پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم ،امریکی تنظیم جائزہ رپورٹ

Published on April 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 627)      No Comments

Arif-Nonari
پاکستان میں امن و یکجہتی کی تحریک ایم ایس پی نے تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس عمل میں ہر سال 700 عیسائی اور 300 ہندو لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ان کی عمریں 12 سے 25 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کو اس جال میں پھنسانے کے لئے ایک جیسا ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ پہلے لڑکی کو اغوا کر کے جنسی جبر و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جب اس کے ورثاء پولیس میں اغوا کی رپورٹ درج کرواتے ہیں تو اغوا کرنے والے مجرم جوابی مقدمہ دائر کر دیتے ہیں کہ لڑکی اپنی مرضی سے مسلمان ہو کر ایک مسلمان مرد کے عقد میں آ گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انتہا پسند مذہبی تنظیمیں اس قسم کے لوگوں کی مدد اور تعاون کے لئے پورے جوش و خروش سے میدان عمل میں اتر آتی ہیں۔ایک امریکی تنظیم نے ایک جائزہ میں متبنہ کیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتی لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں زبردستی مسلمان ہونے اور مسلمان مردوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس جائزہ کے مطابق ہر سال تقریباً ایک ہزار ہندو اور عیسائی لڑکیوں کو اس طریقے سے مسلمان کیا جاتا ہے ۔ ملک کا عدالتی نظام مظلومین کا تحفظ اور مدد کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔
پولیس عام طور سے اقلیتی گروہوں کی طرف سے داد رسی کی درخواستوں پر عمل کرنے سے ہچکچاتی ہے ۔ اسی طرح عدالتیں بھی ایسے معاملات میں کوئی دوٹوک مؤقف اختیار کرنے اور متاثرین کی مدد کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ متعلقہ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کی اصل نوعیت زیادہ سنگین ہے اور رپورٹ شدہ واقعات سے کہیں زیادہ غیر مسلم لڑکیاں اس جبر کا شکار ہو رہی ہیں۔ لیکن اس تنظیم نے رپورٹ شدہ واقعات کی بنیاد پر متاثرہ لڑکیوں کی تعداد بتانے کی کوشش کی ہے ۔
اس قسم کے واقعات کا سامنا عام طور سے سندھ میں آباد ہندو آبادی اور پنجاب میں آباد عیسائی آبادی کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہ دونوں مذہبی اقلیتیں غریبوں پر مشتمل ہیں اور سماجی لحاظ سے انہیں خاص اہمیت اور وقار حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے جب ان اقلیتوں کی لڑکیوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ملک کا عدالتی اور انتظامی قانونی نظام ان کی مدد سے قاصر رہتا ہے ۔ اغوا کرنے والے اکثر لوگ بااثر اور دولتمند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی انتہا پسند گروہ بھی ایسے معاملات میں فوری طور پر ملزم کا ساتھ دینے کے لئے متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ خاندان یا لڑکی کو کسی قسم کی امداد یا انصاف ملنے کی امید نہیں رہتی۔
عام طور سے اغوا شدہ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس میں وہ لڑکی یہ بیان دینے پر مجبور کی جاتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے کسی شخص سے شادی کی ہے ۔ عام طور سے اس قسم کے اقبالی بیان کا پس منظر لڑکی کو جان سے مار دینے کی دھمکی ہوتی ہے یا اس سے کہا جاتا ہے کہ اگر اس نے یہ بیان دینے سے انکار کیا تو اس کے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔ عام طور سے شدت پسند مذہبی گروہ اس قسم کے اکثر معاملات میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں۔
اس قسم کے کئی واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں کوئی بااثر یا طاقتور مسلمان کسی غریب اور کمسن عیسائی یا ہندو لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے ۔ اور اس کے بعد زبردستی تبدیلء مذہب اور نکاح نامہ پر اس کا انگوٹھا لگوا لیا جاتا ہے ۔ اہل خاندان کے شور مچانے کے باوجود اس قسم کی مظلوم لڑکیوں کو کبھی انصاف نہیں مل پاتا۔ایم ایس پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قسم کے واقعات سے ملک کی مذہبی اقلیتیں زبردست عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان اقلیتوں کو ملک کے لیگل ، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے سے انصاف ملنے کی امید نہیں رہی۔ مذہبی گروہوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے ۔ یہ گروہ جرم سرزد ہونے کے باوجود مظلوم اقلیتی گروہ کے خلاف ہی برسر پیکار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی اور سماجی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے سیاستدانوں کو مذہبی اقلیتوں کے احساس عدم تحفظ کے بارے میں غور کرتے ہوئے ملک میں مذہبی طاقتور گروہوں کے ناجائز اقدامات کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ صرف اسی صورت میں پولیس اور نچلی سطح کی عدالتیں اقلیتی لڑکیوں کی داد رسی میں اپنا رول ادا کر سکیں گی۔
امریکہ سے سامنے آنے والی اس رپورٹ سے قطع نظر اقلیتی مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے ۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں اس صورتحال کی تبدیلی کے لئے کوشاں رہی ہیں۔ دو برس قبل سندھ سے ہندو?ں کی ایک بڑی تعداد نے بھارت کی طرف نقل مکانی شروع کر دی تھی۔ یہ صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی تھی کہ اس وقت ملک کے صدر آصف علی زرداری کو اس بارے میں مداخلت کرتے ہوئے ہندو اقلیت کو یقین دہانی کروانا پڑی تھی۔ اس کے باوجود صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔
پاکستان میں مسلمان بڑی اکثریت میں آباد ہیں لیکن انہیں کسی مذہبی روایت یا قومی و بین الاقوامی قانونی طریقہ کار کے مطابق اقلیتوں کے خلاف اس مجرمانہ طرز عمل کو روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست اس معاملہ میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ لیکن اس یقین دہانی کے باوجود پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔اس معاملہ کے دو اہم ترین پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض مذہبی گروہ دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو تبدیلء مذہب پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عقیدے کا تسلط نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض مجرمانہ ذہن کے لوگ اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہب اور مذہبی تنظیموں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ سماج دشمن عناصر پہلے کمسن بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کے بعد اسلام کا نام لے کر اپنے جرم کو ایک نیکی بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دونوں رویے قابل نفرت ہیں اور ہر طرح سے ان کی مذمت ہونی چاہئے ۔مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان کے مسلمانوں اور ان کی مذہبی تنظیموں کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ مسلمان بھی دنیا کے متعدد ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے طور پر مقیم ہیں اور وہاں پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک میں مذہبی اقلیتوں کو اس قسم کے مجرمانہ ظلم کا نشانہ بنایا جائے گا تو مسلمان بطور اقلیت کیوں کر اپنے حقوق کی بات کر سکیں گے ۔ یہ رویہ بقائے باہمی کے بنیادی اصول کے بھی خلاف ہے ۔
تاہم اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ ملک میں آباد تمام لوگوں کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی حکومت کے لئے امریکی تنظیم کی طرف سے پیش کئے گئے اعداد و شمار شرمندگی کا باعث ہونے چاہئیں۔ اس لئے پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لئے فوری مؤثر اقدامات کرے ۔ حکومت میں صرف اقلیتی امور کا وزیر مقرر کر دینے سے یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت سخت قوانیں تیار کرے اور طاقتور مذہبی گروہوں کے اس سماج دشمن رویہ کی حوصلہ شکنی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog