دنیا کی نظریں ساحلی شہر گوادر پر مگر زمینی حقائق کچھ اور ۔

Published on April 6, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 511)      No Comments

Qadir
انیس صد اٹھاون تک گوادر خلیجی ممالک عمان کا حصہ رہا 1978میں گوادر کو ضلع کا درجہ دیا گیاسابق صدر جنرل مشرف کے دور حکومت میں بلدیاتی نظام کو تبدیل کر کے نئے بلدیاتی نظام متعارف کروائے 2001میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی الیکشن ہوئے بلدیاتی انتخابات میں یو سی ناظم ، تحصیل ناظم، ڈسٹرکٹ ناظم ، مقر ر کئے گئے با خبر ززائع کے مطابق ناظمین نے پورے پاکستان میں اتنے کرپشن کئے جو پینسٹھ سالوں میں دیکھنے کو نہیں آئے اسی طرح ناظمین کے دو ٹرم میں گوادر تحصیل میں نیشنل پارٹی کے منتخب کردہ ناظم رہے گوادرمیں دو بڑے رہا شی اور کمرشل ہاؤسنگ اسکیم نیوٹاون اور سنگار کے نام سے گوادر کے شہریوں کے لیے حکومت نے متراف کروائے منتخب ناظمین نے اپنے دور ے اقتدار میں دونوں ہاوسنگ اسکیموں کے پلاٹوں کو بطور ر سیاسی ر شوت اور تحفے طورپر اپنے دوست احباب اور پارٹی لیڈر میں مال غنیمت سمجھ کر تقسیم کئے دوسری جانب ضلع گوادر کا شمار پاکستان کے مہنگے شہروں میں ہوتا ہے گوادر کو ترقی یا فتہ بنانے کے حکومتی اعلانات کے بعد زمینوں کی قمیتوں میں چار پاند لگ گئے اور پہلے سے زیادہ گوادر کے شہریوں کی پہنچ سے ہاؤسنگ اسکیم دور ہوگئے گوادر کے 90فیصد لوگوں کا زریعہ معاش ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہے حکومت کو ماہی گیریکے شعبے سے سالانہ کروڑوں روپے زرمبادلہ کی صورت میں ملتا ہے ۔۔ حکومت بلوچستان اور ریونیو ڈیپارمنٹ گوادر کے پاس اس وقت گوادر میں پانچ ہزار ایکڑ زاراضی موجود ہیں گوادر میں تعینات نوجوان افسر سابق ڈپٹی کمشنر گوادر ڈاکٹر طفیل بلوچ نے مختلف اداروں کو گوادر کی سرکار ی زمین الاٹ کی مگر گوادر کے غریب عوام، دکاندار ،اور لوئر کلاس ملازم طبقہ ہر بار کی طرح اس بار بھی سرکاری زمین سے محروم رہا مہنگائی کے دور میں گوادر جیسے مہنگے شہر میں گوادر کے مقامی باشندے کہاں ان مہنگے دام زمین کو خرید سکے گے اور سونے پے سہاگہ یہ ہے کہ ضلعی انتظامہ نے گوادر کے باسییوں کے لیے قبر ستان کے لیے کوئی زمین مختص نہیں کی حال ہی میں حکومت بلوچستان کی ہدایت پرسابق ڈی ،سی گوادر نے سرکاری ملازموں کے ایک ہاوسنگ اسیکم کا اجرا کیا لیکن اُس ہاؤسنگ اسکیم میں گوادر سے تعلق رکنے والے غریب اور لوئر کلاس ملازموں کو جبری طور پر محروم رکھا گیاہاؤسنگ اسکیم میں غیر مقامی ملازموں کو نوازا جا رہا ہے ۔اس حقائق کے بعد دوسرے بڑے مسلئے کی کچھ بات کرتے ہے ساحلی شہر گوادر میں سمندر کا سینہ چیر کر روزی روٹی تلاش کرنے والے ماہی گیروں کا سب سے بڑا مسئلہ سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کاہیں صوبہ سندھ سے بڑی لانچیں غیر قانونی ٹرالنگ کرنے کے لیے گوادر کے سمندر پہنچ جاتے ہے ٹرالنگ سے سمندری حیات کی نسل کشی ہوری ہیں جس سے مقامی ماہی گیر بڑے پیمانے پر متاثر ہے شعبہ ماہی گیری سے منسلک دوسر اور اہم مسئلہ حکومت نے گوادر پورٹ کے معائدے میں گوادر فش لیڈنگ ہاربر کو بھی شامل کیا ہے جس کے بعد فش لیڈنگ ہاربر سے مقامی ماہی گیروں کے لانچوں کو فش ہاربر پر فش لینڈنگ کی اجازت نہیں ہوگی حکومت گوادر کو ترقی یافتہ بنانے سے پہلے گوادر کے قدیمی باسیوں کے روزگار کو محفوظ بنائے گوادر کے مغربی ساحل پر ماہی گیروں کے لیے فش لینڈنگ ہاربر کا انتظام کرے تاکہ نسلوں سے سمندر میں رزق تلاش کرنے والے ماہی گیروں کا مستقبل ترقی یافتہ گوادر میں بھی محفوظ رہے سکے گوادر کے مقامی باسیوں کے لیے سرکاری زمین پر ہاوسنگ اسکیم کا اجرا کرکے گوادر کے قدیمی لوگوں کو بھی تیز رفتار ترقی میں شامل کیا جائے ۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Themes