مولانا آزاد،اُ ردو یونیورسٹی ,حیدرآبادمیں مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کا دو روزہ قومی سیمیناربعنوان ’’ پنڈت ہری چند اختر‘‘۔

Published on November 6, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 522)      No Comments


رپورٹ۔۔۔۔۔احمد امیر پاشا، مملکتِ بحرین
وی ڈی مہاجن، ڈاکٹر تارا چنداور ڈاکٹر شیلا سین جیسے نامور تاریخ نویسوں نے بھی ہندوستانی سماج اور اس سے وابستہ تاریخی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے یہی تاثر دیا ہے کہ ازمنہِ قدیم سے زمانہِ حال تک مختلف مذاہب کی حریفانہ کشاکش کے باوجود اس کی جغرافیائی اور سماجی ایکتا کا ایک بڑا سبب لسّانی وحدت یا اس سے وابستہ علمی سرمایہ رہا ہے۔اسی لسّانی اشتراک عمل سے اس خطے میں علمی ترقی کا وہ سنہری دور آیا جس نظیر جنوبی ایشاء کے کسی دوسرے منطقے میں نہیں ملتی، اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ابو ریحان البیرونی جیسا عظیم مسلمان عالم سنسکرت اور ریاضی سیکھنے کے لئے ہندوستان آیا۔ہندوستان ایک اتنا بڑا جغرافیائی اور ثقافتی خطہ ہے کہ اس کی بقا متضاد عناصر سے ممکن ہی نہیں بلکہ اس کی خوشحالی اور قومی سلامتی کا دارومدار موافق و مشترک عناصرکے فروغ میں ہے۔ اس ضمن میں اگر ازمنہ وسطیٰ کے ہندوستانی سماج کے آرٹ، ادب ، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کی با کمال ترقی کا جائزہ لیا جائے تو اس ہمہ گیر عمل میں زبانِ اُ ردو مرزی کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔تیرھویں صدی میں پروان چڑھنے والی اس نئی نویلی لسّانی دوشیزہ نے پوری جنوبی ایشیائی سماج کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیا تھا۔بعد میں سیاسی عروج و زوال کے تہ بہ تہ معرکوں میں اُردو نے کارِمسیحائی کیا اور سیاسی و مذہبی کشمکش کے رستے ہوئے زخموں پر نہ صرف مرہم رکھا بلکہ یہاں آباد اقوام میں باہمی افہام و تفہیم کی راہ بھی نکالی۔اس زبان کا خمیر ہندوستانی معاشرے سے اٹھا ہے اور یہی اس خطے کی معاشرتی نا ہمواریوں کا تریاق بھی ہے۔
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو ( مملکت ِ بحرین )کے زیرِ اہتمام 30اور31اکتوبر2019 ء کو حیدرآباد کی درسگاہِ علم پرورمولانا آزاد جامعہ اُردو میں منعقدہ دوروزہ سیمیناربیادِ ’’ پنڈت ہری چند اختر‘‘ کا انعقاد میری مندرجہ بالا رائے کی تائید کے لئے کافی ہے۔انگریزی میڈیم کے طوفانِ بلا خیز اور معدوم ہوتی ہوئی علمی قدروں کے اس دور میں لسانی تخریب کا ایک عالمی عمل قوموں کو ان کی شناخت کے مسئلے سے دوچار کر چکا ہے۔ ان حالات میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکا قیام بلا شبہ محترم شکیل احمد صبر حدی کا قابلِ تقلید قدم ہے جس کے ادبی و علمی اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے جا رہے ہیں،اسی لئے صدر جمہوریہ ہندعالی جناب رام ناتھ کووندنے مجروح فہمی کی اشاعت پربانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردومحترم شکیل احمد صبر حدی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ آپکی عمدہ کاوشوں کی صدا ہندوستان تک سنائی دے رہی ہے۔
اس مضمون کا پس منظر دراصل محترم شکیل احمد صبرحدی کے خیالا ت و تاثرات سے ہی کشید کیا گیا ہے۔آپ اس ضمن میں ہندوستانی سماج میں تعاون و اشتراک کو ایک ضرورت نہیں بلکہ ایک نظرئے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔ اس نظرئے کی اصل روح غیر مذہبی بنیادپر فروغِ اُردو کا ایک ایسا ہمہ گیر عمل ہے جس میں اس زبان کے علمی سوتوں کی دوبارہ آبیاری کر نا ہے اور اس عمل میں ان تمام علمائے اردو،ادبّاء اور شعرائے عظام کے کردار کو اشاعتی بنیادوں پر خراج پیش کر نا ہے تاکہ اس حوالے سے اصل ادبی سرمایہ اور اس سے وابستہ کاوشوں کو معتبر تاریخ کے طور پر کتابی شکل میں شائع کر کے آئندہ نسلوں کو منتقل کیا جاسکے۔
اہلِ عرب زبان دانی کے مقابلے منعقد کراتے تھے ، پھر منتخب کلام کو لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکاتے تھے، انہیں سبع معلقات کہا جاتا تھا۔ شاید یہ روایت بعد میں شعراء کے کلام کی اشاعت کے لئے تصنیف و تالیف کا ڈھب اختیار کر گئی۔مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردونے بھی اس روایت کو شایانِ شایان اندازمیں زندہ رکھا۔ایک سال اُردو کے کسی عالمی سطح کے مسلم تو اگلے سال کسی غیر مسلم شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرے کے انعقاد کا طریق مقرر کیا۔سال بھر اس شاعر کے مصرعوں پر طرحی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ پھر ہندوستان کی کسی نامور جامعہ میں اسی شاعرِمحترم کی شعری و ادبی خدمات کے حوالے سے و روزہ سیمینار منعقد کیا جاتا ہے۔اس سیمینار میں پڑھے گئے ارباب علم وفن کے مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے، یہ اشاعت اپنی نوعیت کی تابناک علمی کاوش شمار ہوئی ہے، جس کی تحدیث میںعہدِ حاضرکے معروف ناقدین قلمکار اُردو، رطب اللّساں ہیں۔ اب ایسی ہر اشاعت کا ایک ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا کرے گا جو محترم شکیل صاحب کی علمی وادبی اشتراک عمل کی کوششوں پر مستزاد ہے۔ بایں ہمہ عالمی مشاعرے میں اس قابلِ قدر تصنیف کی رونمائی صدر مشاعرہ اور دیگر احبابِ علم کے ہاتھوں ہوتی ہے۔اس موقعہ پر عالمی مشاعرے میں شریک مقامی اور مہمان شعراء کے کلام پر مشتمل مجلہ شائع کر کے شائقین شعرو ادب کی نذر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی مربوط، پیہم اورمرتب کاوش ہے جس کی سرپرستی بذاتِ خود بانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو، محترم شکیل احمدصبر حدی کرتے ہیں۔ہندوستان میںقومی سیمینار اور اس سے حاصل ہونے والے علمی مواد کی ترتیب و تدوین واشاعت کا سہر ,مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکے مشیرِخاص ,قطر میں مقیم معروف شاعر جناب عزیز نبیل اور, چیئرمین آئیڈیا کمیونکیشنس جناب آصف اعظمی کے سر ہے۔بحرین میں مجلس کے زیرِاہتمام عالمی مشاعرے اور مقامی طرحی نشستوں کے انصرام کے لئے ایک الگ متحرک نظم موجود ہے۔
بلا شبہ پنڈت ہری چند اختر اُردو کے ایک نامور صحافی اورمقبولِ عام شاعر تھے، تاہم اس عہد میں بڑے شعراء اور صحافیوں کی چکا چوند میں ، ان کی علمی قامت کااعتراف قدرے بعد میں ہوا، ہندوستان اور پاکستان میں بطور شاعر اورصحافی ان کی خدمات کوعلمی حلقوں کی طرف سے گاہے بہ گاہے سراہا گیا ہے۔مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردونے سال 2020ء کے عالمی مشاعرے کے لئے ہری چند اختر کا نام منتخب کیا

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题