رشوت ،ادارے اور اسلام

Published on December 19, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 181)      No Comments

پرو فیسر شمشاد اختر
سرکاری ترقیاتی ادارے ہوں یا پرائیویٹ سیکٹر ہر شعبہ میں سودابازی اپنے عروج پر ہے کوئی بھی کام بغیر لین دین کے مکمل نہیں ہوتا ملک کا کوئی بھی ادارہ فرض شناسی کی بجائے رشوت ستانی اور نا جائز ذرائع سے مال اکٹھا کر نے میں مصروف ہے ۔اہم اور مقدس ادارے بھی رشوت کی ستم ظریفی سے نہیں بچ سکے کیونکہ ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کام بگاڑنے کے ماہر ہیں اور دوسروں کے مال پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں ۔لہذا ایسے بد نیت لو گ کسی حقدار کا اس کا حق ادا کر نے میں رخنہ اندوزی کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید کی تعلیمات اس کے بر عکس ہیں جیسا کے سورہ نساءمیں ارشاد باری تعالی ہے کہ : ترجمہ۔:”اے ایمان والوں ! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاﺅ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو “۔ ( النساء،۴:۹۲) اسی طرح سورہ البقرہ میں فر مایا کہ: ترجمہ :۔”اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو ( بطور رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی)ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو ( کہ یہ گناہ ہے) “۔( البقرہ ؛۸۸۱)
مذکورہ دونوں آیات میں ناجائز کمائی سے منع فر مایا جارہا ہے ۔ مفسرین کے نزدیک بھی ” اَکَلَ“سے مراد ” اَ خَذَ“ ہی ہے جیسا کہ سید آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ یہاں اَکَلَ سے مراد کھانا نہیں بلکہ تصرف میں لانا ہے ۔ اسی طرح علاّمہ رشید رضا تفسیر المینار میں اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اَکَلَ سے مراد اَخَذَ ہے ۔ بالباطل کی تشریح و تفسیر روح المعانی میںیہ کی گئی ہے کہ باطل سے مراد حرام اور ہر وہ چیز جس کے لینے کی اجازت شریعت نے نہیں دی ۔علاّ مہ قرطبی اس سلسلے میں فر ماتے ہیں کہ وہ مال حلال بھی باطل کے حکم میں آجاتا ہے جو اس کے مالک سے اس کی خوش دلی کے بغیر لیا جائے یا مالک اسے خوشی سے دے رہا ہو لیکن شریعت نے اس مد کو نا جائز قرار دیا ہے ۔تفسیر البحر المحیط میں باطل سے مراد یہ ہے کہ اموال کو ایسے طریقے سے لیا جائے جو مشروع نہیں ہے ۔چنانچہ لفظ باطل ،لوٹ کھسوٹ، جوا ،کاہن کی ،نجومیوں کی اجرت ، رشوت اور ہر وہ چیز جس کے لینے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ان سب کو شامل اور ان سب پر حاوی ہے ۔اب سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۸۸۱ میں لفظ ” تدلوا “ آیا ہے رشوت کو ” ادلا ، دلو “ سے تشبیہ دینے کی دو وجوہات امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ:” پہلی وجہ رشوت ضرورت کی رسی ہے پس جس طرح پانی کا بھرا ہوا ڈول رسی کے ذریعے دور سے قریب کھینچ لیا جاتاہے ۔اسی طرح مقصد بعید کا حصول بھی رشوت کے ذریعے قریب ہو جاتا ہے ۔“ اور دوسری وجہ جس طرح حاکم یا افسرکو رشوت دے کر بغیر کسی تاخیر کے فورََاموافق فیصلہ کرالیا جاتا ہے اسی طرح ڈول بھی جب پانی نکالنے کے لئے کنوئیں میں ڈالا جائے تو نہایت تیزی کے ساتھ بغیر کسی تاخیرکے چلا جاتا ہے ۔اور علاّ مہ ابو حیان اندلسی البحر المحیط میں ” تدلو بھا الی االحکام“ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکام کو مال کی رشوت نہ دو تاکہ وہ تمہارے موافق فیصلہ کردیں ۔
اسی وجہ حضور ﷺ نے بھی معاشرے سے تمام برائیوں کی بیخ کنی کرتے ہوئے رشوت کو ممنوع قرار دیا ہے ۔آپ ﷺ نے رشوت کو اللہ تعالی کی رحمت سے دوری اور لعنت کا سبب قرار دیا ہے ۔رشوت ایسی لعنت ہے کہ جس کا اثر کئی نسلوں تک برقرار رہتا ہے ۔رشوت کی ممانعت میں حضور ﷺ کا فرمان ہے :” رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت برستی ہے “ اسی طرح ایک اور فرمان ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالی نے رشوت کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فر مائی ہے ۔“رشوت دینے والے پر اس لیے لعنت کی وہ حق یا ناحق غرض یا مطالبے کو پورا کروانے کے لئے اپنے مال کو پیش کرتا ہے اور لینے والا اس سے بھی بڑا لعنتی کہ وہ اپنے فرض کی بجا آوری کی بجائے کچھ مال کے عوض کام کرتا ہے ۔ لہذا اس جرم کی اعانت میں دونوں اخلاقََا اور قانو نََا گناہگار ٹھہرتے ہیں ۔اور صرف یہی نہیں بلکہ شریعت میں تو راشی اور مرتشی کے درمیان سمجھوتہ کرانے والا بھی ملامت کا حقدار ہے اور یوں یہ تینوں ہی برابر کے گناہ گار ٹھہرتے ہیں ۔ کچھ سرکاری محکمے ایسے ہیں جہاں پر رشوت ستانی کی دلخراش مثالیں موجود ہیں جیسا کہ پولیس کا محکمہ اور عدلیہ کا ادارہ جس کا وجود تو معاشرے کو دہشت گردی،چوری ،بد امنی ، تنازعات ،جرائم کے خاتمے ، ظلم کے خاتمے کے لئے معرض وجود لایا گیا تاکہ زور آور طاقتور کے ظلم و جور سے کمزور افراد کو بچایا جا سکے لیکن اکثر معاملہ اس کے برعکس ہی نظر آتا ہے ۔اکثر ملازمین کی کرپشن نے معا شرے میں امن قائم کرنے کے خوف اور بد امنی میں اضافہ کر دیا ہے اور پولیس کے محکمے کی رشوت خوری نے معاشرے پر بے پناہ اثرات مرتب کیے ہیں جیسا کہ خود غرضی ، حرص ، مفاد پرستی ، اقربا پروری ، طمع و لالچ جیسی روحانی بیماریاں پورے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں ، بد امنی ، انتشار ، بد اعتمادی ، سنگ دلی ، غنڈہ گردی اور دہشت گردی جیسے گھمبیر مسائل نے معاشرے کی بنیادوں کو کھو کھلا کر دیا ہے ۔
اسی طرح دوسرا اہم ترین ادارہ ” عدلیہ“ جس میں رشوت نے حق تلفی اور ظلم و جور کو بڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اسی لئے عدلیہ کے محکمے میں رشوت کے حوالے سے امام ابو بکر جصاص رازی لکھتے ہیں کہ رشوت کی چند اقسام ان میں ایک فیصلہ کر نے میں رشوت لینا ہے اسی لئے حضور ﷺ نے فر مایا ” ہر وہ مال جو رشوت سے نشو ونما پائے وہ آگ میں جلانے جانے کا زیادہ مستحق ہے “۔ دریافت کیا گیا کہ السحت سے کیا مراد ہے ۔ آپ ﷺ نے فر مایا فیصلہ کر نے میں رشوت لینا اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ” فیصلہ کر نے میں رشوت لینا اور دینا کفر ہے اور لوگوں کا باہمی رشوت کا لین دین حرام ہے “ مختصر یہ کہ شریعت اسلامیہ میں رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں برابر کے گناہگار ہیں یہاں تک کہ وہ تیسرا فرد جو ان کے درمیان لین دین کا معاملہ طے کرے کیونکہ رشوت کے بہت سے منفی اثرات ہیں جو معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور افراد پر درج ذیل طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں کہ ، انسان کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے ، باہمی ہمدردی اور رحم دلی کاجذبہ ختم ہو جاتا ہے ،یقین اور توکل کا خاتمہ ہو جاتا ہے ،عزت نفس بر باد ہو جاتی ہے ، خدمت خلق کے جذبے کا فقدان ہو جاتا ہے ،رشوت خور انسان شیطانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے ،مال حلال میں سے برکت ختم ہو جاتی اور بالآخر رشوت خور آخرت میں نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محرو م ہو جاتا ہے ،اس عمل سے حق و باطل کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes