینڈیٹ دیاہے اور اب عمران خان اور ان کی پارٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قوم کی امیدوں کا محل بنا رہنے دیں ناکہ مسمار کر دیں ۔جہاں تک تبدیلی کے علمبردار عمران خان کے کچھ فیصلے بہت من موہنے ہیں وہاں چند فیصلے نا پسندیدہ بھی ہوئے جن سے عوام کو صدمے سے بھرپور حیرت بھی ہوئی میری نظر میں عمران خان کے قابل ستائش فیصلے سادگی کو اپنانا ،اسراف سے گریز ،چھوٹی کابینہ رکھنے کا عندیہ ،پرائم منسٹر ہاؤس میں نہ رہنے کا فیصلہ ،تمام گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان ،کم سے کم پروٹوکول لینے اور کابینہ کو بھی واجبی پروٹوکول دینا ،یہ سب باتیں بڑی قابل تحسین ہیں اور ساری قوم نے انکے اسی نظریئے کو قبول کرتے ہوئے انہیں پاک دھرتی کا امین چن لیا ۔یہ تو ہوئی نظریئے کی سیاست اللہ پاک عمران خان کو ہمت دے کہ وہ اس نظریئے پر عمل بھی کر پائیں مگر کپتان کے کچھ فیصلے میری سمجھ سے بالا تر ہیں کیونکہ کل تک جن لوگوں کے خلاف کپتان لندن تک گئے انکو بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر کہتے نہیں تھکتے تھے آج ان کے حمائت حاصل کرنے کے لئے مرے جارہے ہیں آج وہی ایم کیو ایم اچانک دودھ کی دھلی کیسے ہو گئی کیا یہ خان کے اپنے ہی نظریئے کی کھلی نفی نہیں ؟میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس عمل کو میں نظریہء ضرورت کہوں یا اقتداری یو ٹرن ؟کپتان جی اب ایم کیو ایم کیونکر صاف و شفاف ہو گئی ؟آخر کونسی ایسی مجبوری آڑے آگئی کہ کہ جن کو ایک آنکھ دیکھنا نہیں چاہتے تھے آج سر آنکھوں پہ بٹھا رہے ہیں ؟کیا یہ لوگ کراچی والوں سے بھتہ نہیں لیتے تھے یا وہ بھتے کی پرچی کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیئے اب آپکو عطیات کی پرچی نظر آنے لگی ہے ؟یہ سارے وہی لوگ ہی نہیں جو غدار وطن الطاف حسین سے تربیت یافتہ ہیں ؟کیا سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بھڑکتے ہوئے شعلے جو اڑھائی سو سے زیادہ زندگیوں کو بھسم کر گئے اس حادثے کے یہ لوگ ذمہ دار نہیں رہے یا وہ شعلے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ایک حادثہ نظر آرہا ہے اب آپکو ؟محترم کپتان خان صاحب یہ آپکو بھی اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک پریشر گروپ ہے جو ہر بننے والی نئی حکومت کے اقتداری بنچوں پر ہی بیٹھی ہے اور ہمیشہ سے اپنی شرائط منوا کر دم لیتی ہے جیسا کہ انہوں نے آپ سے بھی کہا کہ سو سے زائد ایم کیو ایم کے دفاتر جو بند ہو چکے ہیں انہیں کھولنے کی اجازت دی جائے ، ٹارگٹڈ آپریشن بند کیا جائے ،اور ہر آنے والی حکومت ان کے ہاتھوں کھلونا بنتی چلی آئی ہے اور آپ بھی ان کے ہاتھوں کھلونا بننے جا رہے ہیں ۔کپتان جی یہ وہی لوگ ہیں جن کے ظلموں کی ستائی ہوئی عوام نے آپکو اپنا نجات دھندہ جان کر اپنے ووٹ آپ کو امانت کے طور پر دیئے ہیں تاکہ وہ بھتے کی پرچیوں کے عذاب سے نجات پا سکیں ،گذشتہ تین دہائیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں ذرا پاکستان پیپلز پارٹی تو سندھ کی حد تک محدود تھی کراچی پہ تو اسی متحدہ کی اجارہ داری تھی کراچی کے لوگ ان کے ہی رحم و کرم پر تھے انکے ہونٹ سلے ہوئے تھے اور حلق خوف سے خشک پھر پی ٹی آئی کی شکل میں کراچی کے لوگوں کو ایک ایسا شخص دکھائی دیا جو کراچی کے لوگوں کو ان لوگوں سے آزاد کر سکتا تھا اور ایسا ہوا بھی کہ لوگوں نے دل کھول کر آپکے حق میں رائے دی آپ کراچی سے سفاکیت اور لوٹ مار سے اپنی دھاک بٹھانے والے لوگوں کو ہرانے میں سرخرو ہوئے اہلیان کراچی آپکی جیت کی صورت میں اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں تھے ابھی انکی جیت کا جشن مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ آپ نے متحدہ والوں کی طرف دست اقتدار بڑھا دیا خان جی ذرا سوچیں تو کیا بیتے گی کراچی کی عوام کے دلوں پر جنہوں نے متحدہ کے خلاف آپکو ووٹ سے سرفراز کیا ؟ کیا کراچی کے لوگ اب یہ نہ کہیں گے کہ 
قاتل بھی وہیں رہتا ہے جو منصف کی گلی تھی
تحریک انصاف سے انصاف کی آس لگائے تو کراچی والوں نے زندگی میں پہلی بار بھتہ خوروں اور قاتلوں کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا ۔ کیا سوچیں گے کراچی والے کپتان جی اس بات پر غور ضرور کیجئے گا گستاخی معاف کپتان جی میں نے بہت سی کڑوی کسیلی باتیں کہہ ڈالیں کیا کرتا کہ یہ غیر فطری اتحاد مجھے کچھ بھایا ہی نہیں کیونکہ یہ اتحاد خود آپ کے نظریہ کی نفی لگا مجھے سو میں نے کہہ دیا ۔ کپتان جی آپ کی بائیس سالہ جدوجہد ظلم اور کرپشن کے ہی تو خلاف ہے اور اگر آپ ہی ظالموں اور کرپٹ عناصر کو ساتھ ملا لیں گے تو نظریہ تو ختم ہو گیا نہ ؟پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم محمد علی جناح اور ذولفقار علی بھٹو کے بعد آپ وہ واحد لیڈر ہیں جن کو عوام نے دل و جان سے چاہا اور آپ کی ہر آواز پر لبیک کہا آپ کو ایک نجات دھندہ سمجھا آپ کو بھی اس بات پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا مجھے آپ کے جذبوں کی سچائی پر رتی برابر بھی شک نہیں مگر ۔۔۔آپکاہر فیصلہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہئے، پاکستانی عوام نے آپ کو مینڈیٹ دے کر اپنی ذمہ داری کا فریضہ انجام دے دیا ہے اب آپ پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،اس قوم کو تعلیم صحت روزگار اور انصاف مہیا کرنا یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے خان جی اور انصاف ظالم کی سرکوبی سے حاصل ہوتا ہے نہ کے ظالم کو بغلگیر کرنے سے ،اس قوم نے اپنی ناؤ کا ناخدا آپ کو چنا ہے خدارا پتوار سنبھالتے ہی ناؤ کا رخ ظالم لہروں کی طرف نہیں موڑنا کپتان جی بلکہ اس ناؤ کو ترقی کے ساحل تک ضرور پہنچایئے گا ۔ کپتان جی جہاں قوم نے آپ کو تاریخی کامیابی دے کر ماں دھرتی کا اصل امین منتخب کیا ہے وہاں اس بات کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کا سامنا بھی آپ کو کرنا ہے یہ وہی اپوزیشن ہے کپتان جی جن کے دماغ سے اقتدار کے چھن جانے کا غصہ ابھی گیا نہیں لہذٰا وہ آپ کے ہر قدم پہ مشکلات کا پہاڑ لازمی کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو ثابت قدمی اور خندہ پیشانی سے ہر مشکل سے نبرد آزما بھی ہونا ہے اور قوم کی ناؤ کو صیح سمت پر گامزن بھی رکھنا ہے بہتر ہے کہ حلف اٹھانے سے پہلے پہلے مخالفین کو اچھی طرح پہچان لیں چاہے وہ صف دوستاں میں ہی کیوں نہ چھپے بیٹھے ہوں ۔
اب دیکھتے ہیں پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب کہ کیا وہ اپنے نظریئے کی سیاست پہ قائم ہیں یا وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ نظریہ حصول اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنے نظریئے کی خود ہی نفی کر رہی ہیں سب سے پہلے بات کریں گے مذہبی جماعتوں کے اکٹھ متحدہ مجلس عمل کی یہ وہ اتحاد ہے جس میں تمام وہ مذہبی دینی جماعتیں شامل ہیں جن کی گردنوں پر فقہی اختلافات کی وجہ سے بیسیوں مسلمانوں کا خون ہے جو ایک دین پر تو کبھی متحد ہو نہ سکیں ایک دوسرے پر کافر کافر کے فتوے لگانا جن کا وطیرہ ہے مگر سیاسی طور پر ایک ہو جاتے ہیں کاش کبھی اللہ پاک ان کو یہ بھی توفیق عطا کرے کہ یہ فرقہ بندی چھوڑ کر ایک پیج پر اکٹھے ہو جائیں ۔متحدہ مجلس عمل جو مجلس تو متحدہ ہے مگر عمل ایک نہیں یوں کہنے کو یہ دینی جماعتیں ہیں اور اتحاد اس سے کر کے بیٹھی ہوئی ہیں جس پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ختم نبوت قانون میں چھیڑ چھاڑ کی جس پارٹی کے ایک سابق وزیر موصوف کہتے ہیں کہ نواز شریف کا استقبال حج سے بڑا کا ہے اسی جماعت سے مل جانا کہاں کی دینی جماعت کا وطیرہ ہے کہاں ہے ان کا نظریہ ؟اب بات کرتے ہیں (ن) لیگ کی سیاست کی کہ ان کا نظریہ کار فرما ہے یا ضرورت ؟یہ وہی نواز لیگ ہے جو کل تک پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کو گوالمنڈی چوک میں لٹکانے اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتی تھی اور اس کے صدر شہباز شریف سلطان راہی کا رول ادا کر رہے تھے آج دھاندلی کا رونا رونے کے لئے ہمنوائی کے لئے اسی پیپلز پارٹی کے دروازے پر دو زانو ہو بیٹھی ہے اب کہاں ہے اسکی نظریئے کی سیاست ؟اب اس سیاسی پارٹی کے نظریئے کو دیکھتے ہیں جو کل تک (ن) لیگ کے سابق صدر اور آج کے اسیر نواز شریف کے بارے میں کہتی نہیں تھکتی تھی کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے اور اسی نواز لیگ کی قیادت کو انڈین ایجنٹ کہہ کر پکارتی تھی آج بھٹو کی سیاست اور نظریئے کی امین پیپلز پارٹی کو کیا ہو گیا اس نے بھٹو کا نظریہ کیوں پس پشت ڈال دیا یا الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے اچانک (ن) لیگی قیادت محب وطن دکھائی دینے لگی ہے پیپلز پاڑتی کو ؟(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ۲۰۰۸ء میں بھی غیر فطری ثابت ہوا تھا اور اب بھی ہو گا کیونکہ (ن) لیگ وہ پارٹی ہے جس نے ختم نبوت قانون میں چھیڑ چھاڑ کی اور پیپلز پارٹی اس راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت ہے جس نے ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا تھا کہاں رہ گیا پی پی پی کا نظریہ ؟اور یہ ساری جماعتیں صرف الیکشن میں کامیاب نہ ہونے کی پاداش میں اس وطن دشمن شخص محمد خان اچکزئی جیسے اچکے سے بھی بغلگیر ہو رہے ہیں کیا کسی وطن دشمن سے اتحاد پاکستان کی سا لمیت اور بقاء کے لئے ملایا جا سکتا ہے؟ اور یہ تمام پارٹیاں وہی ہیں جو ۲۰۱۳ء والے الیکشن کو (ن) لیگ کے خلاف آر اوز کا الیکشن کہتی تھیں اور اسی آر اوز زدہ الیکشن سے بر سر اقتدار آنے والی (ن) لیگ کے آج سب حامی اور ہمنوا بن بیٹھے ہیں اس آر اوز زدہ الیکشن میں (ن) لیگ دو تہائی اکثریت سے بر سر اقتدار آئی تھی اور اب کے اگر دھاندلی ہی ہوئی ہے تو پی ٹی آئی بھی اتنی بڑی اکثریت سے پارلیمنٹ میں پہنچتی وہ آزاد امیدواروں کی محتاج نہ ہوتی پھر اسے ایم کیو ایم جیسی جماعت کو ساتھ نہ ملانا پڑتا کیا خیال ہے ؟ویسے میں سارا منظر دیکھ کر جس نتیجے تک پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اب کسی بھی جماعت کو اپنے نظریئے اور منشور سے کو غرض نہیں فقط حصول اقتدار ہی سب کا مطمع نظر ہے اور اگر اقتدار نہ ملے تو پھر انتشار کی خاطر کسی سے بھی مل بیٹھو چاہے وہ ماں دھرتی کا دشمن ہی کیوں نہ ہو کوئی مذائقہ نہیں ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے اسمبلی میں بیٹھیں جہاں پی ٹی آئی حکومت اچھا کام کرے اسکو داد دیں اور جس طرف اسکی توجہ نہیں میری ماں دھرتی کی بہتری کے لئے ادھر توجہ دلا کر اس کی راہنمائی کریں ایسا کیوں نہیں کرتے ہم لوگ کیوں نہیں کرتے ؟

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog