اے کے بروھی بین الاقوامی فلاسفر، اسکالر و ماہر قانون دان

Published on October 5, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 233)      No Comments


تحریر جنید علی گوندل

کسی بھی معاشرے ، ملک یا برادری میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو قابلیت اور ذہانت میں اپنی مثال آپ قرار پاتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک نام ضلع شکار پور سے تعلق رکھنے والے اﷲ بخش بروہی المعروف اے کے بروہی کا ہے ۔ ان کی شخصیت اگرچہ سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ لیکن فی زمانہ ہر نسل کو یاد دلانے کے لئے ایسی شخصیات کا ذکر فوقتاً وقتاً انتہائی ضروری ہے تاکہ ان کے خیال میں رہے کہ ہم کس طرح اعلیٰ شخصیات کا ماضی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔
ایک بروہی قبیلہ سے تعلق رکھنے والی ہر ماں کی یہ خواہش اور دعا رہتی ہے
” اے کے مریس پدا خلق آ بریس“، یعنی جب وطن لوٹ کر آﺅ تو اے کے بروہی بن کر لوٹنا ۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اے کے بروہی کس قدر بلند شخصیت کے مالک تھے کہ ہر ماں اپنے بچے کو تعلیم دلاکر اے کے بروہی کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی ۔
اللہ بخش ولد کریم بخش سراج زئی رئیساڑی بروھی المعروف “اے کے بروہی” 24 دسمبر 1915ع کو سرد موسم میں گڑھی یاسین ضلع شکارپور میں پیدا ہوئے۔ پرائمری اسکول گڑھی یاسین سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ میٹرک بمبئی یونیورسٹی سے کیا۔ بی اے ڈگری کالج شکارپور سے حاصل کی ۔ مدرستہ الاسلام کراچی میں بھی تعلیم لی۔ ایل ایل بی فلاسافی ڈی جی کالج کراچی سے مکمل کی۔ بہاءالدین کالج جونا گڑھ میں استاد مقرر ہوئے۔ اس کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں درس تدریس سے منسلک ہوئے ۔ 1937ء سے 1939ء تک ڈی جی سندھ کالج کراچی میں فیلو تعینات رہے ۔ 1941ء میں کراچی سے وکالت کا آغاز کیا ۔ اپنی اعلیٰ ذہانت و مثالی تجربہ کی وجہ سے قانون کے میدان میں بین الاقوامی ماہر نام تسلیم کئے گئے اورآ پ کا نام سندھ میں مثال بن گیا۔
1951ء میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ بلوچستان ہائی کورٹ مقرر کئے گئے ۔اس زمانے میں بطور چیف پراسکیوٹر بھی ذمہ داریاں ادا کیں ۔ مشہور زمانہ ” پنڈی سازش کیس“ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی جانب سے مقدمہ کی پیروی کی۔ یاد رہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن پر مارشل لاءکے تحت غداری کا مقدمہ چلایا گیا تھا۔ یوں تو اے کے بروہی کے ہر مقدمہ کو عدالتی تاریخ میں قانون کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن مشتاق احمد گورمانی، آدم سمتھ اور اسماءجیلانی مقدمات نے انہیں بین الاقوامی شہرت دی۔1953ء میں محمد علی بوگرہ کابینہ میں وزیر بنے ۔ انہیں قانون ،پارلیمانی افیئرز اور اطلاعات و نشریات کے قلمدان سونپے گئے۔ مگر ضمیر کے چھاو¿ں میں زندہ رہنے والی اس ہستی نے 23ئ اکتوبر 1954ءمیں وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر بھی وزارت کے اس مختصر مدت میں دیگر کاموں کے علاوہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ” بنیادی مقاصد ” کا مسودہ پیش کیا۔ سانٹے گو چلے میں منعقدہ بین الاقوامی قانون ساز اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد کی قیادت بھی کی۔ ستمبر 1955ءمیں یونیسکو کی جانب سے بین الاقوامی تعلیمی تنظیمی اور ثقافتی تنظیم کے دسویں اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ یہ اجلاس پیرس میں منعقد ہوا۔ اس دوران کراچی یونیورسٹی میں اعزازی لیکچرار بھی تعینات رہے ۔
1960ء سے 1961ء تک انڈیا میں پاکستانی سفارت خانہ میں ہائی کمشنر کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ 1962ئمیں ہیگ اکیڈمی آف پبلک انٹرنیشنل لاءمیں یادگار لیکچر دیا۔ 1963ءسے 1964ءتک جنیوا یونیورسٹی میں “قانون اور دنیا” کے موضوع پر مسلسل لیکچرز دیتے رہے ۔فروری 1965ءمیں انٹرنیشنل کوآپریشن جنرل اسمبلی نیویارک میں بھی لیکچر دیا-
1977ءمیں قانون دانوں کی بین الاقوامی تنظیم جنیوا کے رکن بنے ۔ اسی سال ایڈوائزری کونسل امریکن بار ایسوسی ایشن کا رکن بننے کا بھی اعزاز حاصل کیا ۔ اس ایسوسی ایشن کا مقصد “ورلڈ پیس تھرو ورلڈ لاء” (دنیا کا امن دنیا کے قانون سے) تھا۔
1977ء سے 1979ء تک ضیاءحکومت میں قانون و مذہبی امور کے وزیر رہے ۔ 1979ء سے 1982ء تک ریکٹر اسلامی یونیورسٹی کے عہدے پر ذمہ داریاں نبھائیں ۔ اسی دوران نیشنل ہجرہ کمیٹی کا چیئرمین میں بھی رہے ۔ ہجرہ کمیٹی کے مساعی سے حضرت مولانا محمد عمر دین پوری کا لکھا ہوا قرآن مجید کا براہوی زبان میں ترجمہ دوسری بار شائع کیا اور مفت تقسیم کرنے کی خواہش کے پیش نظر براہوی اکیڈمی پاکستان کو دیا گیا۔ محترم اے کے بروھی پاکستان کے کل وقتی سفیر مقرر کئے گئے ۔ یعنی ملک کے اندر یا ملک کے باہر ذاتی یا سرکاری دورہ میں ان کی حیثیت سفیر پاکستان کی تھی ۔ انہیں سفیر کی حیثیت سے پروٹوکول لینے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔
محترم اے کے بروھی کی خوش قسمتی تھی کہ علامہ حضرت آئی آئی قاضی سرپرستی میں وقت گزارا۔ یہ تعلق اس حد تک پہنچا کہ حضرت قاضی صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی تو انہوں نے محترم اے کے بروھی کو منہ بولا بیٹا کہا۔ سگے باپ بیٹے کی طرح یہ تعلق زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا۔ مادر ایلسا قاضی بھی سگی ماں کی طرح اے کے بروھی پر شفیق تھیں۔
مولانا مودودی محترم اے کے بروھی کو “مولانا” کہا کرتے تھے۔ تفسیر تفہیم القرآن مکمل ہونے کے بعد لاہور میں تقریب رونمائی کی صدارت اے کے بروھی نے کی۔ اور تفسیر کی رونمائی بھی ان کے ہاتھوں ہوئی۔
وقت کا یہ نامور عالم، بین الاقوامی اسکالر 13 ستمبر 1987ء کو لندن کے ایک ہسپتال میں انجو گرافی (دل کے چیک اپ) کے لیے داخل ہوئے ، مگر چیک اپ سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ 14 ستمبر 1987ءکو آپ کا جسد خاکی وطن لاکر کراچی میںتمام تر اعزاز کے ساتھ فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔
اے کے بروہی کی کل تصانیف اور زیادہ لیکچرز انگریزی میں تھے۔ اردو میں بھی تحریر و تقریر کئے کرتے تھے ۔ سندھی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ براہوی خاندان کے فرد ہوتے ہوئے بھی براہوی زبان نہ بول سکنے کو اپنی بنیادی خامی قرار دیتے تھے ۔ آپ کے بھائی محترم علی احمد خان بروھی سندھ کے صاحب طرز ادیب و نقاد اور مایہ ناز مصنف تھے- ( محترم علی احمد خان بھی وفات پاچکے ہیں )
محترم اے کے بروھی کے عقیدت مندوں نے ”اے کے بروھی فاو¿نڈیشن کراچی“ قائم کی ۔ جو آپ کی تقاریر اور لیکچرز کو جمع کرکے کتابی صورت دینا چاہتا ہے۔ آپ کی زندگی میں آپ کی جو کتابیںشائع ہوئیں وہ یہ تھی۔
1. An Adventure in Self Expression (1954)
2. Fundamental Law of Pakistan (1956)
3. Islam in the Modern World (1969)
4. Testamental for Faith (1973)

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes