پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی سیاست

Published on December 19, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 174)      No Comments

تحریر: طارق مسعود وٹو
آج کل ملک عظیم میں اپوزیشن کے اتحاد کے جلسوں کی گرم گرم خبریں روزانہ ٹی وی کے ٹاک شوز اور میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ پی ڈی ایم یہ کرے گا پی ڈی ایم وہ کرے گا اس بحث میں جانے سے پہلے زرایہ دیکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم ہے کیا اور اس اتحاد کو بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی پاکستان کے نظام حکومت چلانے والی پارٹی کو حکمران پارٹی اکر سادہ اکثریت نہ ہو تو دوسری ہم خیال جماعتوں کو شامل کر کے جو بڑی پارٹی حکومت بناتی ہے تو اس میں شامل جماعتیں حکمران اتحاد کہلاتی ہیں ۔ اس طرح جو جماعتیں حکومت کا حصہ نہیں ہوتی وہ اپوزیشن یعنی حزب مخالف کہلاتی ہیں اگر اپوزیشن کی جماعتیں مل کر اتحاد بناتی ہیں تو اپوزیشن کا اتحاد کہلاتی ہیں ماضی میں بھی اپوزیشن اتحاد بنتے آئے ہیں لیکن اس وقت صرف دو بڑی جماعتیں پاکستان کے سیاسی نظام پر جارہ داری تھی دونوں ایک دوسرے کی سخت مخالفت ہوا کرتی تھی ان میں ایک مسلم لیگ ن اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ن لیگ نواز شریف کی تھی نوازشریف کو ضیاءالحق شہید سیاست میں لے کر آئے اور امور حکومت میں شامل کیا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پارٹی تھی جس کی باگ ڈور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ہاتھ میں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو صدر ضیاءالحق کے دور میں پھانسی دی گئی تھی اس لئے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف تھیں مگر کمال تھا کہ اپنی ساری اپوزیشن کی تحریکوں اور جلسے جلوسوں میں کبھی بھی فوج مخالف تقریریں نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دفاع کے معاملات اور اپنی دفاعی ٹیکنالوجی کے معاملات کبھی بھی کسی بھی فورم پر زیر بحث رائے ہوں مگر اب جو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے نام پر بنا ہے اس اتحاد میں شامل اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی جمعیت علماءاسلام اور فاٹا سے محسن داوڑ بلو چستان سے سردار اختر مینگل ، محمود خان اچکزئی اور مسلم لیگ کی ٹکٹ پرسنیٹر بننے والے اہل حدیثوں کے قائد ساجد میر صاحب اور ان کی دوسری ہم خیال جماعتیں ہیں ان میں محمود خان چکزائی صاحب تو پاکستان کے وجود کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی پختون پٹی کو وہ افغانستان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں مگر ڈیورنڈ لائن کو بارڈلائن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ دوسری طرف محسن داوڑ صاحب کی فوج مخالف تحریک اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور دیگر ہتھکنڈے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں جہاں تک پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو وہ شروع سے میٹھا میٹھا ہضم اور کڑوہ کڑوہ تھو کے مترادف کچھ لو اور کچھ دوکی سیاست کرتے ہیں آج کل حکومت مخالف اتحاد کی آڑ میں پاک فوج مخالف بیان بازی ہدف اس لیے کہ اس بار حکومتی نظام میں ان کوایڈ جسٹ نہیں کیا گیا تو وہ حکومت اور فوج مخالف ہوگئے حالانکہ یہی صاحب مشرف دور میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو ٹھینگا دکھاکر ایل ایف اوکے معاہدہ میں اپوزیشن کی کرسی لے کر مزے کرتے رہے اور اب ان کو جمہوریت یاد آگئی لیکن جب اس سے پہلے مولانا صاحب اسلام آباد میں آکر بیٹھے تھے تواس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں نے مولانا صاحب کو ٹھینگا دیکھایا تھا بلکہ مولانا صاحب وزیراعظم کے استعفیٰ کا ادھورا خواب آنکھوں میں لپٹے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دکھ لیے دل کے ارمان آنسوﺅں میں بہہ گئے گنگناتے ہوئے گھر لوٹ آئے کیونکہ اس وقت ضمانتوں کا موسم تھا اور زرداری کی سیاست کام دکھا رہی تھی اور اس کے پیچھے کچھ معاملات چل رہے تھے۔ جو کہ وزیراعظم کے این آر اونہ دینے پر آکر رک گئے ان کے ایک غیر اہم اتحادی اور خود ساختہ اہل حدیثوں کے قائد جن کی رہی جماعت تو ہے مگر موصوف کی اپنی جماعت کی ٹکٹ پر کبھی کوئی ایک کونسلر بھی نہیں منتخب ہوا اور خود ن لیگ کی ٹکٹ پر سدا بہار سنیٹربن کر سالہاسال سے اہلحدیثوں کو ن لیگ کے گروی رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کی جماعت کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی اور بھٹو کو زندہ رکھنے کےلئے جو کچھ بھی ان کو کرنا پڑا وہ کریں گے یہاں تک کہ مولانا صاحب کو پی ڈی ایم کا قائد بھی تسلیم کرلیا کیونکہ سندھ میں زرداری صاحب کی حکومت ہے اور سندھ میں پی ٹی آئی کا کوئی خاص ووٹ بنک بھی نہیں ہے جو مستقبل میں ان کے لیے خطرہ بن سکے اس لیے وہ بھی عمران خان کے لیے کوئی خاص خطرہ نہیں ہیں اور بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں وہ کبھی بھی پارلمانی نظام کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا کیونگہ گلگت بلتستان کے الیکشن کے دوران بی بی سی کے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس کو واضح کر دیا تھا کہ وہ پارلمینٹ میں موجود ہیں اور اس کے خاتمے میں شامل نہیں ہوں گے مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف دونوں کے لیے خطرہ صرف اور صرف عمران خان میں کیونکہ عمران خان نے پچھلے انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں فضل الرحمن کی سیاست کا خاتمہ کیا اور ان انتخابات میںپنجاب اور وفاق میں ن لیگ کو آﺅٹ کیا دونوں کامقصد ایک ہے کہتے ہیں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اسی کے مصداق ان کا سیاسی دشمن ایک عمران خان ہے اور دونوں چالیس سال سے حکمران یا حکمران اتحاد کا حصہ رہے اور ان کے اپنے بنائے ہوئے نیب میں ان جماعتوں نے اپنے اپنے اداروں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے تھے جو آج ان کو مہنگے پڑ رہے ہیں اب ان کی نسل ابوبچاﺅ تحریک کی قیادت کر رہی ہے بقول فیاض الحسن چوہان کے پاکستان ڈاکو موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کی چھتری تلے اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں ہدف صرف عمران خان ہے اور بغض عمران خان یہ پاک فوج اور دفاعی اداروں کے خلاف لندن سے بیٹھ کر ویڈیو لنک پرہرزہ سرائی کرتے ہیں تو کبھی ٹاک شوز میں ان دفاعی اداروںکے خلاف زیر لب گفتگو کرتے ہیں گوجرانوالہ میں نواز شریف کا بیانیہ اور پھر کراچی میں زرداری نے نواز شریف کو تو ہرنہ کرنے دے کر اپنی وضاحت کر دی لیکن ملتان میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہیں لندن میں نواز شریف کی والدہ کی وفات کے بعد پاکستان میں ن لیگ نے اس پر سیاست شروع کردی ایسے لگ رہا تھا کہ ن لگ شدید صدمے سے دو چارہے لیکن جب ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ ابھی ہونا تھا تو اس کی نہ تو تاریخ تبدیل کی گئی اور نہ ہی اس کو کینسل کیا گیا بلکہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس میں مریم نواز شریف اپنی دادی محترمہ کی فاتحہ خوانی چھوڑ کر ملتان کے جلسہ میں شریک ہوئی حالانکہ بلاول صرف کرونا کی وجہ سے شریک نہ ہوئے لیکن میک اپ کئے ہوئے خوش لباس مریم بی بی کی جلسہ میں شرکت نے کئی سوال کھڑے کر دئیے کہ ایک صرف عمران خان کا ہدف اور اس ہدف میں کیا جانے والا جلسہ میں شرکت نہ کرتی اپنی جماعت سے کسی کو نمائندگی کےلئے بھیج سکتی تھی صرف اس لیے تو نہیں کہ وہاں پر آصف بھٹو زرداری آرہی تھی ۔ سیاست اپنی جگہ پر کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہیں اور سیاست کے اصول اور قواعد بھی ہوتے ہیں نواہزارہ نصراللہ خان بھی تو تھے جنہوں نے ساری عمر اپوزیشن اتحاد کی سر براہی کی سیاست کی یہاں تک کہ دوشدید مخالف جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو مشرف مخالف اتحاد میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیا لیکن کبھی بھی کسی ایک بھی جلسہ میں یا پروگرام میں اخلاق اور سیاست کے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ پی ڈی ایم کا اصل ہدف عمران خان بنیں وہ میری سمجھ کے مطابق ابن آرا اور سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے زبادگر محبوستی دکھا رہے تھے اور جہاں مکار سنعتوں کا مقابلہ ہے مریم بی بی اور فضل الرحمن کی شدید خواہش کے باوجود اتحاد مشترکہ طور پر پارلیمان سے استعفیٰ نہیں دیں گے اگر ن لیگ اور فضل الرحمن اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی جماعت کر کے ارکان کے استعفے جمع کروا بھی دیتے ہیں تو اصولی طور پر یہ استعفے سیکر کو جمع کرواتے ہوتے ہیں نہ کہ پارٹی بانی کے قائدین کو اس لئے اس اپشن پر شدید مشکوک و شہبات جنم لے رہے ہیں۔ کیونکہ اتحاد میں شامل پڑی جماعت پیپلز پارٹی سندھ میں حکومتی جماعت ہے اور سینٹ میں بھی اکثریتی جماعت ہے ۔ اگر وہ استعفے نہیں دیتی تو ن لیگ اور فضل الرحمن کے اراکین کی خالی ہونے والے نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانا حکومت کے لیے کو مشکل نہیں ہوگا اور پھر پی ڈی ایم اور نواز شریف بشمول مریم بی بی کی مستقبل کی سیاست کا کیا بنے گا جس کا ادراک کرتے ہوئے پیرول پر ربانی کے آخری دن ملاقات کر کے اور پھر جیل میں جانے کے بعد دوسرے دن میاں شہباز شریف نے مریم بی بی کوصاف صاف بتا دیا تھا کہ اس حد تک نہ جاﺅ کہ واپسی مشکل ہوجائے جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے خود پری جدوجہد کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے لگام بیور ورکر یسی کے ہوتے ہوئے اپوزیشن کی زیادہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ عوام کو خارجہ پالیسی یا دیگر عالمی معاملات سے زیادہ اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے اور مہنگائی کا جن بوتل کے اندر واپس جانے کا نام نہیں لے رہا جو کہ پی ڈی ایم کے جلسوں کی مقبولیت میں بھی اضافے کا سبب بن رہا ہے ، بزدار صاحب سمیت حکومتی وزیروں مشیروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے خالی بلندوبانگ دعوﺅں اور ٹی وی ٹاک شوز اور روزانہ کی پریس کانفرنس سے اس عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes