سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کرد ار 

Published on November 5, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 229)      No Comments

تحریر ۔رباب ثانی ، وزیر آباد گوجرانوالا
یہ سوشل میڈیا پہ بیٹھے مجھے سب لوگ اُن گاؤں کی عورتوں سے کم تو نہیں لگتے ہیں جو ایک بات پتا لگنے پر اسے گاؤں میں ایسے پکلاتی ہیں جیسے آگ کو ہوا دی ہو کسی نے۔ ہر کوئی پوسٹ لگا رہا ہوتا ہے جیسے یہ حاکمِ وقت ہیں یا پھر بہت عقل و دانا ہیں یا قانون اِن کی مرضی سے ہی چلنا ہے۔ چھوڑ دو خدا کے لیے یہ سب کچھ اور اپنے اپنے اعمال کی فکر کرو۔ باقی جو کوئی کرتا اُس کے اعمال ہیں وہی اُن کا جواب دہ ہے۔ وہ جانے یا اُس کا خدا جانے۔ ہم کون ہوتے ہیں کسی کی زندگیوں کے فیصلے کرنے والے نہ تو نعوذ باللہ ہم خدا ہیں نہ ہی حاکمِ وقت ہیں جو کام جس کا ہو اُس کو سجتا ہے۔ اِدھر ہر اک خدا بنا بیٹھا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔ گاؤں کی سارا دن فری رہنے والی عورتوں والے کام ہیں اِن میڈیا پہ رہنے والے لوگوں کے بھی۔ پتا نہیں اتنا وقت کہاں سے آ جاتا اِن لوگوں کے پاس جو اپنی بات پر وکیل اور دوسروں کی بات پہ سیدھے جج بن جاتے ہیں۔ یہ حاکمِ وقت کا کام ہے اور قانون کا اگر وہ ایکشن نہیں لیتے تب بھی ہمارا کوئی حق نہیں یہ سب کرنے کا۔ نہ اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھ نہ سنا۔ جاہلوں کی طرح سنی سنائی باتوں پہ پاگلوں کی طرح اپنا اور عوام کا بھی وقت ضائع کرتے ہیں۔ کسی بات کی تصدیق تو کر لو اچھی طرح سے پھر اگر بات سچ ثابت ہو تو انسان بات کرتا اچھا بھی لگتا ہے۔ جب ہمارا اسلام کہتا ہے، سب سے بہترین خطا کار وہ ہے جو خطا کر کے معافی مانگے۔ اگر اُس نے بولا اُس نے معافی مانگ لی ہے۔ نہ تو وہ اِس بات کو مانتی ہے۔ تو پھر اتنا پاگلوں کی طرح شور کرنے کا فائدہ؟مجھے تو لگتا ہم پاکستان نہیں کسی جاہل قوم میں پیدا ہو گئے۔ عقل اور شعور تو پاس سے نہیں گزرا ہے۔ اتنے آئے دین کے رکھوالے۔ یہ دین فرضی سمجھ کر نہیں رسمی سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ نہ نماز روزے کا پتا چند ماہ اور چند دن ہوتے ہیں اور چند باتیں ہیں جن پہ اِن کو رسمی طور پہ دین نبھانا ہوتا ہے۔ کچھ عرصے کے لیے یہ دین کرایے پہ لے کر آتے ہیں۔ گھر بیوی بچوں کو دو وقت کا کھانا دینے کے لیے پیسے نہیں جلوس نکالنے کے موٹرسائیکل اورپٹرول کے لیے روپے بھی نکل آتے ہیں۔ جاہل عوام اِس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔معذرت کے ساتھ۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Themes