پاکستانی لیبارٹریز: حفاظتی مسائل اور بنیادی اصول برائے حفاظت

Published on January 30, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 292)      No Comments

ماروی لیاقت علی قنبرانی(اُنر پُور)۔
قابلِ علاج مریضوں کی دیکھ بھال، معلجین سمیت لیبارٹری میں کام کرنے والے عملہ کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ کسی بیمار انسان کے خون کے نمونے میں موجود خوردبینی جراثیم (مسئلاً بیکٹیریا او ر وائرس وغیرہ) مختلف راستوں خصوصاً ایروسولز(پانی یا کسی ٹھوس مادے کے فضا میں معلق زرّات) کے ذریعے پھیل کر دوسرے صحت مند انسان کو بیمار کر سکتے ہیں۔ لہٰذا طبی تشخیصی لیبارٹریوں میں کام کرنے والے افراد کی صحت اور حفاظت کو بہت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طبی تشخیصی لیبارٹریوں میں لاپرواہی، خون کے نمونے سنبھالنے کے ناقص طریقے، انجیکشن کا ڈنک یا زہریلے ایروسول کی نمائش لیبارٹری سے پھیلنے والی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ مخلتف سائنسی تحقیقات سے انکشاف ہو ہے کہ جب تک ذاتی حفاظتی سامان (مسئلاً ایپرن، دستانے، ماسک اور عینک وغیرہ) اور تجویز کردہ حفاظتی احتیاطی تدابیر (مسئلاً ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا، خون کے نمونوں اور آلات کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا وغیرہ) کے معیاری اقدامات پر عمل نہ کیا جائے تب تک لیبارٹری میں استعمال ہونے والے متعدد آلات، کام کا طریقہ کار اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والا عملہ ایرو سول اور دیگر زہریلے مواد سے پھیلنے والی بیماریوں کے ذرائع تصور کیے جاتے ہیں۔ طبی تشخیصی لیبارٹریوں کے عملہ میں صحت مند ماحول اور محفوظ لیبارٹری کے طریقوں، اقدامات اور جرثیم سے آلودہ آلات اور سہولیات کے مناسب استعمال کو بائیوسیفٹی کہا جاتا ہے۔ بہت سے ترقی پزیر ممالک کی طرح، پاکستان میں بھی بائیو سیفٹی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے پوری توجہ کی ضرورت ہے۔ عالمی ادراہ برائے صحت (پوری دنیا میں صحت کو فروغ دینے والا ادارہ)کی طرف سے طبی تشخیصی لیبارٹریوں کے لیے جو سفارشات، تجاویزاور احتیاطی تدابیر بیان کی گئی ہیں انُ میں سے چند یہ ہیں: (۱) خون کے نمونے یا کسی کیمیکل کو(اشیا/ کو ناپنے یا منتقل کرنے والے آلہ کے زریعے) منہ سے کھینچ کر نہ نکالیں۔ (۲) کسی بھی قسم کے مواد(سوُئی، سرنج کا ڈھکن وغیرہ) کو منہ میں نہ رکھیں۔ (۳) لیبارٹری میں کھانے پینے سے پرہیز کریں۔ (۴) تمام تکنیکی طریقہ کا ر کو اس انداز سے کیا جائے کہ ایروسول کم سے کم پیدا ہو۔ (۵) استعمال شدہ مواد (مسئلاً سرنج یا بوتلیں وغیرہ) کو تلف کرنے سے پہلے غیر آلودہ کیا جائے۔ ْلیبارٹری میں کام کرنے والے افراد کا طرزِ عمل بیماری کے روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔لہٰذا لیبارٹریوں میں کام کرنے والا عملہ تجویز کردہ حفاظتی احتیاطی تدابیر سے جتنا زیادہ واقف ہوگا لیبارٹری سے لگنے والی بیماریوں کا خطرہ اتنا ہی کم ہوگا۔ِ پاکستانی لیبارٹریوں میں کام کرنے والے عملہ کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بھی یہی زمہ داری ہے کہ وہ عالمی ادارہ برائے صحت کے تجویز کردہ سفارشات پر عمل پیرہ ہوں، تاکہ بڑھتی ہوئی بیماریوں کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔
ماروی لیاقت علی قنبرانی(اُنر پُور)

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog