کاٹیج انڈسٹری اور جدید تقاضے

Published on September 20, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 201)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
دستکاریوں کی اقتصادی اور سماجی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا دستکار ہاتھ سے مختلف اشیاء تیار کر کے روزی کماتا ہے ، اس اعتبار سے اس کا کام بڑا کٹھن اور معاوضہ بہت کم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہاتھ سے تیار کردہ اشیاء کی جو قیمت ہے وہ ان کی پائیدای اور نفاست کے سبب ہے ۔ دستکار امریکن خلائی لیبارٹری کے لئے اجزائے ترکیبی فراہم کرتے ہیں وہ قیمتی لکڑی سے آرائش و زیبائش کے کپڑے تیار کرتے ہیں ، جوتوں کی مرمت کرتے ہیں کپڑے دھونے کی مشینوں کی رپئیرنگ کرتے ہیں وہ ہر کہیں دستیاب ہیں اور ہر کسی کو ان کی ضرورت پڑتی ہے اگر اس وقت کوئی چیز کام نہیں کر رہی تو وہ کسی وقت ضرور کرتی ہو گی ، جرمنی میں ہنر مند دستکاری کے کاروبار کے خود مختار اداے ہیں ان کی تیار کردہ اشیاء ریاستی کنٹرول میں چلنے والے اداروں کی اشیاء کی نسبت سستی ہوتی ہیں پھر ان کی کوالٹی بھی بہت عمدہ ہوتی ہے کیونکہ ایوا نہائے تجارت ہنر مند کاریگروں کے مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت ان کے مسائل کے تدراک میں مصروف کار رہتے ہیں ۔ جرمنی میں اس قسم کے چھپن چیمبر ہیں جو نو آموز کاریگروں کی تربیت کی نگرانی کرتے ہیں دستکاروں اور ہنر کاروں کے لئے امتحانوں کا انتظام کرتے ہیں اور اس امر کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا کسی نئی دستکاری کی گنجائش ہے یا نہیں ، انفرادی فرموں کو مشورے دیتے ہیں ، حکومت کی بجائے چیمبر ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر چیز جو ہاتھ سے تیار ہورہی ہے اس کا خیال رکھیں جو شخص کسی چیمبر کا رکن نہیں ہوتا وہ جرمنی میں ہنر مند دستکاری سے متعلق کاروبار نہیں کر سکتا ریاست کا کردار صرف قانونی نگرانی تک محدودہے جرمن دستکاریوں کی مرکزی ایسوی ایشن (زید ڈی ایچ ) کے مطابق نئی فیڈرل ریاستوں میں اس میں روزگار کے لئے مواقع پیدا ہوئے ہیں 1989ء میں اس شعبہ میں ملازمین کی تعداد 4لاکھ 62ہزار تھی جو 93ء میں بڑھ کر 1ئ1ملین سے بھی تجاوز کر گئی یہ بات اس حقیت کی ترجمان ہے کہ دستکاریوں کا شعبہ بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے مزکورہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 93ء کے اواخر تک اس شعبہ میں ہر چھٹے آدمی کو روز گار کے مواقع ملے اسی مدت یعنی 89ء سے 93ء کے دوران دستکاریوں پر مبنی کاروبار 85ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ 38ہزار تک پہنچ گیا پھر اسی سیکٹر میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کو تربیت کی سہولتیں بہم پہنچائی گئیں ایسو ایشن کے اندازوں کے مطابق 94ء میں تقریباً پچاس ہزار نئے معاہدات کیے گئے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ تھے نئی فیڈرل ریاستوں میں نو آموز دستکاریوں کی کل تعداد 93ء کے آخر میں 11لاکھ 3ہزار 8سو 43تھی جبکہ 90میں یہ تعداد 32ہزار سے بھی کم تھی یہ اعدادو شمار ترقی اور پیش رفت کے عکاس ہیں ۔ دستکاریوں کی تجارت سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے 93ء کے سال میں اس سیکٹر سے جو آمدنی ہوئی وہ 684ملین مارک تھی یہ رقم مجموعی خالص ملکی آمدنی کا غالباً چوتھا حصہ ہے ۔ یہ سچی حقیقت ہے کہ جن ملکوں نے “فنی تعلیم و تربیت”اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیقی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہی آج ستاروں پر ہی نہیں بلکہ چاند سے بھی آگے مریخ پر کمندیں گاڑھے بیٹھے ہیں اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں اپنا لوہا منوا نے میں کامیاب ہو چکے ہیں جاپان ، جرمنی ، سویڈن ، نار وے ، اٹلی ، بلجیم ، ہنگری ، ہانک کانگ ، کوریا اور سنگا پور الیکٹرانکس اور مشینری کی دنیا میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جنوبی کوریا میں ہر شخص ہنر مند ہے اسی لئے فنی تعلیم و تربیت کی شرح تقریباً سو فیصد ہیں اس کے برعکس ہمارے ہاں فنی تعلیم و تربیت برائے نام ہے اس کو کم درجے کی تعلیم گردانا جاتا ہے اور اس شعبے میں مناسب سہولتیں نہ ہونے کے باعث پاکستانی نو جوان اس طرف رُخ ہی نہیں کرتے مالی کمزوری بد حالی کی وجہ سے افرادی قوت پیدا کرنے والے فنی تربیتی مراکز جمود کا شکار ہیں بعض سرکاری و نیم سرکاری ادارے مالی وسائل کی عدم فراہمی و دستیابی کے باعث تریبتی سہولتیں مہیا کرنے کی بجائے پیسہ کمانے میں لگا دئیے گئے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو اگلی صدی میں ہم گدھا ریڑھیوں پر سوار ہو نگے بہتر یہ ہوگا کہ آئے روز نئے ادارے کھولنے کی بجائے پرانے اداروں کو مناسب مالی وسائل فراہم کر کے انکی کارکردگی میں اضافہ کیا جائے مشاہدے میں آیا ہے کہ محکمہ فنی تعلیم اور صنعتی کا ر پوریشنوں کے زیرِ انتظام چلنے والے اداروں میں فرنیچر موجود نہیں ، مشینری کی دیکھ بھال اور مرمت کے لئے فنڈز نہ ہیں ، عمارتیں خستہ و خراب ہو رہی ہیں ۔ انکی دیکھ بھال کے لئے رقم نہ ہے بلکہ یہاں تک کہ تربیتی مقاصد کے لئے پیسہ نہیں ہے تربیت برائے نام ہے ان حالات میں فنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے والے افراد صنعتی انقلاب برپا کریں گے یا کہ عذاب، ذرا سوچئے اور ملک عزیز کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے ان اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی و سائل مہیا کیجئے ۔ دستکاروں اور ہنر مند کاریگروں کی سر پرستی کر کے دستکاریوں کو فروغ دیں اور ایسی دستکاریاں مہیا کی جائیں جن کو برآمد کر کے زر مبادلہ کمایا جا سکے اس مقصد کے لئے چاروں صوبوں میں قائم چھوٹی صنعتوں کی کارپوریشنیں متحرک کی جاسکتی ہیں ان کی کارکردگی کو بڑ ھانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جانا چاہئیے کاٹیج انڈسٹری گلی گلی ، کوچے کوچے قائم ہوجانی چاہئیں دستکاروں اور ہنر مندوں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ وہ ایسی دستکاریاں مہیا کریں جو برآمد ہو سکیں ۔
حکومتوں کی شکست و ریخت ، اپوزیشن کے منفی کردار ، بڑے بڑے قرض خوروں اور سیاسی لٹیروں کے چونچلوں نے ملک عزیز کو سیاسی و معاشی طور پر لاغر بنا دیا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ ادارو ں کو چلانے کے لئے مالی قوت نہ ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری قومی خدمات کے ادارے بھی کرپشن کی راہ پر چل نکلے ہیں ۔ ماضی میں چھوٹی صنعتی کارپوریشنوں نے دستکاریوں کو فروغ دے کر لاکھوں روپے کمائے ہیں اسی انکم سے کروڑوں کے اثاثے بنائے ، بلاشبہ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن ایک انتہائی اہمیت کا حامل ادارہ ہے اس کی کارکردگی چند برس قبل تک مثالی رہی ہے مگر پی پی پی کے دورِ حکو مت میں وزارتو ں کی بند ر بانٹ نے جہاں دوسرے محکموں کو تہہ و بالا کیا وہاں پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن بھی بُری طرح بد حالی کا شکار ہوئی حکومت پنجاب کو چاہئیے کہ کارپوریشن کو زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا کرے تاکہ سابق دور میں پہنچنے والے مالی نقصات کا ازالہ ہو سکے اور کارپوریشن اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Themes