پردیسی کی زندگی 

Published on October 26, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 398)      No Comments

تحریر ۔۔۔ زکیر احمد بھٹی 
آج آفس سے واپس آتے ہوئے نہ جانے میرے جسم میں درد کا کیسا عالم تھا جو مجھے رونے پر مجبور کر رہا تھا بہت مشکل سے میں نے افس سے گھر کا سفر مکمل کیا اور گھر آتے ہی سونے کو ترجیح دی تاکہ کچھ دیر آرام کرنے سے یہ تھکن دور ہو کچھ دیر سونے کے بعد جب آنکھ کھلی تو میرے جسم میں درد کی اتنی شدت تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا اداسی نے جیسے میرے انگ انگ کو جکڑ لیا ہو میں تھوڑا فریش ہونے کہ لیے نہا دھو کر چائے بنا کر پی رہا تھا اور ساتھ سوچوں کی ایک محفل تھی میں نے ان سوچوں اور اداسیوں سے باہر نکلنے کے لیے لیپ ٹاپ آن کیا اور اپنی فمیلی کی تصویریں دیکھنے لگا اپنے بچوں کی شرارتوں والی تصویریں دیکھ کر میں اپنی اداسی کافی حد تک بھول گیا جیسے جیسے میں تصویریں دیکھتا رہا مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں اپنی فیملی کے درمیان موجود ہوں کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کی تصویریں کبھی ماں باپ کی اور کبھی بچوں کی تصویریں نظر اتی رہی اور میں ان تصویروں کو دیکھ کر خوش ہوتا رہا پھر اچانک میری آنکھوں کے سامنے ایک ایسی تصویر نظر آئی جیسے دیکھ کر میری انکھوں سے لگا تارآنسو بہنا شروع ہو گئے اور مجھے کچھ پرانے وقت کی یاد آنے لگی یہ تصویر کسی اور کی نہیں میرے ایک بہت اچھے دوست کی تھی جو اب اس دنیا میں نہیں تھا میرا وہ دوست جو اپنی ہر بات شیئر کرتا تھا اپنے ہر دکھ درد بتاتا تھا میرا دوست ناصر جو اب اس دنیا میں نہیں ہے ہم ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے ہم دونوں نے ایک ہی کمپنی میں نے بہت عرصہ اکٹھے رہے میں رات کو جلدی سو جایا کرتا تھا مگر ناصر کافی رات جاگتا رہتا تھا میں نے کئی بار ناصر سے کہا کہ یار جلدی سو جایا کریں صبح کام پر بھی جلدی جانا ہوتا ہے کبھی کبھی ناصر میری باتوں کا برا مان جاتا تھا پھر آہستہ آہستہ جب میرے سونے کا ٹائم ہوتا تھا تو ناصر کمرے کی بجلی آف کرکے باہر بیٹھ جایا کرتا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کچھ عرصہ پہلے ہی ناصر پاکستان سے چھٹی گزار کر واپس آیا تھا تو بہت خوش تھا ہاں خوش بھی کیوں نہ ہوتا ناصر نے اپنے گھر کے تمام تر بوجھ سر سے اتار لئے تھے جن میں گھر بنانا اپنے بہن بھائیوں کی شادی کرنا ابھی جب وہ پاکستان سے واپس آیا تھا تو اپنی سب سے چھوٹی بہن کی شادی کرکے آیا تھا اور وہ خوش بھی اسی وجہ سے تھاجمعرات کی رات تھی میں بھی کافی دیر تک ناصر کے ساتھ جاگتا رہا تھا کیونکہ جمعہ کو ہمیں کمپنی سے چھٹی ہوتی تھی اس رات ہم نے بہت ساری باتیں کیں میں نے کہا یار ناصر اب کیا کرنے کا پروگرام ہے آپ نے ساری ذمہ داری نبھا لی ہے گھر کی ناصر کہنے لگا کچھ نہیں زکیر بھائی بس تھوڑا سا قرض باقی ہے جو بہن کی شادی کے لیے کچھ دوستوں اور رشتے داروں سے لیا ہے وہ ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا میں نے باتوں ہی باتوں میں پوچھا ناصر بھائی آپ مجھے بھائی سمجھتے ہو توبتاؤ کہ کتنا قرض لیا ہے ناصر نے کہا آپ میرے دوست بھی ہیں مگر میں نے ہمیشہ آپ کواپنا بھائی سمجھا ہے ہر مشکل وقت میں آپ نے میرا ساتھ دیا ہے پردیس میں مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں یہاں اکیلا ہوں آج تک میں نے اپنے ہر دکھ درد کو آپ کے ساتھ شیئر کیا ہے زکیر بھائی میں ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا ہوں یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے جب سے میں سعودی عرب آیا ہوں الحمدللہ اپنے گھر والوں کی خوشی کے لیے دن رات محنت کی ہے تاکہ اپنے گھر والوں کو ہر خوشی دے سکوں میں نے آج تک آپ سے کوئی بات نہیں چھپائی بس کچھ باتیں ۔۔۔ میں نے ناصر کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ناصر بھائی آپ میرے بھائی ہیں ہم پردیس میں اکٹھے رہتے ہیں پھر بھی آپ نے مجھ سے کچھ چھپایاہے مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ میرے بھائی نے مجھے اپنے دکھ درد میں شامل نہیں کیا اتنے میں ناصر بولا زکیر بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے میں نے کہا کہ بتاؤ پھر کیا باتیں چھپائی ہیں مجھ سے ناصر کہنے لگا کہ بھائی آپ کو پتہ ہی ہے جب مہینے کے آخری دن ہوتے ہیں تو میں کہتا تھا کہ مجھے بھوک نہیں لگتی تو میں جھوٹ کہتا تھا میں کبھی کبھی رات کو کھانا ہی نہیں کھاتا تھا کبھی کبھی تو میرے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے تھے تو میں اکثر ایک دن پہلے کی بچی ہوئی روٹی پانی کے ساتھ یا دہی کے ساتھ کھا لیتا تھا زکیر بھائی میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے دوست کی باتیں سن کر میری آنکھیں بھر آئیں اور ناصر بھی رونے لگ گیا
وقت گزرتا گیا اور ایک شام ناصر بہت پریشان تھا میں نے بہت بار پوچھا کہ ناصر بھائی کیا ہوا ہے مجھے کچھ بتائینگے پرشانی کی وجہ تو ناصر نے کہا کہ یار کچھ نہیں بس گھر والوں کی یاد آ رہی ہے اس لیے کچھ پریشان ہوں مجھے لگا کہ جیسے ناصر مجھ سے جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی میں نے کہا کہ یار پریشان ہو تو گھر والوں سے فون پر بات کر لیں بچوں سے بات کروگے تو پریشانی ختم نہیں تو کم تو ہو گی ناں ناصر کہنے لگا کہ ابھی بات ہوئی ہے گھر والوں سے ناصر نے پھر ایک بار مجھ سے جھوٹ بول دیا مجھے کسی کام سے مارکیٹ جانا تھا میں نے کہا ناصر بھائی چلیں مارکیٹ چلتے ہے میں نے کچھ سامان لینا ہے ناصر کہنے لگا زکیر بھائی آپ چلے جائیں مجھے نیند آ رہی ہے میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں میں دل میں سوچ رہا تھا کہ جو بندہ رات کو ہر روز لیٹ سوتا ہے آج وہ شام کو ہی سونے کی باتیں کر رہا ہے خیر میں مارکیٹ سے ہو کر واپس آیا تو ناصر ابھی تک جاگ رہا تھا میں نے کہا یار ناصر آپ ابھی تک جاگ رہے ہو ناصر نے کہا سونے کی کوشش کی مگر نیند نہیں آ رہی اس لیے جاگ رہا ہوں پھر ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا اور تھوڑی دیر کے بعد ناصر کمرے سے باہر نکل گیا اور اسی جگہ پر جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتا تھا وہاں جا کر بیٹھ گیا
میں بھی تھوڑی دیر تک ناصر کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو ناصر اونچی آواز میں رونے لگ گیا میں نے ناصر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بھائی ہوا کیا ہے اس نے کہا کچھ نہیں ہوا بھائی شائد میری زندگی میں خوشیاں ہی نہیں ہیں سب کے ہوتے ہوئے بھی میں اکیلا ہی ہوں میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے کہا کہ بھائی میں سعودی عرب میں تیس سالوں سے محنت کر کے اپنے گھر والوں کو ہر خوشی دی ہے میں نے آج تک اپنے بارے نہیں سوچا بس گھر والوں کے لئے محنت کی مگر افسوس میرے اپنوں نے میرے بارے نہیں ہمیشہ اپنی ذات کو ترجیح دی کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم پردیس میں کیسے رہتے ہیں کیسے شب و روز بسر کرتے ہیں میں نے بات کاٹی اور پوچھا آخر ہوا کیا ہے ؟ ناصر نے تڑپ کر کہا ہونا کیا ہے وہی میرے ساتھ ہوا ہے جو ہر پردیس میں رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے یہاں پردیس میں سب نے کہا کہ ناصر گھر والوں کے ساتھ ساتھ آپ اپنے لیے بھی کچھ بنائیں برے وقت میں کام آئے گا مگر میں کہتا رہا کہ میرے گھر والے میرے ساتھ ہیں جیسے تم لوگ کہتے ہو ایسا کچھ نہیں ہے مگرآج میں غلط ہوں اور وہ سب لوگ سچے تھے بھائی آپ کو پتہ ہے ناں ابھی میں کچھ عرصہ قبل چھوٹی بہن کی شادی کرکے آیا ہوں اور شادی کے لیے میں نے قرض بھی لیا تھا کچھ تو وہ ابھی بھی 8 لاکھ روپے دینے باقی ہیں سب بہن بھائیوں کی شادی کی، گھر بنایا ، سب بھائیوں کی ضرورتیں پوری کیں پھر بھی گھر والے کہتے ہیں کہ تم نے آج تک ہمارے لیے کیا کیا ہے تمھارے بچوں کا خرچہ ہم پورا کرتے ہیں تم 30 سالوں سے باہر ہو کیا بنایا ہے تم نے اب وقت آ گیا ہے تم اپنے بچوں کا خرچ پورا کرو یا نہ کرو ہم تمھارے بچوں کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے اپنے بچوں کو جہاں مرضی رکھوں اور یہ ہمارا گھر ہے اسے خالی کرو اور اپنے لئے گھر تلاش کرو اسی دوران میرا دوست زاروقطار روتا رہا میں نے ناصر کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یار کچھ نہیں ہوتا سب ٹھیک ہو جائے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ،بس آپ یہ رونا بند کروپہلے ناصر میرے کہنے پر خاموش تو ہو گیا مگر میرے بھی دل میں عجیب عجیب خیال آتے رہے ناصر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھائی میں عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہوں جہاں پر نہ آگے جا سکتا ہوں اور نہ ہی جوانی کو واپس لا کر اپنے بچوں کے لیے کچھ بنا سکتا ہوں میں نے آج تک اپنی بیوی کو بھی نہیں دیا اور اب کیسے کہہ سکتا ہوں کہ تم نے اپنے بچوں کے لئے کیا بنایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک میری سب سے بڑی غلطی بھی یہی ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو کبھی بھی الگ سے پیسے ارسال نہیں کئے کہ کچھ آنے والی زندگی کے لیے جمع کرو میں نے ناصر کو کہا کہ یار سب ٹھیک ہو جائے گا آپ پریشان نہ ہوں رات کافی ہو چکی تھی میں نے کہا بھائی سوتے ہیں کل جمعہ بھی پڑھنا ہے اتنی بات کرتے ہوئے میں کمرے کی طرف چل دیا تودوست نے کہا بھائی میری ایک بات سن کر جانا میں رک گیا تودوست کہنے لگا بھائی زندگی میں ہمیشہ اپنوں کو اہمیت دینی چاہئے ناکہ پیسوں کو ہمیشہ اپنے ہی کام آتے ہیں پیسے نہیں پیسوں سے ہم سب کچھ خرید سکتے ہیں مگر اپنے چلے جائیں تو پیسوں سے ہم کبھی ان کو واپس نہیں لا سکتے میں کمرے میں آ کر سو گیا جمعہ کے وقت میں تیار ہو کر مسجد چلا گیا جاتے ہوئے میں نے ناصر کوآواز دی کہ جمعہ کا وقت ہو گیا ہے اٹھ جائیں میں جب واپس آیا تو کھانا تیار کرکے ناصرکو آوازدی کہ ناصر بھائی جمعہ بھی نہیں پڑھااٹھیں کھانا تیار ہے کھانا کھا لیں مگر ناصر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیامیں نے جب ناصر کے پاس جا کر ہلایا تو ناصر نے کوئی حرکت نہیں جب میں نے ناصر کے منہ سے چارد ہٹائی تو میرے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا میں اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گیا میری آواز سن کر ساتھ والے کمرے کے دوست بھی آ گئے اور دیکھا کہ پتہ نہیں ناصر کب ہمیں چھوڑ کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا جب انتقال کی خبر ناصر کے گھر والوں کی دی گئی تو پھر بس رونے دھونے کے علاوہ اور کوئی بھی حل نہیں تھا ان کے پاس لیکن مجھے ناصر کی ایک بات آج بھی بہت یاد آتی ہے کہ اگر کسی کی عزت کرنی ہے تو اس کے سامنے کرو بعد میں عزت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے دنیا سے جانے کے بعد تو جنازے کے ساتھ ساتھ یکھنے والے بھی انکھوں میں دو آنسو لے ہی آتے ہیں۔
عمر بھر محنت کرنے کے بعد جی بھر کے رویا 
میرے اپنے کیا جانے کتنی رات میں بھوکا سویا

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme