بزرگانِ روحانیت کا کرشمہ نور

Published on March 22, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 479)      No Comments

تحریر۔۔۔ایس۔اے۔صہبائی 
اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک اور بابرکت نام سے شروع کرتے ہوئے یہ حقیر فقیر آپ کی خدمت میں’’تعارف سلسلہ عالیہ توحیدیہ‘‘اس استدعا کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ تصّوف اور سلوک کا علم ایک بحرِ بے پایاں اور ناپیدا کنار سمندر ہے ۔ یہ ایک الگ تھلگ دنیا ہے اور الگ قسم کے گہرے خیالات اور عمیق افکار پر مشتمل ہے ۔ اس کے کئی دبستان یعنی (مدرسے ) ہیں اور اس طرح مختلف قسم کے استاد اور شاگرد ان راستوں پر رواں دواں رہتے ہیں۔اس بات کا پتہ صرف اس وقت لگتا ہے جب آدمی اس میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کتنی پُر کیف دُنیا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قلب تمام اعضائے ریئسہ کا بادشاہ ہے اور انسان کے تمام وجود کا اختیار اس کے کنٹرول میں ہے۔ اسی بناء پر تصوف اور سلوک کے زیادہ تر اعمال و افعال قلبی ماہیت کے ہیں اور اس راستے میں قلب کی اصلاح اور صفائی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ تاکہ قلب اس حد تک صاف ہوجائے کہ اسے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتصال کا شرف حاصل ہوجائے۔ شرع ظاہر سے بحث کرتا ہے اور ظاہری امور سے متعلق علم کو علم شریعت کہتے ہیں۔ سلوک اور تصوف کا راستہ ظاہری شرعی اعمال کے باطنی احوال سے ہم آہنگی کا نام ہے ۔یعنی تصوُّف کا تعلق ظاہر اور باطن دونوں کی ہم آہنگی اور قلبی و روحانی صفائی سے ہے۔ تصوف کا راستہ بھی ظاہری علوم کی طرح الف اور ب سے شروع ہوتا ہے۔اور منزل بہ منزل آگے بڑھتا ہے ۔حتیٰ کہ اپنی انتہائی حد تک پہنچتا ہے بیعت ہونے سے لے کر انتہا تک پہنچنے کے عمل کو سلوک کا طے کرنا کہتے ہیں۔یہ عمل ایک روحانی استاد کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اس استاد کو مُرشد یا پیر کہتے ہیں اور سیکھنے والے کو مُرید کہتے ہیں۔ بیعت ایک عہد ۔ ایک عزم کا نام ہے جو ایک مرید اپنے مرشد کی گواہی میں اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے اور جس کی رو سے مرشد اپنے مُرید کو کچھ تعلیم دیتا ہے اور کچھ امورات و احکامات کی بجا آوری کی تلقین کرتا ہے۔ مرید پر اِن احکامات کی بجاآوری لازمی ہوتی ہے ۔ اس کے بدلے میں مُرشد کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مُرید کی منزل بہ منزل رہنمائی کرے اور سلوک طے کرنے میں اسکی مدد کرے۔
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ تصوف میں سلوک کا طے کرنا ایک مرحلہ وار علم و عمل ہے اور ابتداء سے لے کر آخر تک اس علم کے رموز آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار سکھائے جاتے ہیں۔اگر کسی مبتدی کو سلوک کے آخری مراحل کا علم وقت سے پہلے دیا جائے تو اس کے بڑے غلط اور نقصان دہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ تصوّف کو،علم باطن یا سینے کا علم اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی بات وقت اور مقام سے پہلے نہیں بتائی جاتی ۔ اس لئے کہ بتانے سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔تصوف کی تاریخ میں کئی ایسے واقعات پیش آئے کہ مُرید نے مُرشد سے اپنے لئے جائز مقام اور مرتبے سے زیادہ درجے کا تقاضا کیا ،یا کسی خاص مرتبے یا درجے کو پانے کے لئے بضد ہوا اور اس کے نتائج حیرت انگیز طور پر خطرناک ثابت ہوئے۔حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے مُرید کا وہ مشہور واقعہ جس میں ایک مُرید نے آپ سے خواہش کی تھی کہ مجھے آن کی آن میں باقی باللہ بنادو، اس کی یہ خواہش کیسے اس کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی،تاریخ تصوف میں بہت مشہور ہے۔تاہم مثال سے بڑھ کر ایک اور مثال حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کی ہے جس میں کشتی میں سوراخ کرنے ،دیوار بنانے اور ایک لڑکے کو ماردینے کے واقعات ہیں۔ہر مُرید میں قدرتی طور پر سلوک کے مقامات جلد سے جلد طے کرنے کی خواہش ہوتی ہے یہ بالکل ایسی قدرتی خواہش ہوتی ہے جس طرح ایک مریض جلد صحت یابی کی خواہش میں دوائی کی پوری بوتل غٹاغٹ پینے کی خواہش کرتا ہے ۔جس کا نتیجہ ظاہر ہے۔چنانچہ ایک مقررہ مقدار و معیار ہی بہتر نتائج دے سکتا ہے۔آگے چل کر میں آپ کو یہ بتانے والا ہوں کہ ہمارا یہ مبارک سلسلہ تصوف کی دنیا میں باقی سلاسل کے مقابلے میں کتنا مؤثر کتنا فطری ،قدرتی اور دل کو لگنے والا ہے ۔ لیکن اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مبتدی کے لئے چند ضروری امور کی وضاحت ضروری ہے۔ 
روحانی احوال الفاظ کے ذریعے نہ بتائے جاسکتے ہیں اور نہ سمجھائے جاسکتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان پر اپنی مہربانیوں کی انتہاء کردی ہے کہ اسے خفیہ پر اسرار اور غیبی طاقتوں کے ذریعے عدم سے وجود میں لایا۔ پھر اس لامتناہی کائنات میں پیدا کرنے کے بعد اسے بے انتہاء ظاہری و باطنی قوتوں سے نوازا۔ظاہری قوتیں انسان کی ظاہر ہے بے شمار و بے قطار دکھائی دیتی ہیں۔لیکن باطنی قوتیں انسان کی روح کے تگ و تاز کے وہ پراسرار راستے ہیں کہ ایک دفعہ اس کا ادراک ہوجائے تو انسان پر ارض و سماء کے اسرار کھلنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب عالم کی بنیاد غیبی قوتوں پر یقین رکھنے پر ہے۔
مذہب:ایک ضابطہ حیات ہے ۔ ایک دستور اور آئین زندگی جو اللہ تعالیٰ نے انبیائے مرسلین کے توسل سے انسان کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے یہ ضابطہ حیات اللہ کی طرف سے ضمانت ہے اس بات کی کہ اس پر عمل کرنے سے انسان امن و امان اور آسائش و آرام کی زندگی بسر کرسکے گا اور اس قابل ہوجائے گا کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی جتنی قوتیں اس کے دل و دماغ میں پوشیدہ ہیں وہ سب نشو نما پاکر بروئے کار آئیں اور انسان اللہ کے ان تمام خزانوں کومسخر کرے جو زمین و آسمان میں ظاہر یا چھپے ہوئے ہیں۔
تصوف: تصوف ایک علم ہے جس کا موضوع ان غیبی طاقتوں اور ہستیوں کی حقیقت معلوم کرنا ،جن پر ہمارے مذہب کی بنیاد قائم ہے اور جن کو بغیر دیکھے اور بغیر ثبوت کے ماننا ہمارا پہلا فرض ہے انہی کے مان لینے کو ایمان بالغیب کہتے ہیں۔یہ بیرونی خفیہ طاقتیں اللہ ،فرشتے،الہامی کتب،رسول جن پر یہ کتابیں نازل ہوئی ہیں۔قیامت کا دن اور حیات بعد الموت اور جزاء و سزاء کے سلسلے میں جنت دوزخ ہیں۔تصوف کا موضوع صرف یہ ہے کہ ان چیزوں کا علم اور حقیقت معلوم کرے ۔ ان خفیہ پر اسرار اور غیبی طاقتوں کا صحیح ادراک کرنا اور قابو کرنا ہی تصوف کا اصل موضوع ہے۔ نہ صرف موضوع ہے بلکہ ان غیبی قوتوں پر گرفت کے بارے میں حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں
بہ زیر کنگرۂ کبریانش مرد آنند
فرشتہ صید و پیغمبر شکار و یزداں گیر
اسی طرح حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں
در دشتِ جنون من جبرئل زبوں صیدے
یزداں بہ کُمند آور اے ہمت مردانہ
دین: دین ظاہری اور باطنی علوم پر مشتمل ہے جس کا ظاہر شریعت اور باطن تصوّف ہے ۔
شریعت:شریعت اللہ پاک کے حدود امرو نہی سے عبارت ہے جبکہ تصوف حقیقت ،معرفت اور طریقت سے عبارت ہے ۔
معرفت:اللہ تبارک وتعالیٰ کی پہچان کے علم کو کہتے ہیں۔
طریقت: حقیقت اور معرفت کی شاہراہ پر منزل یعنی (ہدف) کی طرف سفرکرنے کا طریقہ قلبی و ذہنی لحاظ سے اور باطنی علم کے ذریعے ۔ اور حرکت فکری جو ہدف یا منزل کی طرف لے جائے۔
مُرشد: مندرجہ بالا امور کی انجام دہی کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس راستے سے واقف اور اس کے تمام رموز سے آگاہ ہو۔ نیز اسے پچھلے مشائخ سلسلہ سے باقاعدہ اجازت بیعت و ارشاد کاعندیہ مل چکا ہو۔
سلسلہ عالیہ توحیدیہ: 
یہ سلسلہ تصوف جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں غاروں میں پناہ لینے خانقاہوں میں معتکف رہنے ۔ مسلسل روزے رکھنے کے لئے کون تیار ہوگا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحم فرما کر ہمیں اس جدید قسم کے نئے سلسلے سے روشناس فرمایا۔
اس سلسلہ کے بانی اور مؤسس کا نام حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ ہے ۔جو 29جولائی 1893ء کو فرید آباد دہلی میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات مورخہ 23جنوری 1977ء کو لاہور میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ خاندان سادات سے تھیں اور آپ کے والد حافظ عبدالرحیم صاحب ؒ بڑے نیک وپارساء بزرگ تھے۔ آپ کے دادا حضور مولانا عبدالعزیز صاحب جید عالم دین اور لکھنؤ میں سینئر سب جج تھے۔ آپ کے پر دادا حضور بڑے زاہد و عابد بزرگ تھے اور ان کا زیادہ وقت ایبٹ آباد میں گزرا اور وہاں سے پنجاب کرنال کے مقام سے ای۔اے۔سی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر فرید آباد چلے گئے۔ آپ کا شجرۂ نسب حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے ۔
حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ بچپن کے زمانے میں اپنے دادا حضور کے زیر تربیت رہے دادا حضور کے پاس ہر قسم کے مولوی ،ملنگ ،مجذوب ،فقیر اورمتشرع بزرگوں کا ڈیرہ رہتا یوں کم عمری ہی میں آپ نے علم و معرفت کے کئی رنگ دیکھ ڈالے۔ پانچ برس کی عمر ہی میں آپ کو نماز ، درود شریف اور کئی سورتیں اور دعائیں ازبر تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کو دادا حضور کی صحبت نے گوہر یگانہ بنادیا۔ آپ کے گہرے مشاہدے اور طلب صادق سے آپ کے قلب و روح میں وجدان وعرفان کے سوتے پھوٹ پڑے۔ کشف و کرامات کا ظہور لڑکپن میں ہی ہونے لگا۔ مگر توحید کا رنگ آپ کی شخصیت پر ہمیشہ غالب رہا۔1902ء میں جب آپ قریباً دس برس کے تھے۔ آپ کے دادا حضور اس دنیا فانی سے تشریف لے گئے۔ ان کی طرف سے آپ کے دل میں لگایا ہوا عشق الٰہی کا چراغ ان کی وفات کے بعد بھی اللہ کے قرب و دیدار کی تڑپ کو فزوں تر کرتا رہا۔ یہی تڑپ آپ کو کشاں کشاں لئے پھری۔ بے شمار پیروں فقیروں سے ملے مگر کہیں بھی دل نہ جما۔ ایک دن اپنے قریبی دوست شیخ عبدالرحمٰن دہلوی کے توسّل سے حضرت مولانا کریم الدینؒ کی خدمت میں حاضری نصیب ہوئی۔جس کا تفصیلی ذکرآپ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’چراغ راہ‘‘میں بڑے دل نشیں پیرائے سے بیان کیا ہے ۔ حضرت مولانا کریم الدین احمد ؒ کی تربیت انتھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کی بدولت تین برس کی قلیل مدت میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا سلوک طے کرلیا۔ اور یوں محض اکیس (21)برس کی عمر میں آپ کے مُرشد مکرم نے آپ کو بیعت لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ مُرشد معظم کے وصال شریف کے بعد آپ مراد آ باد میں سلسلہ عالیہ چشتیہ کے ایک بلند پایہ بزرگ حضرت محمد قاسم ؒ کے دستِ شفقت پر بیعت ہوئے اور سلسلہ چشتیہ کا سلوک طے کیا۔ لیکن اصل گوہر مقصود دیدار باری تعالیٰ پھر بھی میسر نہ آیا۔ حضرت مولانا کریم الدینؒ کے ارشاد جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’’تمہارے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسی چیز پیدا کی ہے کہ جب تک تم زندگی میں خدا کو نہ دیکھ لو گے مرو گے نہیں۔‘‘نے آپ کو ایک ایسی تڑپ سے بہرہ ور کردیا تھا کہ آپ اس چیز کی طلب میں پھر سرگرداں ہوگئے۔ اپنے مرشد معظم حضرت محمد قاسم ؒ کی رحلت کے بعد آپ نے سلسلہ عالیہ قادریہ اور سلسلہ عالیہ سہر وردیہ کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ مورخہ 20مارچ 1920ء کو آپ شملہ تشریف لائے اور وہاں بحیثیت مترجم ملازمت اختیار کی۔ یہ وہ دن تھے کہ دیدار الٰہی کی طلب نے آپ کو بے حال کر رکھا تھا۔ دن رات اسی سوچ و استغراق میں گم رہتے۔ ایک رات دیدار الٰہی کی تڑپ میں روتے روتے سوگئے تو خواب میں دادا حضور کو دیکھا ۔ انہوں نے آپ کو پیار کیا اور فرمایا ’’حکیم رویا مت کرو تمہارا دوست محمد حنیف تمہیں ملے گا اور سب کچھ مل جائے گا۔‘‘ صبح اٹھتے ہی آپ نے ڈائری میں خواب نوٹ کیا اور اس کے بعد آٹھ برس یہ ہوتا رہا کہ جب بھی کسی محمد حنیف نامی شخص کا پتہ چلتا ۔ اس سے ملتے مگر مطلوبہ بزرگ نہ ملے۔ آخر رحمت خداوندی سے کرم ہوا اور اکتوبر 1928ء کی ایک شام بلگام کے مقام پر آپ کی ملاقات مطلوبہ اویسی بزرگ جناب رسالدار محمد حنیف خان ؒ سے ہوگئی۔
حضرت رسالدار محمد حنیف خانصاحبؓ
آخر کار ان کے توسط سے آپ کو خدا وند کریم نے اپنی لقاء اور دیدار سے نواز دیا۔ آپ جناب رسالدار محمد حنیف خان ؒ کی صحبت میں 1947ء تک رہے ۔قیام پاکستان پر جناب رسالدار صاحب ؒ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوگئے۔جبکہ قبلہ انصاریؒ بذریعہ ٹرین پہلے لاہور اور پھر صرف دو ہفتے بعد کراچی تشریف لے گئے۔دسمبر 1947ء میں پاکستان ائر فورس ڈرگ روڈ کی ٹریڈ ٹریننگ سنٹر لائبریری میں لائبریرین مقرر ہوئے۔ 1952ء میں مذکورہ سنٹر کوہاٹ چلا گیا تو آپ کا تبادلہ ملیر کینٹ ہوگیا۔ جہاں 1954ء تک رہے ۔ اس کے بعد آپ بنوں تشریف لے گئے۔ قیام کراچی کے دوران آپ سے کئی ایسی کرامات سرزد ہوئیں کہ چاہنے کے باوجود آپ اپنے آپ کو اہل نظر سے نہ چھپا سکے ۔آپ جس کے لئے دعا فرماتے ۔ اللہ ان کے کام کردیتا۔ یوں آہستہ آہستہ آپ کے معتقدین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ آپ کے عقیدت مندوں میں محمد ابراہیم نامی ایک پروفیسر بھی تھے جن کی ایک بیٹی عطیہ کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے روحیں نظر آتی ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کراچی سے بنوں تبادلہ ہوا تو قبلہ انصار ی ؒ صاحب ان کی درخواست پر بنوں تشریف لے گئے۔ وہیں 1954ء میں آپ کی ملاقات گوہر نایاب قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ ،ان کے اہلِ خانہ اور والد ماجد حاجی علی محمد صاحب ؒ سے ہوگئی۔ پروفیسر ابراہیم صاحب کا تبادلہ دوبارہ کراچی ہوگیااور آپ ؒ نے قبلہ عبدالستار خان ؒ اور ان کے دوست جناب مسیح الظفر کی درخواست پر بنوں میں قیام کا ارادہ فرمایا۔ بنوں قیام کے دوران آپ نے تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب تعمیر ملت تصنیف کرنا شروع کی۔ قبلہ عبدالستار خان ؒ سے آپ کی محبت روز افزوں بڑھنے لگی۔نتیجتاًمورخہ 5اگست 1955ء بروز جمعۃ المبارک شام پانچ بجے قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ نے آپ ؒ کے دستِ شفقت پر باقاعدہ بیعت کرلی اور یہی مبارک لمحہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے قیام کا نقطۂ آغاز بنا۔ قبلہ خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ نے قبلہ عبدالستار خان ؒ کو بیعت کرتے ہی فرمایا کہ آج سے جو کوئی بھی ہم سے ہمارے سلسلے کے بارے میں پوچھے تو ہم علی الاعلان کہیں گے’’سلسلہ عالیہ توحیدیہ‘‘۔قبلہ عبدالستار خان صاحبؒ نے جو اپنی ملاقات کے پہلے دن ہی سے قبلہ انصاری صاحب ؒ پر جان و دل فدا کر چکے تھے۔ بیعت ہوتے ہی مجسم اطاعت بن کر اپنی زندگی قبلہ انصاری ؒ کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ محبت کا ایک ایسا اتھاہ سمندر تھے کہ جس سے ہر کوئی بلا تفریق فیضیاب ہوا۔ آپ شریف النفس ، حلیم الطبع،صبرو شکر اور عفو و درگزر کی ایک ایسی مثال تھے کہ دشمنوں پر بھی احسان فرماتے اور شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ۔آپ کے مریدین و معتقدین سے کون ہوگا جو آپ کے دل نشین و دل آویز شخصیت نہایت ٹھنڈے میٹھے مزاج اور محبت کی پھوہار سے بہرہ ور و فیضیاب نہ ہوا ہو۔ آپ کا اخلاق، اخلاق محمدی ﷺ کا مکمل نمونہ تھا۔ آپ کی روحانیت خسرو نظام کی یاد تازہ کرتی تھی۔ مرشد کی اطاعت میں درجہ کمال پانے والے قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ کی شخصیت اور بزرگی پہ لکھنا۔ ان کی محبت کی گہرائیوں کا احاطہ کرنا بندہ ناچیز کے بس سے باہر ہے۔ قبلہ انصاری صاحب ؒ کے ارشاد کے مطابق ’’اطاعت سیکھنی ہو تو خان صاحب سے سیکھو‘‘مزید فرماتے ہیں’’میں نے خود اطاعت کرنا خان صاحب سے سیکھا‘‘۔قبلہ انصاری صاحب ؒ کی نگاہِ گوہر شناس نے پہلی ہی ملاقات میں قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ کا انتخاب فرمالیا تھا یوں جنوری 1961ء میں ایک وصیت نامہ کے ذریعے آپ ؒ کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرمایا۔مورخہ 13اپریل 1968کو پرنس ہوٹل لاہور میں سلسلہ عالیہ کے سالانہ کنونشن میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ آپ ؒ کی خلافت و جانشینی کی توثیق مزید فرمائی اور تمام احباب حلقہ کو آپ ؒ کے دستِ مبارک پر بیعت خلافت کرنے کا حکم دیا۔’’صاحب موصوف جن کی تقرری کا اعلان اسی مجلس میں کیا جائے گا وہ روحانی مراتب اور اخلاقی بزرگی میں مجھ سے کسی طرح کم نہیں۔اس لئے میں آپ سب کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر آپ کو میری دی ہوئی تعلیم سے محبت ہے تو آپ سب کو میرے اس حکم کی تعمیل میں آج ہی کے جلسہ میں صاحب موصوف کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنا ہوگی۔‘‘آخر 23جنوری1977ء کی شام 5بجے آسمان روحانیت کا یہ درخشندہ ستارہ انسانی اصلاح و تربیت اور تعمیر ملت کا یہ عظیم مشن قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ کے سپرد کرکے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا۔آپؒ کا مزارِ اقدس سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے مرکز واقع 92۔جی ماڈل ٹاؤن لاہور میں مرجع خلائق ہے۔
حضرت خواجہ عبدالستار خانصاحبؓ
قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی جس محنت و جانفشانی سے آبیاری کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ آپ کی ذات شفیق نے مرشد معظم کی جدائی کے غم میں ڈوبے ہوئے دلوں کو نئی زندگی عطا کی اور احباب حلقہ کی اس شفقت و محبت سے خدمت کی کہ آپ سلسلہ عالیہ کے تمام دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ آپ کی محبت کی خوشبو جہاں پرانے بھائیوں کو معطر کرتی رہی۔ وہاں ہزاروں نئے پروانے بھی اس شمع محبت سے روشنی پائے رہے۔ آپ نے سلسلہ عالیہ کو استحکام بخشے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا اور مریدین کی خدمت کو نئی جہتوں سے ہمکنارکیا آپ ؒ نے خط و کتابت سے سلسلہ کے تمام مریدین کو ایسی پیار سے لبریز لڑی میں پرو دیا۔ جو اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر مرید سے ان کی محبت اپنی جگہ مگر ایک کے سامنے دوسرے کا پیار بھرا ذکر ہر ایک کو ایسی خوشبو میں معطر کرتا گیا۔ کہ سب ایک مربوط اور مجسم گلشن کی صورت اختیار کرتے گئے۔ آپ سلسلہ عالیہ کے مشن کو ایک مقدس امانت کے طور پر جس طرح عزیز رکھتے اس کے ہم سب گواہ ہیں۔ آپ ؒ کی زندگی کا ہر لمحہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی وسعت و رفعت اور استحکام کے لئے مصروف عمل نظر آتا ہے ۔ آپ ؒ کی سلسلے سے یہی محبت اور پاس امانت کا احساس روز اوّل سے ہی امانت دار کے انتخاب کے لئے کوشاں تھا۔ آپ کی نظرِ انتخاب اللہ کے حکم سے ایک ایسے مشعل بردار کا انتخاب فرماچکی تھی۔ جس پر انہیں مکمل اعتماد اور ناز تھا۔ آپ فرماتے میرے بعد اس سلسلہ کو بے حد وسعت اور استحکام نصیب ہوگااور میرے بعد آنے والے خاص طور پر تصنیف و تالیف اور پڑھے لکھے طبقوں میں سلسلہ کی تعلیم کو روشناس کرائیں گے ۔ لہٰذا اپنی حیات ہی میں قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر فرمایا۔ وصال و انتقال انسانی زندگی کی اٹل حقیقت ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اصل زندگی تو شروع ہی وصال و انتقال کے بعد ہوتی ہے ۔چنانچہ یہ مجسم ایثاراورسراپاپیاربزرگ 14دسمبر 1990ء جمعۃ المبارک کی شام اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا الیہِ رٰجِعُوْن۔ آپ ؒ کی رحلت کے بعد آپ ؒ کے فراق سے دل گرفتہ ،دل شکستہ مریدین کو جس محبت اور چاہت سے قبلہ غلام رسول شاہد صاحب نے اپنے بازؤں میں سمیٹا وہ انہی کا حصہ ہے

۔آپ کی زندگی ہر لمحہ ہمارے سامنے کھلی کتاب ہے ۔ بیعت ہونے سے آج تک جس طرح آپ نے سلسلہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور عملی طور پر سب کچھ اس سلسلے کے لیے قربان کیا۔ وہ آپ ہی کا طرۂ امتیاز ہے ۔ قریہ قریہ ، گاؤں گاؤں ، شہر شہر اور ملک ملک جس انداز میں آپ سلسلہ کے مشن کو پھیلارہے ہیں وہ ہم سب کے لئے ایک ایسی قابلِ تقلید مثال ہے کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے قبلہ انصاری صاحب ؒ کے جلال و جمال اور حکمت و بے باکی اور قبلہ خان صاحب ؒ جیسی ٹھنڈی اور ڈھانپ لینے والی چھاؤں بناکر بھیجا ہے ۔ اس پورے سلسلے کا شیخ سلسلہ یا بیعت کرنے کے مجازصرف اور صرف جناب قبلہ غلام رسول شاہد صاحب ہیں۔یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہر گروہ اور ہر ٹولے میں کچھ نقلی قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور تصوف کی دُنیا میں تو نقلی پیروں نے ایک فساد برپاکر رکھا ہے۔یہاں پر اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی سلسلے میں بیعت ہونا یا مُرید ہونا الگ بات ہے اور ماذون یا بیعت لینے کا مجاز ہونا الگ بات ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی سلسلے میں بیعت ہوکر عمر بھر اس سے وابستہ رہا ہو لیکن اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی شخص کو بیعت نہ کیا ہو۔ کیونکہ اسے اپنے مُرشد سے بیعت لینے کا اذن نہیں ہے۔ جن لوگوں کو بیعت لینے کا اِذن ہوتا ہے وہ ماذون یا صاحب ارشاد یا خلیفہ کہلاتے ہیں۔ ماذون حضرت کی پُشت پر تمام سابقہ صاحبانِ سلسلہ کے روحانی فیض کا زور ہوتا ہے ۔ اس کو سلسلہ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی کڑیاں پشت در پشت اِذن اور اجازت کے ساتھ چلتی ہیں۔چنانچہ یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کا صرف اور صرف ایک شیخ سلسلہ یا ماذون حضرت فی زمانہ موجود ہیں۔ان کے علاوہ کسی اور کو اس سلسلہ عالیہ میں بیعت لینے کا اختیار نہیں ہے ۔
حضرت خواجہ غلام رسول شاہد
قبلہ غلام رسول شاہد صاحب20اپریل 1953ء کو لائل پور(فیصل آباد)میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان ائیرفورس میں مختلف عہدوں پر رہ کر سکواڈرن لیڈر کے عہدے پر ریٹائرڈ منٹ لے لی۔ اوائلِ عمر میں جناب قبلہ انصاری ؒ صاحب اور جناب قبلہ عبدالستار خان صاحب ؒ کی نظرِ انتخاب میں تھے اور بہت ہی کم عمری میں انہوں نے آپ کی ایک خاص نہج پر روحانی تربیت فرمائی۔ جناب قبلہ انصاری ؒ کے باب میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ آپ نے چاروں سلسلوں کا تفصیلی مطالعہ فرمایا تھا اور دوسرے سلسلوں میں بیعت ہوکر صاحب مجاز کے مرتبے تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن آپ کو جس مقام کی تلاش تھی وہ آپ کو ایک اویسیہ بزرگ جناب رسالدار محمد حنیف خان ؒ کی وساطت سے اویسیہ طور پر وہ مقام نصیب ہوا۔ پھر انہوں نے اپنی آخری عمر میں جناب قبلہ عبدالستار خان صاحب کو ماذون اور خلیفہ مقرر فرمایااور پھر عبدالستار خان صاحب ؒ نے قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کو صاحبِ سلسلہ مقرر فرمایا۔اس طرح جناب قبلہ غلام رسول شاہد صاحب سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے تیسرے شیخِ سلسلہ ہیں اور ان کے ماسوا کسی اور کو اس سلسلے میں روحانی اِذن نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روحانی فیض پہنچانے اور سابقہ مشائخ سلسلہ کا روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے صرف قبلہ جناب غلام رسول شاہد صاحب سے بیعت ہوناضروری ہے ۔ویسے تو جب آپ پہلے اذن سے اپنے خادمِ حلقہ کے امر پر ذکر شروع کرینگے تو آپ کو اس کا فائدہ آئے گا۔ لیکن سلسلے میں باقاعدہ بیعت ہوجانے کے بعد آپ کو اس سلسلے میں مُرید تصور کیا جائے گا۔ باقی درجات کا حصول انسان کی اپنی استعداد مشق و مزاولت پر منحصر ہے ۔ ع شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
بعض لوگوں نے تصوف کو غلط رنگ دے کر سیاست بنادیااور وہ تصوف کی آڑ میں اپنے سیاسی عزائم کی آبیاری کرتے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس امر کو ضرور ذہن میں رکھئے کہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی ترویج و اشاعت کا بنیادی مقصد تبلیغ اور خدمت دین ہے اور یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اور بنی نوع انسان کو خیر پہنچانے کے لئے کیاجارہا ہے ۔ سیاست اور طریقت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ہمارے اس مبارک طریقے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تلاش و جستجو اور اس کی خوشنودی کا واحد مقصد اور نصب العین مُریدین کے مدِ نظر ہوتا ہے ۔ اس کے ماسوا کچھ قابل قبول نہیں ہوتا۔
سلسلہ عالیہ توحیدیہ اور عصرِ جدید کے تقاضے
موجودہ زمانے میں اقدار تبدیل ہوگئی ہیں۔ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے روحانیت پر یقین کم کردیا ہے ۔ لوگوں کی مصروفیتیں بڑھ گئیں اور اب مریدوں کے پاس غاروں میں بھیجنے اور پے در پے چلے کاٹنے، مسلسل روزے رکھنے کا وقت نہیں رہا۔ دوسری طرف کچھ بازاری قسم کے لوگوں نے خوب اس راہ کی مٹی پلید کی۔ تصوّف کے اکثر دبستانوں اور مکاتب فکر کا حال پہلے ہی بیان ہوچکا ہے ۔ وہ تصوّف جس کی تعلیم حضور سرورِکائنات ﷺ نے دی تھی۔ مشکل سے ڈیڑھ دو سو برس قائم رہاجیسا کہ تصوف کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن دوسری صدی ہجری کے آخر میں تصوف میں قسم قسم کی بدعتیں شامل ہونے لگیں اور اس آبِ حیات کا وہ چشمہ صافی جو انسانی روح کو قرار واقعی زندگی بخشتا ہے گدلا ہونے لگا اور جوں جوں زمانہ گذرتا گیا مکدر سے مکدر تر ہونے لگا۔ ظاہر ہے رسول مقبول ﷺ تو ایسی کوئی تعلیم دے ہی نہیں سکتے جو قرآن کے خلاف ہو۔ قرآن نے ہمیں دو باتیں بتائی ہیں۔ ایک یہ کہ ماننے اور پوجنے کے لائق صرف اور صرف اللہ ہی ذات ہے۔ وہی پیدا کرتا اور مارتا۔ وہی مرنے کے بعد ہمارے اعمال کی جزاء و سزا دے گا۔ اور وہی ہم کو قبروں سے زندہ کرکے نکالے گا۔ وہی
تقدیر یں بناتا اور بگاڑتا ہے ۔ وہ ہر لحاظ سے یکتا اور بے مثال ہے نہ اس کا کوئی ثانی ہے نہ شریک یہی وہ توحید ہے جو قرآن سکھاتا ہے ۔
اب اگر کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا عالم اور صوفی مانا جاتا ہو اگر ہم کو توحید کے خلاف کچھ بتائے تو کیا ہمیں اس کی بات مان لینی چاہیے۔دوسری بات قرآن نے یہ بتائی ہے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے ۔ کہنے کو تو یہ دو لفظ ہیں لیکن یہی دو لفظ انسان کے تمام اعمال و افعال پر حاوی ہیں۔ ان دونوں لفظوں کی تفصیل بھی قرآن نے بتائی ہے اور خیر پر چلنے اور شر سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ یہی وہ قانون ہے جس پر عمل کرنے سے انسان اس دنیا میں امن و سکون ، راحت و آرام او ر خوشی و مسرت کی زندگی بسر کرکے ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں تکوین و ایجاد کی اس کو عطا کی ہیں۔ ان کو کام میں لاکر زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے اس کو تسخیر کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ اگر کوئی صوفی ہم کو یہ تعلیم دے کہ اللہ ہم سے الگ اورکوئی ہستی نہیں ہے ہم خود ہی خدا ہیں یا دُنیا کی ہر شے خدا ہے۔ یا شر اور خیر سب ڈھونگ ہے نہ گناہ کوئی چیز ہے نہ نیکی کوئی شے ہے نہ عبادت کی ضرورت ہے۔ یا یہ کہے کہ یہ دنیا محض خواب و خیال ہے اس میں ترقی و عظمت حاصل کرنے کا خیال کرنا گناہ ہے اس کے لیے نہ کسی کوشش و سعی کی ضرورت ہے نہ محنت و مشقت کی۔ ان سب کو چھوڑ کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ جاؤ۔ خدا پر توکل کرو وہ تمہارا رزق خود ہی تمہارے پاس بھیج دے گا۔ تو آپ ہی فرمائیں کہ اس کا یہ کہنا کہاں تک قرآن کی تعلیم کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ہزار سال سے صوفیوں کی ایک بڑی جماعت یہی تعلیم دے رہی ہے قبلہ خواجہ عبدالحکیم انصاری ؒ نے توفیق ایزدی سے تصوّف کو ہر عجمی آلائش اور آلودگی سے پاک و صاف کرکے اسے شرع محمدی ﷺ کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک نئے سلسلہ تصوف ’’سلسلہ عالیہ توحیدیہ‘‘کی بنیاد ڈالی۔ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کیا ہے؟ فقط اللہ تعالیٰ کا ہوکے رہنا۔ اس سلسلے کا مقصد خالص دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے ۔ یہ نہ تو دنیا سے فرار سکھلاتا ہے۔ نہ اس سے محبت ، اس میں دین و دنیا دونوں کی درستگی کا اہتمام ہے۔ اس میں نہ صرف روحانی صحت،پاکیزگی اور توانائی پر زور ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت ، پاکیزگی اور توانائی پر بھی۔ اس میں دین کی تحصیل و تکمیل دنیا کی تحصیل و تکمیل سے الگ نہیں۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی عبادات پرصحیح عمل سے خدا کا عرفان عطا کرتا ہے ۔ یہ سلسلہ اپنے ماحول اور گرد و پیش کو پاک و منزہ او ر صحت مند رکھنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ شخصیت کی تعمیر،باہمی معاملات کی درستگی اور معاشرے کی ترقی اس کے حلقہ عمل میں اوّلیت رکھتے ہیں اور ایسی طریقت کی آج دنیائے اسلام کو ضرورت ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ 
پس طریقت چیست اے اولا صفات
شرع راد بدن بہ اعماق حیات
سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں نہ پیر کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے نہ اسے اچھائی یا برائی کا مختار ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں نہ ریاضتیں ہیں نہ چلے کشی، نہ لذائذ دنیا سے نفرت، اکلِ حلال
اور سیرت و کردار کی تعمیر پر البتہ بہت زور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے محبت پیدا کرنے کے لئے چند واجبات پر عمل بھی۔ اس مقصد کے لئے روزانہ چند منٹ وقف کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پرانے وقتوں میں سلوک کی جن منازل کو طے کرنے میں سالہا سال کی مشقت اور ریاضت کرنی پڑتی تھی۔ وہی منازل اس سلسلہ میں تھوڑی سی یکسوئی اور محنت سے چند مہینوں میں طے ہوجاتی ہیں۔امسال سلسلہ عالیہ توحیدیہ کا سالانہ عالمی اجتماع سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے مرکز (الحکیم:۹۲جی،ماڈل ٹاؤن،لاہور،پاکستان)میں28تا 30مارچ 2019 ؁ء بروز جمعرات،جمعہ اور ہفتہ انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا۔سالانہ عالمی اجتماع میں دنیا بھر سے فرزندانِ توحید کی کثیر تعداد شرکت کرے گی کیونکہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ دارلہدایت ہے جسکی اصل دینِ اسلام ہے اور دینِ اسلام کا مطلب عالمگیر محبت،صداقت اور انسانیت ہے۔مزید معلومات کے لیے سلسلہ توحیدیہ کی آفیشل ویب سائیڈکا وزٹ کر سکتے ہیں۔وہ مسلمان ہی کیا کہ جو دوسروں کیلیئے سلامتی نہ ہو اور وہ توحیدی ہی کیا کہ جو جہاں بھر کے مسلمانوں اور انسانوں کیلیئے عالمگیر محبت اور امنِ عالم کا ضامن نہ ہو۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes