فیل لڑکے پوزیشن لے گئے

Published on March 29, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 564)      No Comments

sadaf nama
میرے ملک پاکستان میں کالم نگار جس موضوع پہ لکھنا چاہے ،وہ اپنے اندر ایک پورا باب ہے۔آپ کسی بھی ادارے کو اٹھا لیں،کوئی محکمہ لے لیں،اس کے کارنامے لکھتے لکھتے آدمی تھک جاتا ہے۔کرپشن جس عروج پر ہے،بیوکریسی کی من ماناں جس طریقے سے جا رہی ہیں۔جب کوئی کالم نگار،تجزیہ نگار یہ کہتا ہے،کہ ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں تو مجھے غصہ آتا ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی 18 کڑوڑ ہے اور اکثریت ااپنے اندر بے حسی کی داستان رکھتی ہے۔
پنجاب کے تعلیمی نظام میں شہباز شریف کے دعوے اس طرح ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں دودھ اور شہد کی نہریں چلنے لگ جائیں گے۔میرٹ کا اس طرح بول بالا ہو گا کہ آپ اپنے منہ میں انگیاں لئے بیٹھے ہوں گے،میں آج آپ کو پنجاب کے گورئمنٹ ڈگری کالج میں پڑھائی کا معیار بتانا چاہتا ہوں اورلڑکوں کے درمیاں جس طرح پوزیشن کی بندربانٹ ہوئی ہے۔اس کا حال قارئین کو سنا کر محظوظ کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ ہم لوگ ایسی داستانیں سن کر خوش ہوتے ہیں۔ جبکہ مقام رونے کا ہوتا ہے۔میں نے اپنے ایک کالج میں اردو کیساتھ ہونیوالی زیادتی کا قصہ بیان کیا تھا تو نئی بات کی اچھی کالم نگار پروفیسر محترمہ رفعت چودھری صاحبہ نے اعتراض کیا کہ ’’ ایسا ممکن نہیں ہے‘‘ میں نے جوابا کہا محترمہ میری آب بیتی ہے ’آپ جو سمجھیں‘
کیوں کہ ہم لوگ اپنے معاشرے کے اندر حقائق کو چھپانا چاہتے ہیں۔ حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں یا ہم کو اردگرد برائیوں کا ادراک نہیں ہے۔ویسے بھی برائی ہماری رگوں میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ ہم اسے پرکھ نہیں سکتے ۔خدا ہم کو ایسے گناہوں سے محفوظ فرما جن کو ہم گناہ نہیں سمجھتے۔ اب حالات بھی کچھ ایسے ہیں جب ہم سچ بولتے ہیں تو ہمیں جھوٹ لگتا ہے۔جب ہم جھوٹ بولیں تو پھر اس جھوٹ کو منزل مقصود تک لے جانے کیلئے بہت سے ہم پیالہ اور ہم نوالہ مل جاتے ہیں۔گورئنمٹ کالج کوٹ ادو میں لڑکوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لئے د سمبر ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ انعقاد کا اس لئے کہ رہا ہوں کی سرکاری اساتذہ کے لئے پیپر چیکینگ کسی مشکل سے کم نہیں، جبکہ گر یجویٹ کالجز میں لیکچرار کی تنخواہ 50 ہزار روپے سے زیادہ ہوتی ہے۔ 1 بجے کے بعد جو گل کھلا ئیں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔دسمبر ٹیسٹ میں 4 مضامین کا پیپر لیا گیا۔پیپروں کے بعد 3 دن کے لئے یوتھ فیسٹول ہوا جس میں طلبا کو تفریح کا موقع دیا گیا۔ اس میں پوزیشن ہولڈر لڑکوں کو انعامات سے نوازا گیا۔ان انعامات میں تولیہ،پنسل وغیرہ شامل کر کے لڑکوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ڈائری پنسل کی سمجھ تو آتی ہے۔مگر تو لیہ کی بات سمجھ سے بالا تر تھی پھر خیال آیا کہ نئے تولہ کی وجہ سے شائد نہا لیں اس لئے لالچ دے رہے ہیں۔کاش اس میں کوئی جنرل نالج کی کتاب ہوتی،کوئی اچھی زندگی گزارنے کے بارے میں کتاب ہوتی! ۔ فیسٹول کے دنوں چھٹی کی گئی کہ لڑکوں کا مقابلہ کروایا جائے کہ ناک کو زبان کون لگا سکتا ہے۔دوڑ کا مقابلہ کروا کے لڑکوں میں جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔کا ش اس میں مضمون نویسی ہوتی تو اچھا ہوتا کیوں کہ یہ چیزیں تخلیقی صلاحت بڑ ھتی ہے۔کاش ثقافت کا دن منایا جاتا۔لیکن عقل کو استعمال کرنے کی غلطی کون کرے۔آج کل ظلم تو یہ ہے کی ثقافت کے دن لڑکوں نے انگلش لباس پہنا ہو ا ہے۔مہمان خصوصی یورپین لباس میں ملبوس ہو کر ثقافت کا گلہ گھونٹیں گے کیوں کہ ہمارے ہاں انگلش لباس میں موجود شخص ہم کو اپنی ثقافت کا درس دے گا۔منہ بولی زبان کے پروگرام میں ہندی اور انگلش بولیں گے ۔بات آگے چلی گئی 4 مضامین میں سے ایک پیپر کی مارکنگ نہیں ہوئی۔لیکچرار صاحب نجی کالج میں مصروف تھے اس لئے اس فضول کام کی لئے وقت نہ نکال سکے۔لڑکے اگر شکایت کرتے تو زبان درازی کے مرتکب ہوتے،اس لئے خاموشی میں عا فیت جانی۔اگر موصوف کو کہتے تو وہ یہی کہتے ’تم کون ہو ہم سے پوچھنے والے‘۔ باقی تین کا حال سنیے۔پہلی ،دوسری،تیسری پوزیشن کا اعزاز سجانے والے تینو طلبا اسلامیات میں فیل تھے۔جو لڑکے پاس تھے وہ منہ تکتے رہ گئے۔ظلم تو یہ ہوا کہ نمبر ہی نہیں بتائے گئے۔جب اس بات کی شکایت پرنسپل سے کی تو انہوں نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا کیوں کی وہ اپنے ا نعامات لے چکے تھے۔خیر سب لڑکوں نے سقراط کی طرح زہر کا گونٹ پی لیا۔خاموشی و اداسی ان لڑکوں پہ عیاں تھی ۔احتجاج کرنے والے لڑکوں نے مجھ سے کہا مہربانی فرما کے اس پہ کا لم لکھیں۔میں بھی اس آواز کا حصہ بنتے ہوئے کالم مکمل کر رہا ہوں۔میں تو کالج میں قوم کی تربیت کس طرح ہو رہی ہے یہ دیکھنے گیا تھا مگر افسوس جذبے کے ساتھ گیا تھا مایوس ارو بوجھل دل کے ساتھ واپس آیا۔جہاں بچوں کو نفسیاتی مریض بنایا جا رہا ہو۔تعلیم کے نام پر عیاشی وقت کا ضیاع کیا جا رہا ہو۔میں کالج اس لئے گیا تھا نئے نسل کے ملک کی خاطر جذبات جاننے گیا تھا مگر وہ بے چارے اپنی الم ناک داستان لئے بیٹھے تھے۔
استا د قوم کے معمار ہو تے ہیں اگر ہماری درسگا ہوں میں ایسے عدل ہوتا رہا تو ناکامی کو کون روک سکتا ہے۔نامرادی ہمارامقدر ہو گی۔بے حسی ہماری سوچ میں ہو گئے۔نئی نسل کو اپنی غلطیوں سے سبق دینا چاہیے نہ کی ان پہ وہی سکوک رکھنا چاہیے۔حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے
’’عدل ایسی اساس ہے جس پر کائنات کا نظام قائم ہے‘‘
ہم اپنے علم کے ساتھ انصاف کرنے کو تیار نہیں غریب تو دور کی بات ہے۔
حدیث مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ صرف رحم کر نے والے اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے ‘‘ کزالعمال ح .5967
استا د کا رتبہ یہ ہے اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (علما) سے پوچھو۔نحل 43 انبیا 7,۔
طابعلم کی شان یہ ہے۔۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے
دل قفل ہیں ،جس کی چابیاں سوال کرنا(پوچھنا) ہے
درس گاہ تو ایسی جگہ ہے جہاں پہ عقل ملتا ہے،سوچ ملتی ہے۔۔نماز پڑھنے دالا شخص عالم نہیں بن سکتا۔ہم لوگ عالم صرف مولوی کو بنا دیا ہے جبکہ ہر وہ شخص جو علم رکھتا ہے عالم ہے۔ علما انبیا کے وارث ہیں۔ہم لوگ چند روپوں کی خاظر خیانت کرتے ہیں۔جس درس گاہ میں ظلم ہو بد دیانتی ہو وہاں کا طابعلم مجرم نہیں بنے گا؟؟؟ نئی سوچ امید کی کرن اور اچھے خیالات کا مجموعہ ہوتی ہے۔جب تک وہ بالغ ہوتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کو قبول کر چکے ہوتے ہیں۔ہم ااساتذہ نہیں چاہتے کہ ملک سدھرے ہم لوگ سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ہیں۔۔مگر مکان بنانے والے معمار،طابعلم کو چور بنانے والے سے نہیں پوچھتے کہ اس کے اندر بے حسی کیوں ہے۔کیا تم نے احساس کا درس دیا تھا،محبت کی فضلیت بتائی تھی۔ہم خوش فہم لوگ ہیں۔ہم سب کام سے بھاگتے ہیں،سچائی سے منہ موڑتے ہیں۔نئی نسل اساتذہ کا کیسے احترام کرے وہ جانتی ہے اس کا کردار ہم سے مختلف نہیں ہے۔ہمیں اپنے الیمے پہ غور کرنا چاہیے ورنہ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو تا۔نئی نسل کو برباد ہو نے سے بچاوٗ جس کے ہاتھوں اپنا بچہ سونپ رہے ہو صرف نام نہیں کردار بھی دیکھ لیا کرو۔صرف اچھے نمبر اپنا معیا ر نہ بناو بلکہ کردار بھی اپناو۔تا کہ بچہ محبت بھی کرے اس کو ادب کا بھی پتہ ہو،شرافت کو بھی جانتا ہوں،عزت نفس کا بھی معلوم ہو۔۔نمائشی کردار نہیں ہونے چاہیں جو اچھا لباس پہننا جانتا ہو مگر اچھی زبان نہیں،اچھا نام ہو تو کردار بھی قابل ستائش ہو
آخر میں اپنا شعر قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا
یہ کیسی ہے تعلیم ِ نو میرے ہمدم
نہ تعمیر کردار و آداب و الفت

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes