جدید زرعی ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنایا جائے۔۔۔!!!!

Published on April 4, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 220)      No Comments

 مقصود انجم کمبوہ
ترقی پزیر ممالک میں آج بھی کسان بیلوں کو کنوﺅں سے پانی حاصل کرنے ، چکی پر آٹا پیسنے اور کاشت کاری کے کاموں میں جانوروں کا استعمال کرتے ہیں۔ زرعی آلات کی مہنگی مارکیٹ کے سبب زرعی کاموں میں جانوروں کا استعمال ایک غریب کسان کی مجبوری بن چکی ہے۔ہمارے ملک میں ذرعی شعبہ میں ترقی کی رفتار پہلے کی نسبت آج خاصی تسلی بخش ہے۔مگر ماہرین کے خیال میں چونکہ زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال عام کسان کی پہنچ سے اب بھی باہر ہے۔اس لئے ترقی کی موجوہ رفتار سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اب زرعی ٹیکنالوجی سے خاصہ استفادہ کیا جا رہا ہے۔زرعی ٹیکنالوجی کو جدید بنانے کے لئے ملک بھر میں بہت سارے نجی وحکومتی ادارے دن رات مصروف عمل ہیں ملک میں بین الاقوامی معیار کے مطابق تحقیق و تفتیش کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہمارے پاس اتنے مالی اور تکنیکی وسائل موجود نہیں ہیںکہ ہم مغربی اور یورپین ممالک کی زرعی صنعتوں کا بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کر سکیں ۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ہم اپنی ضروریات پورا کرنے کی مکمل سعی کر رہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہماری زرعی پیداوار ی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جدید مشینری وآلات کی در آمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑرہا ہے۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے کئی ایک تحقیق ادارے قائم کئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے ایک ادارہ ایمری کے نام سے ملتان میں جدید زرعی ٹیکنالوجی پر ریسرچ کا کام کر رہا ہے ۔ اس ادارے کا مقصد زراعت میں استعمال ہونے والی مشنری وآلات کے ڈیزائن کو مزید بہتر بنانا ، ذراعت کے مختلف مرحلوں میں استعمال ہونے والے آلات کے اخراجات کا مطالعہ کرنا، زرعی مشنری وآلات کا معیار مقرر کرنے کے لئے اسکی جانچ پڑتال کرنا۔ مشینوں کے تبادلے کے لئے قومی وبین الاقوامی زرعی اداروں سے رابطہ قائم رکھنا ۔ مشینوں کی پیداوای تحقیق کے سلسلے میں مقامی طور پر زرعی مشینری میں نجی صنعتکاروں اور استعمال کندگان کے درمیان تعلق و رابطہ رکھنا، اور مزید تحقیق کے زرعی آلات و مشینری کے مناسب ڈیزائن تیار کرنا اور اس کی جانچ پرکھ کر کے مقامی مشینری و آلات کو بہتر انداز دینا ۔ مذکورہ ادارے نے جن مشینوں پر تحقیقی کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور ادارہ کی ایجاد کردہ مشینری وآلات ایمری سپر یئر ،ایکسل ،فلوپمپ ، ریپریٹو گر،گین پلا نٹر، کاٹن بال سپریٹر،سورج مکھی پاور تھر یشر اور پاور پٹیٹوڈ گر ہیں۔ یوںتو ملک کے مختلف حصوں میں زرعی آلات و مشنری کی تیاری کے لئے صنعتیں ملکی ہدف کو پورا کرنے کی غرض سے نجی طور پر اپنے و سائل بردئے کار لا رہی ہیں مگر صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کو زرعی مشینری کی منڈی کہا جاتا ہے۔جہاں زرعی آلات تیار کرنے والے سینکڑوں کارخانوں میں کام جاری ہے ۔ سمال انڈسٹری میں ہونے والے کام کو میں خود بھی بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے میاں چنوں کے سرکاری اداروں میں کام کرنے کا موقع تو ملا مگر پنجاب سمال انڈسٹریز کاپوریشن کے ریجنل ڈائریکٹر نے مجھے وہاں سے ٹرانسفر کر کے دم لیا ۔ مجھے میاں چنوں (موسیٰ ورک ) میں قائم ہونے والے سرکاری ایگریکلچرل مشینری کے ادارے میں بطور ڈائر یکٹر کام کرنے کا سنہری موقع ملا اس انسٹی ٹیوٹ میں ہالینڈ سے آنے والی مشنری کے لئے مقامی صنعتکاروں کے اجلاس کا اہتمام کیا جو ریجنل ڈائریکٹر کی پہنچ سے قطعی باہر تھا۔میں نے بودلہ اور غازی انڈسٹری کے مالکوں کو ایک چھتری کے نیچے اجلاس کرنے پر تیار کیا۔ ان دو خاندانوں کی سیاسی چپقلش کو ختم کرنے کا فریضہ بڑی احتیاط سے ادا کیا ۔ اور اجلاس کو کامیابی ملی جس میں ایگری مشینری جو اس ادارے کے لئے ضروری تصور کی جاتی تھی اس کو فائنل شکل دی اور اس ایگری انسٹی ٹیوٹ کی تعمیروتنصیب کا آغاز ہوا ۔ اسی ادارے کا پہلا سربراہ میں ہی مقرر ہوا۔ ان دنوں سابق وزیر اعلی غلام حیدر وائیں نے مقامی انتظامی مشینری کو حکم دیا کہ وہ پراجیکٹ ڈائریکٹر مقصوداحمد انجم سے مکمل تعاون کر ے اور ان اداروں کی تعمیروتنصیب میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں عملی مظاہرہ کریں اورپھر ایسے ہی ہوا مگر افسوس کہ ریجنل ڈائریکٹر نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مجھے وہاں سے تبدیل کر کے ہی دم لیا ۔ آج یہ ادارے صوبائی حکومت کی زیرنگرانی چل رہے ہیں ۔ جبکہ مجھے بعد ازاں قصور شہر میں تباہ و برباد ہونے والے لیدر سروس سینٹر کی بحالی کے لئے چنا گیا۔ جہاں میں نے بڑے تھوڑے سے عرصہ میں اس ادارے کی بحالی کا کام مکمل کیا۔ آج یہ ادارہ جو بھوت بنگلہ کہلاتا تھا شیش محل بن کر پرافٹ دے رہا ہے اور جس جنرل مینجر نے مجھے ریٹائرمنٹ پر جانے دیا اس نے میاں چنوں کے ایگری مشینری ادارے میں کام کرنے والے فورمین کو (جوگیارہ سکیل) میں کام کر رہا تھا کو اٹھارہ سکیل دے کر ادارے کا سربراہ مقرر کیا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes