بھارت میں اقلیتیں اپنے مستقبل سے مایوس

Published on October 22, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 177)      No Comments


تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
بھارتی الیکٹرانک میڈیا یوں تو ازل ہی سے پاکستانی ثقافت و تہذیب ، اقتصادیات و معاشیات ،صحافت و ابلاغیات ، اسلامی و دینی نظریات اور حکومتی نظام پر تندو تیز تنقیدی جائزے اور تبصرے پیش کرتا چلا آرہا ہے لیکن آج کل اس بیباکی کی شدت پیدا ہو گئی ہے گذشتہ دنوں آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والا تبصرہ پاکستان میں اقلیتوں کی زبوں حالی کے بارے میں تھا تبصرہ نگار نے پاکستانی حکمرانوں کو الزام دیا کہ عیسائیوں کے ساتھ پاکستانی شہریوں اور حکمران طبقے کا معاندانہ رویہ ،ناروا سلوک اور غیر مساویانہ طرزِ عمل اس امر کا غماز ہے کہ عیسائیوں کی پاکستان میں زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں نوجوان عیسائیوں کے لئے روزگار کے مواقع انتہائی معدوم ہوچکے ہیں مشینری سکولوں کو نیشنلائزڈ کرکے ان کے معاشی حقوق چھین لئے گئے عیسائیوں کے بچوں کے لئے پاکستانی درسگاہوں میں سہولتوں کا فقدان ہیں تبصرہ نگار نے مذہبی رہنماﺅں کو اس امر کا مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ عیسائیوں کے خلاف وضع و خطاب میں انتشار پیدا کر کے ان کے تشخص کو مجروح کرنے میں مصروفِ کار ہیں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر جان بوجھ کر حملہ کرواتے ہیں جب کہ حکومتِ پاکستان عیسائیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں تبصرہ نگار نے اپنے تبصرے میں دعویٰ کیا کہ حکومتِ پنجاب نے محکمہ ہیلتھ میں ایک سرکلر کے ذریعے عیسائی نوجوان لڑکیوں پر نرسنگ پیشہ مین داخلہ پر پابندی لگا دی ہے امر واقع یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر تشد د پر پردہ ڈالنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان میں بسنے والی بھاری اکثریتی اقلیت کے جذبات کو نہ صرف پاسکتانی مسلمانوں کے خلاف اُ بھارنے کی مضموم سعی و کوشش کی ہے بلکہ عیسائی ممالک کو یہ باور کرانے کی جسارت کی ہے کہ ایک منصوبے کے تحت پاکستان میں عیسائیوں کے تشخص کو گزند پہنچائی جارہی ہے تبصرہ نگار نے اپنے موقف کوسچ ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے ایک مماز انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والے عیسائی مصنف کے مضمون کا حوالہ بھی دیا حالانکہ یہ قطعی درست نہیں کہ پاکستان میں کہیں اقلیتوں حقوق تلف کیے جاتے ہیں اور نہ ہی تصرہ نگار کی اس بات میں کوئی صداقت اور وزن پایا جاتا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ پاکستان میں ہتک آمیز طرزِ عمل ا ور آمرانہ برتاﺅ کیا جاتا ہے جہاں تک اِ کا دُکا سٹریٹ جھگڑوں کا تعلق ہے تو یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں جسے ایشو بنا کر پیش کیا جائے ایسے واقعات تو ہر نسل فرقے ، قوم اور برادری میں وقوع پذیر ہوتے ہی رہتے ہیں باقی رہا بے روزگاری کے بارے میںکہ عیسائیوںکے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کیا جاتا ہے تو یہ تبصرہ نگار کا بھونڈا اور غیر منتقی پروپیگینڈہ ہے پاکستان میں عیسائی مسلم فسادات کی کوئی مثال موجو نہیں اس بین الاقوامی اس مسئلے کو انتشار کا مضمون بنا کر تبصرہ نگار کی اصل اوقات ظاہر ہوگئی ہے تبصرہ نگار اگر اگر یبان میں جھانک کر دیکھے تو اسے اس آئینے میں اپنا مسخ شدہ بھیانک چہرہ نظر آئے گا بھارتی تبصرہ نگار کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہوگی کہ بھارت اس وقت کن اور کتنے بحرانوں کا شکار ہے اور بھارتی حکمرانوں کو ان سے نا برد آزما ہونے کے لئے کوئی صاف راہ نہیں مل رہے وہ بند گلی میں کھڑے اس کے حل کی تلاش کے لئے آتے جاتے معاشی طور پر معذور راستہ بھولے ہوئے راہیوں سے بلبلا کر پوچھتے ہیں کہ بھیا مسائل و بحران کی دلدل سے نکلنے کے لئے کیا کریں توپھر راہی کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ حکمرانوں عقل کے ناخن لیکر کشمیریوں ، سکھوں، آسام اور ناگا لینڈ کے مظلوموں کو انکے چھینے ہوئے بنیادی حقوق لو ٹا دو اور پاکستان سے فوجی تصادم کو اختراعات و تصورات کو ھمیشہ کے لئے دفن کر دو تاکہ بھارت کے ،شہری بھوک و افلاس اور بمب دھماکوں سے نجات حاصل کر سکیں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بھارت اس وقت تاریخ کے انتہائی تشویشناک اور کربناک معاشی ، اقتصادی اور سماجی حالات کا شکار ہے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں بھارت میں بسنے والی سینکڑوں اقلیتیں اپنے بنیادی حقوق کی دستیابی کے لئے مرنے اور مارنے پر اُتر آئی ہیں دہشت گردی اور تخریب کاری کا طوفان شدت اختیار کرتا جارہا ہے اس طرح بھارتی معاشیت تباہ کُن صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہے بھارت کے اپنے ہی ایک جریدے سے انڈیا ٹوڈے نے پندرہ ممالک میں مختف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات سے انڑویو کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا اُس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ متعدد ممالک میں بھارت کو ایک چھوٹا سا گینڈہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں سُرخ فیتے کی لعنت عام ہے ان ممالک میں بھارت کو تیسری دنیا کے لیڈر کی بجائے اپنے جیسا ہی غیرب ملک سمجھا جاتا ہے اور ان ملکوں میں بھارت کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہ اپنا تشخص کھو بیٹھا ہے امریکہ کے جیسا چوس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کے مطابق اس وقت بھارت کو ئی اہم ملک ہے جبکہ بھارت میں آسٹریلیا کے سابق ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ طاقت کے نئے توازن میں بھارت کا بہت مقام ہے ایک اور امریکی ماہر کے مطابق بھارت کثیر آبادی ، خشک سالی اور بیماریوں کا ملک سمجھا جاتا ہے جہاں غربت اور بد عنوانی نسبتاً زیادہ ہے ۔ عوامی چین اور بھارت کا موازنہ کرتے ہوئی جریدے نے لکھا ہے کہ چین اپنی صنعتی مصنوعات عالمی منڈیوں میں خصوصاً امریکہ میں لانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے چین نے بیرون ملک جو براہِ راست سرمایہ کاری کی ہے اس کی مالیت 82ارب ڈالر سے زیادہ ہے جریدے کے مطابق بطورِ ایک برآمدی ملک بھارت کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور دنیا میں بھارتی مصنوعات کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے فرانس کی ایک مشہور الیکڑانک فرم کے ڈپٹی ڈایکٹر کا کہنا ہے کہ بھارت کو اب تک ایشیا کی بڑی طاقت بن جانا چاہئیے تھا بگر اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تمام شعبوں پر حکومت کی کڑی گرفت ہے جریدے کے مطابق بیرون ملک یہ تاثر عام ہے کہ بھارت کا طرزِ عمل شکست خوردہ قوتوں جیسا ہے ۔ سنگا پور کے ایک اقتصادی ماہر جم میکس ویل کا کہنا ہے کہ بھارت نہ تو یورہ کا حصہ ہے اور نہ ہی اُبھرتے ہوئے ایشیا کا اور نہ ہی اس کے پاس امیریکہ جیسی قوتِ خرید ہے یہ تو بس بھرِ ہند میں کئی جگہ امیروں کے رحم و کرم پر پَل رہا ہے مصنوعات کے متعلق بون کی ایک خاتون خانہ پیٹر بیرک کا تبصرہ کافی دلچسپ ہے ان کا کہنا ہے کہ میں برازیل کے جوتے تو خرید سکتی ہوں لیکن اگر ان میں فیتے بھارت کے بنے ہوئے ڈالے گئے تو ہرگز نہ خریدوں گی پیرس کے سکول آف انویسٹر سٹیڈیز کی وائیولے گراف کا کہنا ہے کہ فرانس میں بھارت کے متعلق کسی کو کچھ بھی علم نہیں ہے برازیل میں اقتصادی ، سیاسی مطالعات کے ادارے کے ماہر لی لا مو کا کہنا ہے کہ غیر جانب دار تحریکِ ترجمان کی سیاست سے بھارت کا کردار اب ختم ہوگیا ہے دبئی کی گلف بزنس فیڈریشن صدر حشام السٹرا کے تبصرے کے خلیجی بحران کے دوران بھارت نے قیادت کے فقدان کا مظاہرہ کیا اور وہ آخر دَم تک کوئی واضح موقف اختیار نہ کرسکا اور جب اس نے کوئی موقف اختیارکیا تو گاڑی نکل چکی تھی اور بھارتی حکمران بند گلی میں کھڑے ہاتھ ملتے رہ گئے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy