نیک روح 

Published on October 19, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 901)      No Comments

تحریر: فری علی
گرمیوں کی چھٹیوں میں رات کو امی کہانی سنایا کرتی تھیں اور زیادہ تر جنوں بھوتوں کی ڈرانے والی ہوتی تھیں کیونکہ مجھے جنوں کی کہانیاں اچھی لگتی تھیں لیکن ڈر بھی بہت لگتا تھا اور ساری رات نیند بھی نہیں آتی تھی۔ 1944 میں میری نانی اماں اور ان کی ساری فیملی جموں کشمیر سے پاکستان کے شہر چونڈہ میں آباد ہو گئے تھے اور وہاں پہ انہوں نے ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ وہ اور ان کی بہن بہت چھوٹی سی تھی اور ان کو ہر وقت شور مچانے اور کھیلنے کودنے کا شوق ہوتا تھا اور اکثر کھیلتے ہوئے ان کو عجیب سی آوازیں آتی تھیں۔ جیسے کوئی ان سے ناراض ہو رہا ہو۔ اور وہ ان آوازوں کو در گزر کرتی اور دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہو جاتیں۔ بقیہ کہانی امی کی زبانی۔ گرمیوں کے دن تھے میری بڑی بہن فجر کے وقت آٹا گوندھا کرتی تھیں اور آٹا لینے کے لیے وہ پیچھے کمرے میں آٹا لینے جاتی تھیں۔ اس کمرے کو کوٹھری کہتے تھے۔ کوٹھری ایک کونے میں تھی اور وہاں پہ ہر وقت خاموشی ہوتی تھی۔اور جب کبھی ہم دوپہر میں کھیلتے تو اس کوٹھری میں سے ایسے آواز آتی جیسے کوئی غصے میں ڈانٹ رہا ہو۔ ایک دن فجر کا وقت تھا میری بہن اقبال روزانہ کی طرح آٹا لینے کوٹھری میں گئی تو چیختی ہوئی باہر آئی اور بے ہوش ہوگئی۔سب ان کے گرد اکھٹے ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں ہوش آگیا لیکن انھوں نے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ دوپہر کے وقت جب بہن تھوڑا اور نارمل ہوئی اور باتیں کرنا شروع ہوئی تو دادی کے پوچھنے پہ انھوں نے بتایا کہ جب وہ کوٹھری میں کھڑی آٹا نکال رہی تھی تو ایک سفید کپڑوں میں بزرگ کھڑے تھے اس بزرگ نے ان کو ڈانٹ کے کہا کہ تم سارا دن بھی شور کرتی ہو اور تہجد کے وقت بھی شور کرنے آجاتی ہو۔میری عبادت میں بڑا خلل ڈالتی ہو۔اور وہ اس سے ڈر کر بھاگی اور بے بوش ہو گئی۔امی بتاتی ہیں کہ اس دن کے بعد نہ تو انہوں نے کوئی آواز سنی اور نہ ہی بہن نے ان کو دوبارہ دیکھا۔ شاید وہ اس دن وہاں سے چلے گئے تھے۔ جب امی نے یہ کہانی مجھے سنائی تو میں دس سال کی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک جب بھی مجھے رات میں یہ کہانی یاد آتی ہے نیند کچھ دنوں کے لیے اڑ جاتی ہے۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题