توانائی کا مسئلہ اور بین الاقوامی کوششیں

Published on October 3, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 230)      No Comments

 
مقصود انجم کمبوہ
توانائی کا مسئلہ اب بین الاقوامی صورت اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ کوئلے اور تیل ایسے روائتی وسائل نہ صرف یہ کہ تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں بلکہ ان کے بے جا استعمال و ضیاع سے ماحول میں آلودگی کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے اس پر مستزاد یہ کہ ایٹمی توانائی کے معاملے میں تحفظات کا سنگین مسئلہ در پیش ہے بعض فنی محققین سورج اور ہوا سے حاصل ہونیوالی توانائی میں گوناں گوں اضافہ کے لئے سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بلا شبہ جرمن، جاپان، فرانس، امریکہ اور برطانیہ کے سائنس دانوں اور فنی ماہروں نے اس سلسلہ میں جتنی بھی کوششیں کی ہیں ان کا نتیجہ مثبت نکلا ہے وفاقی جمہوریہ جرمنی کی حکومت نے توانائی کے اس شعبے کو ترقی و ترویخ اور تحقیق کے لئے 1980ء کے عشرے کے وسط میں 20کروڑ مارک کی رقم مختص کی تھی یہ رقم 1990ء کے عشرے کے وسط تک کے لئے مخصوص کی گئی تھی لیکن اختراجات کو دیکھتے ہوئے ازاں بعد رقم میں 30کروڑ مارک کا اضافہ کر دیا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک اس مد میں جو اخراجات کر رہے ہیں ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہو گا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی توانائی کے نئے اور قابل تجدید وسائل کے بارے میں تحقیق پر جاپان اور امریکہ کے تقریباً برابر اور یورپی ممالک سے زیادہ رقم خرچ کررہا ہے۔ جرمن سائنسدان انجینئر اور فنی محققین سورج کی حرارت، ہوا اور پانی کی قوت سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر سرگرمی سے نہ صرف جدوجہد میں مصروف ہیں بلکہ محدود پیمانے پر ان ذریعوں سے حاصل کردہ توانائی اپنے استعمال میں بھی لارہے ہیں فی الوقت توانائی کی بنیادی کھپت کے دو اعشاریہ چار فیصد کے کے برابر قابل تجدید وسائل سے حاصل کی جارہی ہے جہاں تک ان ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے مجموعی طور پر پانچ فیصد بجلی حاصل کی جارہی ہے اندازہ ہے کہ آنے والے وقت میں تجدید وسائل سے بجلی کی پیدا وار دو تین گنا ہوجائے گی اگر کوئی شخص شمالی جرمنی کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرے تو اسے ہوا سے چلنے والے جنریٹر ہی جنریٹر نطر آئیں گے جن میں سے بیشتر زرعی فارموں کے ساتھ نصب ہیں وفاقی حکومت ایک سو میگا واٹ منصوبے کے تحت ہوا سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ نصب کر نے کی ھوصلہ افزائی کررہی ہے،جو لوگ اپنے استعمال کی بجلی خود اپنے طور پر پیدا کرنے کے خواہشمند ہوں وفاقی حکومت انہیں ہر نوع کی امداد فراہم کرتی ہے، دریائے موسل کے کناروں پر 780کے قریب شمسی موڈیول اس طرح نصب کئے گئے ہیں کہ سورج کی حرارت کو زیادہ سے زیادہ جذب کر سکیں اس شمسی بجلی گھر میں سالانہ اڑھائی لاکھ کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جس سے 75خاندانوں کی سال بھر کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں، علاوہ ازیں مائیکرو الیکٹرونکس کے استعمال سے بجلی کی کھپت میں بیس فیصد تک بچت ہونے کے امکانات روشن ہیں۔
امریکہ نے 74ء تا 88ء تک توانائی کے متبادل وسائل اختیار کر کے اور توانائی کے استعمال میں بچت کے ذریعے 10کھرب ڈالر بچا لئے جبکہ دو کروڑ کے مکانات تعمیر کئے 5کروڑ نئی گاڑیاں بھی سڑک پر آئیں اور جی این پی (مجموعی پیداوار) 46فیصد بڑھی اس کے باوجود توانائی کا استعمال صرف سات فیصد بڑھا، زیر زمین حرارت سے تقریباً تین ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی دنیا کے مختلف ممالک میں پیدا کی جارہی ہے جس میں امریکہ سر فہرست ہے، کیلے فورنیا کے گیزر جیو تھرمل فیلڈ میں ایک سو میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ کوڑے کچرے اور فصلوں کے بھوسے سے بھی بعض ترقی یافتہ ممالک میں بجلی /توانائی پیدا کی جارہی ہے صرف کراچی کے کوڑا کرکٹ سے 250میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جانوروں کے فضلے سے بھی کئی ایک ممالک بجلی اور توانائی پیدا کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں اندا زہ لگایا ہے کہ گوبر اور فصلوں کے بھوسے سے دنیا میں استعمال شدہ توانائی کے دو فیصد کے برابر توانائی پیدا کی جاسکتی ہے ریاست ہوائی امریکہ وافر داخلی اور متبادل وسائل توانائی رکھنے کے باوجود اپنی ضروریات کا نوے فیصد در آمد کر رہی ہے جس پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ ہو رہا ہے چناچہ انرجی کمیونٹی ہوائی کی زبر دست جدو جہد سے پرائیویٹ سیکٹر گورنمٹ آرگنائزیشنز فلای اداروں یونیورسٹی اور رفاہِ عامہ کے اداروں کی اس ضمن میں بھرپور شمولیت تھی ایک منصوبہ اکیسویں صدی کے لئے تیار کیا گیا ہے تاکہ ریاست ہوائی توانائی کے معاملہ میں 2021میں مکمل طور پر خود کفیل ہوجائے اس طرح 200ارب ڈالر کی براہِ راست بچت ہوگی اس میں ہوا سمند سورج فوٹو ووائیک سیل فصلوں کے بھوسہ کچرا گوبر ہائیڈروجن وغیرہ سے توانائی پیدا کی جائے گی۔ یہ کہنا کہ پاکستان کے پاس وسائل اور جوہر قابل موجود نہیں قطعی غلط ہے المیہ یہ ہے کہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں جن کو ملک کی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں سکیموں اور پروگراموں کی تشکیل و تکمیل اور بے ہنر افراد کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے جن کے پاس میرٹ اور معیار کا بینڈیٹ ہوتا ہے اورنہ ہی دیانتداری و ذمہ داری کا پاس ہوتا ہے جو سیاہ و سفید کے مالک بن کر اداروں پر مسلط ہیں، تحقیقی و تخلیقی ادارے اور انسٹی ٹیوٹ 75برسوں سے کچھ نہیں کر پائے مگر اربوں روپے ڈکار چکے ہیں جن کا احتساب بھی نا ممکن ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes