مشرقی و مغربی تہذیب میں خواتین کے حقوق

Published on March 10, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 833)      No Comments

\"Umar-Farooq2\"
مغربی معاشرہ جو آج دین اسلام کو تنگ نظر اور پرانے خیالات کے حامل ہونے کے طعنے دیتا نہیں تھکتا اسی مغربی تہذیب کا خود یہ حال ہے کہ وہاں تو آج بھی عورت کو نہ کوئی حقوق حاصل ہیں نہ عزت اور نہ عصمت محفوظ ہے۔اسلام نے تو آج سے 1400سال قبل ہی عورت کو تمام حقوق سے نوازتے ہوئے گھر کی ملکہ کا درجہ دے دیا تھا۔یہ وہی حقوق ہیں جن کو نوازنے سے آج بھی مغربی تہذیب کتراتی ہے۔ اسلام نے جو عورت کے مطلق صدیوں پہلے قوانین صدیوں پہلے نافذ کیے تھے۔وہ تو آج بھی اپنی اب تاب کے ساتھ قائم و دائم ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔اور ہمیں تنگ نظر کے طعنے دینے والے یورپ کاخود یہ حال ہے کہ ابھی پوری ایک صدی بھی نہیں گزری جب یہ یورپی عورت کو ،،گناہ کی جڑ،،برائی کا سر چشمہ،،اور جہنم کا دروازہ جیسے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔یورپ کے مشہور معروف فلسفہ دان اور چوٹی کے سکالربھی مردکومشورہ دیتے تھے کہ جب بھی عورت کے پاس جانے لگو تو عورت کو سیدھا کرنے کے لیے اپنا ،،کوڑا ،،لیکر جانا مت بھولو۔انسیویں صدی میں جب انگلستان میں سورج ہی غروب نہیں ہوتا تھا وہاں کی عورت انتہائی مظلومی اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔عورت کے گلے میں رسی ڈال کر چند ٹکوں میں دوسرے کو بیچ دینا معمول کی بات تھی۔فرانس ۔جرمن جیتنے بھی یورپی ممالک ہیں وہاں عورت بے پناہ مظالم کا شکار تھی۔تشدد تو عام سی بات بن چکی تھی۔اور تشدد تو اب بھی یورپ ممالک میں عورت کم نہیں سہ رہی۔عورت ہر طرح کی ملکیت ووراثت سے محروم تھی۔شوہر اگر اپنی بیوی کو زندہ بھی جلا دیتا تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔یورپ میں تو لاکھوں خواتین کو جادوگرنیاں قرار دیکر زندہ جلا ئے جانے کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوا سروے رپوٹوں کے مطابق ستر70لاکھ سے زائد عورتوں کو زندہ جلایا گیا ۔عورت کو جادوگرنی قرار دیکر زندہ جلانے کی روایت کو تو ابھی بھی انڈیا میں ہندووں نے زندہ رکھا ہوا ہے ۔اٹھارویں صدی میں جب یورپ اور فرانس میں صنعتی و جمہوری دور کا آغاز ہواتو اس دور میں پھر عورت کے حقوق کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔اور خواتین بھی اپنے آپ کو مرد کے برابر لانے کے لیے متحد ہو کر کوشاں ہوئیں۔یورپی خواتین نے بھی اپنے گھروں کو چھوڑااور سارا دن دفتروں ،کارخانوں میں گزارنا شروع کیا ۔جس سے عورت پھر دوہری مشقت کا شکار ہوئی سارا دن دفتر اور کارخانوں میں کام کیا اور وآپس آکرکام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال۔لیکن جلد ہی مغربی عورت اس دوہری مشقت سے بھی تنگ آگئیں اور پھر چلڈرن کیئرسینٹرز کا قیام عمل میں آیا ۔جہاں بچوں کو داخل دن رات وہاں رہتے جس سے عورت تو دوہری مشقت سے کافی حد تک بچ گئی۔ لیکن بچے ماں باپ کی محبت اور تربیت سے محروم ہو گئے۔جس سے یورپی بچوں میں ایسی خرابیاں پیدا ہوئی جو کھبی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔جیسے خودکشی،چوری۔ڈکیتی۔ عصمت دری یہاں تک کہ اپنی ہی ماں یا بہن کی عصمت دری جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔عورتیں کارخانوں اور دفتروں میں کام کرتی ہیں تو ان کو مرد کے برابر تنخواہ بھی نہیں دی جاتی اور اسی لیے عورت کو کاموں کے لیے ترجیع دی جاتی ہے کہ کم تنخواہ پر مل جاتی ہیں یہ بات تو ہمارے ہاں بھی عام ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں خواتین کو اس لیے زیادہ تعداد میں نوکریاں دی جاتی ہیں کہ وہ کم تنخواہ پر بھی زیادہ کام کر لیتی ہیں اس کی وجہ ایک تو وہ خواتین ہیں جو انتہائی مجبوری کی حالت میں کام کرتی ہیں دوسری وہ جو فیشن کے طور پر کرتی ہیں اس لیے دونوں ہی کم تنخواہ پر مل جاتی ہیں جس سے پرائیویٹ ادارے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسلام نے آج سے 1400سال پہلے ہی عورت کو ان تمام حقوقسے نوازدیا تھا جس سے مغرب آج بھی بھاگتا ہے۔مغرب میں تو زیادہ تر تو عورت کے حق وراثت کو ہی قبول نہیں کیا جاتا۔لیکن اسلام نے عورت کو وراثت میں حق دار قرار دیا ہے۔اور وہ لوگ جواسلام کے نظام وراثت تنقید کرتے ہیں جو خود تو عورت کو بالکل بھی حق وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔مغربی مصنف یہ بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ دو عورت کو ایک مرد کے برابر حق دار کیوں قرار دیا گیا ۔جب کہ ہم اس حوالے سے مطمیئن ہیں کہ اللہ تعالی نے جو بھی نظام دیا ہے وہ کسی حکمت سے خالی نہیں ہے۔اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ نظام واضح سمجھ میں آتا ہے کہ ایک مرد جو گھر کا تمام نظام چلاتا ہے بیوی بچے اور گھر کے مکمل اخراجات مرد کے ذمہ ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اللہ تعالی نے یہ نظام واضح کیا ہے ۔تورات اور انجیل میں عورتوں کاحق وراثت تو مقرر کیاگیاتھا ۔لیکن اپنی جائیداد کی تقسیم کے ڈرسے عورتوں کو صرف اپنے خاندانوں میں ہی شادی کئی اجازت جیسی شرائط کے ذریعے حق وراثت سے عملامحروم رکھا گیا ہے ۔آج بھی دوسرے مذاہب اور معاشروں میں اس طرح حصہ نہیں دلایا گیا جیسے اسلام نے آجسے1400سال پہلے دے رکھا ہے۔اسلام نے نظام واضح کردیا عورت کو کما کر لانے کی نہ مجنوری نہ ضرورت کیونکہ بیٹی کی ذمہ داری باپ پر اور بیوی کی ذمہ داری شوہر پر ہے ۔بہن کی کفالت اور ماں کی بیٹا۔ عورت کو نظام اسلام نے اسی طرح کی ذمہ داریوں سے بے فکر رکھا ہے تاکہ گھر کے تمام معملات بہتر انداز سے چلا سکے۔اگر گھریلو ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ عورت پر معاشی حوالے سے بھی بوجھ ڈالا جائے تو یہ ظلم ہے۔ہاں ایسی صورت حال بھی ہوتی ہے کہ گھر کی واحد کفیل عورت ہی ہوتی ہے ۔یا شوہر کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھر کا نظام چلانا مشکل تو عورت اپنے میاں کا ہاتھ بٹانا چاہتی ہے۔اسے موقع پر اسلام نے تو یہ نظام دیا ہے کہ حکومت خود ضرورتمند،محتاج۔معذور اور یتیموں کی مدد کرئے اور ان کی کفیل بنے ۔لیکن ہمارے ہاں مکمل اسلامی نظام نا ہونے کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہے۔رشتہ داروں اور ہمساؤں کا کا فرض ہے کہ ان کی کفالت کی جائے اور ان کو بے سہارا نہ چھوڑا جائے ۔اور اگر پھر بھی عورت کو ہی گھر کا تمام نظام چلانا پڑے تو اسلام نے عورت پر کمانے کی پابندی بھی نہیں لگائی کہ وہ کما نہیں سکتی ۔لیکن شوقیہ ملازمت مناسب نہیں ہے۔کیونکہ ملازمت میں عورت کے لیے دشواریاں ہی دشواریاں موجود ہیں۔اکثرحقیقت پسند مغربی مصنفین (ایس پی سکاٹ،گستاولی بان،موسیوڈے ایمس وغیرہ)بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ دین اسلام کے طفیل باقی عورتوں کا احترام بھی بڑھ گیااور عورت کومکمل تحفظ اور عزت کی زندگی نصیب ہوئی ۔ایک مصنف ،الیگزینڈرڈو،، لکھتا ہے کہ جنگوں کے دوران بھی عورتوں کا اتنا احترام اسلام میں موجود ہے عام سپاہی بھی قتل وغارت کے ہنگامہ میں بھی عورتوں کو کوئی ایذا نہیں پہنچاتے بالکہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور دوسری طرف مغرب اور ان کے دلدادہ قیدی عورتوں کی عصمت دری اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ۔بعض اوقات تو باپ بیٹا اور دوست اکھٹے مل کر ایک ہی عورت کی عزت سے کھلتے اور یہاں ہی بس نہیں کرتے بالکہ ان سے طوائف کا کاروبار کرواتے اور اس کو کمائی کاذریعہ بناتے تھے۔اگر آپ کو یہ باتیں زیادہ پرانی مْحسوس ہو تو ذرا آپ 1992میں بوسینا پر ہونے والے حملے کو دیکھ لے جس میں لاکھوں خواتین کو سربیا کی فوج نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور اسی طرح1971میں پاکستانی خواتین جب بھارتی جیلوں سے رہا ہوکر وآپس آئی تو بے پناہ تشدد کا شکار جن کو ایک نظر دیکھنے سے پہچانا نہ جائے ایسی شکستہ حالت میں پاکستان پہنچی اور کچھ کے پاس تو ایک یا دو بچے بھی تھے ایسی درندگی خدا کی پناہ ایسی بھی خواتین تھی جن کے بازویا ٹانگیں ہی جسم پر موجود نہیں تھی۔ یہ ہے مغربی تہذیب اور ان کے دلدادوں کے خواتین کے حقوق کے عالمی چیمپین کہلانے والوں کے اصلی چہرے۔الحمداللہ اسلام کو یہ برتری اور فضیلت حاصل ہے کہ وہ غلامی اور قید کی حالت میں بھی عورتوں کی نسوانیت کا احترام کیاجاتاہے۔کسی بھی مسلمان فوجی کو انہیں بے ابرو یا اپنا حق سمجھنے کی اجازت نہیں ہے۔ دین اسلام واحد مذہب ہے جس میں عورت کو سب سے زیادیہ عزت اور حقوق دیئے ہیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes