حرام کی کمائی

Published on July 1, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 318)      No Comments

تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ حرام کی کمائی کھانے والے افراد کی عبادات اس طرح ضائع ہو جائے گی کہ جس طرح ابلیس کی عبادات صرف ایک حکم خداوندی کے نہ ماننے پر ضائع ہو گئی تھی افسوس صد افسوس کہ شیر خدا کے اس فرمان کو بخوبی سمجھنے کے باوجود ہمارے معاشرے کے نوے پرسنٹ ناسور جو دولت کی ہوس کے پجاری بن کر فرمان حضرت علی علیہ السلام کو ٹھکراتے ہوئے ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی آئے روز تاریخ رقم کر رہے ہیں جو نہ صرف مذہب اسلام بلکہ انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں تو مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا ایک عمر رسیدہ ٹیکسی ڈرائیور اپنی پرانی سی گاڑی کے ذریعے دو وقت کی روٹی کما رہا تھا ایک دن وہ ایک سڑک پر جا رہا تھا کہ اسی دوران اُس نے سڑک کے کنارے پر ایک عورت کو بےہوش جبکہ اُس کے دو معصوم بچوں کو روتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اپنی گاڑی کو روک کر اُس عورت اور اُس کے دونوں معصوم بچوں کو گاڑی میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر نے اُس مریضہ عورت کو چیک اپ کرنے کے بعد اُسے کہا کہ اس مریضہ کا بر وقت آپریشن کرنا ضروری ہے جس کیلئے آپ کے پاس لاکھوں روپے ہونا ضروری ہے یہ سننے کے بعد عمر رسیدہ ٹیکسی ڈرائیور پریشان ہو گیا کچھ دیر سوچنے کے بعد مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور نے ڈاکٹر کو اپنی گاڑی کے کاغذات دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس مریضہ کا آ پریشن شروع کرے یہ کاغذات آپ کے پاس بطور ضمانت ہیں میں آپ کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کرتا ہوں یہ کہہ کر مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور وہاں سے چلا گیا اور کچھ ہی دیر بعد مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور ایک کار ڈیلر کے ہمراہ ہسپتال پہنچا اور وہاں سے اپنی مطلوبہ گاڑی کے کاغذات حاصل کرنے کے بعد کار ڈیلر کو بمعہ کاغذات گاڑی کی چابی دیتے ہوئے تقریبا چار لاکھ روپے حاصل کر کے ڈاکٹر کی مطلوبہ رقم ادا کرنے کے بعد جب وہ وہاں سے جانے لگا تو ڈاکٹر نے مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کا اس مریضہ کے ساتھ کیا رشتہ ہے تو مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور نے ڈاکٹر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا اس مریضہ سے انسانیت کا رشتہ ہے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے میں نے جب اسے سڑک کے کنارے بے ہوشی کے عالم میں دیکھا اور اُوپر سے اس کے معصوم بچوں کو روتے ہوئے دیکھا تو میں اسے اور اس کے دونوں بچوں کو انسانیت کی بقا کے حصول کی خا طر آپ کے پاس لے آیا تو آپ نے اُسی وقت مذکورہ مریضہ کے علاج و معالجہ کی خا طر لاکھوں روپوں کا مطالبہ کر دیا جو میرے پاس نہیں تھے تو میں نے بر وقت یہ سوچ کر اپنی گاڑی کو فروخت کر کے اُس سے حاصل ہونے والی رقم مذکورہ مریضہ کی جان بچانے کے ساتھ ساتھ اُن دونوں معصوم بچوں جو اپنی ماں کے مر جانے سے زندہ درگور ہو جاتے کو ایک نئی زندگی دلوا کر خداوندکریم کے حضور سر خرو ہو جاﺅں گا چونکہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میں حقوق اللہ میں کوتاہی برتنے والے کو تو معاف کر دوں گا لیکن حقوق العبادمیں کوتاہی برتنے والوں کو میں کبھی معاف نہیں کروں گا یہ کہہ کر مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور وہاں سے جانے لگا تو ڈاکٹر نے اُسے کہا کہ تمھارا اس مریضہ سے کوئی خونی رشتہ نہیں صرف انسانیت کا رشتہ ہے لہذا تم اب یہاں دوبارہ نہیں آﺅ گئے اس لیئے تم مذید کچھ رقم یہاں جمع کروا دوں چونکہ مریضہ نے آپریشن کے بعد کچھ عرصہ کیلئے یہاں اے سی روم میں رہنا ہے جس کا کرایہ بہت زیادہ بنتا ہے ڈاکٹر کی اس گھناﺅنی گفتگو کو سننے کے بعد مذکورہ ٹیکسی ڈرائیور نے باقی ماندہ رقم بھی ڈاکٹر کے سپرد کر کے اُن معصوم بچوں جن کی ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی کو پیارو محبت کی نظروں سے دیکھتا ہوا ہسپتال سے باہر چلا گیا آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہی کیفیت ہمارے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کی ہے جہاں پر تعنیات ڈاکٹرز بالخصوص لیڈی ڈاکٹرز ڈریکولا کا روپ دھار کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کا خون چوس رہی ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز غریب مریضوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتی ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ جس کی چند ایک چھوٹی سی مثالیں میں اپنے قارئین اور بالخصوص پی ٹی آئی کی حکومت کے وفاقی و صوبائی وزرا اور سیکٹریوں کی نذر کر رہا ہوں جو غریب عوام کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں پانے کے ساتھ ساتھ لاتعداد سہولیات حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ لاقانو نیت کا ننگا رقص کرنے والے اہلکاروں خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں کا خاتمہ کریں لیکن افسوس کہ یہ خاتمہ بھی بس ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز لاقانونیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے حوصلے اس قدر بلند ہو گئے کہ گزشتہ دنوں ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے سابق ایم ایس جس کا نام غالبا ڈاکٹر محمد اسلم تھا نے موجودہ سی او ہیلتھ جھنگ کے چہرے پر یہ کہتے ہوئے تھپڑوں کی بارش شروع کر دی کہ یہ عیاش اور کرپشن کا بے تاج بادشاہ ہے
بہر حال یہ ایک علیحدہ ایشو ہے جس کے بارے پھر کبھی تحریر کروں گا ہاں تو میں بات کر رہا تھا سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے مظالموں کی جو غریب مریضوں کے ساتھ آئے روز ہو رہے ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال میں ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کی دے رہا ہوں جہاں پر اکثریتی ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز مسیحاﺅں کا روپ دھارنے کے بجائے ہلاکو خان اور چنگیز خان کا روپ دھار کر غریب مریضوں کے ساتھ اذیت ناک سلوک کرنے میں مصروف عمل ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے غریب مریضوں کو مذکورہ ہسپتال سے الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد منتقل کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھناﺅنے اقدام کے نتیجہ میں لاتعداد غریب مریض الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں جن کی اموات کی ذمہ داری نہ تو مذکورہ ہسپتال کے ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز اُٹھاتی ہیں اور نہ ہی ہمارے ملک کی حکومت لیکن وہ یہ سب بھول چکے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے یہاں تو یہ اپنے اثر و رسوخ اور حرام کی کمائی کے بل بوتے پر چھوٹ جاتے ہیں لیکن آ خرت میں ان کا انجام خوفناک ہو گا چونکہ یہی میرے ایمان کا حصہ ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا مذکورہ ہسپتال کے اُن ناسوروں کی جو دیمک کی طرح چاٹ کر مذکورہ ہسپتال کے نظم و ضبط حسن و اخلاق فرائض و منصبی اور بالخصوص انسانیت کے تقدس کو ہڑپ کر رہے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میرے ایک نہایت ہی غریب دوست جو اپنی کفالت اس روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری میں بڑی مشکل سے کر رہا تھا کا فون آیا کہ میری والدہ جو دماغی امراض کی وجہ سے علیل ہو گئی تھی کو ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے وارڈ نمبر چار بیڈ نمبر آ ٹھ پر داخل کروا چکے ہیں جہاں پر مذکورہ بیڈ بھی مذکورہ ہسپتال کے ایک اہلکار جو کہ ہمارا جاننے والا تھا کی معرفت ملا ہے جہاں پر ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز تو تعنیات ہیں لیکن غریب مریض عدم توجہ کا شکار ہیں مذکورہ ہسپتال میں ادویات تو ہیں لیکن غریبمریض لاتعداد ادویات سے محروم ہو کر ہسپتال کے باہر بنے ہوئے میڈیکل سٹوروں پر سے خریدنے پر مجبور جس کے نتیجہ میں لاتعداد غریب مریض ڈاکٹروں کی عدم توجہ اور ادویات کے بر وقت نہ ملنے کے سبب سسک سسک کر مر رہے ہیں اور تو اور مذکورہ ہسپتال کے غریب مریضوں جو آئے روز الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد منتقل کیئے جا رہے ہیں راستے ہی میں اپنے پیاروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے مل رہے ہیں اگر موجودہ حکومت الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد منتقل کیئے جانے والے غریب مریضوں کا آ ڈ ٹ کرے تو انشاءاللہ تعالی ان ناسوروں کے کالے کرتوت بے نقاب ہو جائے گئے اور تو اور ان ناسوروں کے کالے کرتوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں پر تعنیات چھوٹا عملہ جس میں لیڈی سٹاف سر فہرست ہیں بھی غریب مریضوں اور اُن کے ورثا سے ہتک آ میز رویہ اپنائے ہوئے ہیں جن کی فرائض و منصبی صرف اور صرف غریب مریضوں سے حسن و سلوک سے پیش آ نا ہے لیکن وہ بھی غریب مریضوں کو محکوم اور اپنے آپ کو حاکم وقت سمجھتی ہیں
جاری ہے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy