زندگی کی حقیقت

Published on August 7, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 134)      No Comments

تحریر: صفدر علی خاں
انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اور زندگی کا موت سے تعلق کیا ہے؟ ان سوالات کی کھوج میں ہی زندگی کا اختتام ہوجاتا ہے مگر انسان کی اپنی ذات کے تلازمے سے سچ اور  خدا کو تلاش کرنے کی جستجو ختم نہیں ہوتی۔دنیا میں جو آیا ہے اسے موت بھی آنی ہے اور موت کا کسی کو یقین پھر بھی نہیں کیونکہ اگر موت کی اٹل حقیقت پر انسان سو فیصد یقین کرلے تو پھر کوئی گناہ ہی نہ کرے۔انسانیت کی بقا کے نعرے لگا کر مہلک ترین ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال حرام قرار پاجائے۔کوئی بھی کسی کا حق نہ مارے۔کسی کو کسی پر غلبہ پا  لینے کی تڑپ یا قتل وغارت پر آمادہ نہ کرے۔انسانیت کی  بقا کے حقیقی علمبردار دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا چلن اختیار کرتے ہوئے انسانی اقدار کا تہہ دل سے احترام کرنے لگیں۔ یوں دنیا میں امن محبت رواداری کے اصول اپناتے ہوئے انسان کسی دوسرے انسان کے لئے ضرر رساں ہی نہ رہے تو پھر یہ دنیا واقعی حقیقی معنوں میں جنت ارضی کا سماں باندھ رہی ہو لیکن ایسا کبھی ممکن نہیں کیونکہ موت کی دہلیز پر پڑے  باشعور،عقل و دانش اور فہم فراست کے بظاہر پیکر انسان کو بھی موت کا اتنا یقین نہیں جتنا خدا کے سچے،کھرے اورپیارے مطمئین بندوں نے کیا اور پھر انکی حیات دوسرے انسانوں کے لئے بھی مشعل راہ بنی۔ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوئے اور صدیاں انکے صائب کردار کی معترف رہیں آج مگر اس عہد اذیت میں انسانیت کے پیکر انسان تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔اچھے لوگ ضرور ہیں مگر بکھرے ہوئے اور بے اختیار ہیں۔اقدار بدل گئیں۔وسائل رکھنے والے دنیا میں معتبر بن گئے۔جن کے ہاتھوں کسی بھی حقیقی  معنوں میں معتبر انسان کی عزت محفوظ نہیں۔ دنیا میں دو طرح کے انسان ہی پائے جاتے ہیں اچھے یا برے!اچھائی سے مراد انسان کی سلامتی چاہنے کی خواہش بھی ہے اور برائی سے مراد دنیا پر غلبہ پانے کے لئے شر پھیلانے کی تڑپ بھی ہے،جوآج کے  ترقی یافتہ انسان کو چین سے کہیں بیٹھنے نہیں دیتی۔انسان کے اندر کی خواہشوں نے ہی اسے  ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار کر رکھا ہے۔کسی بھی شعبے میں کسی بھی کام میں انسان ایک دوسرے کو ”اوور ٹیک ”کرتا نظر آتا ہے۔ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ انسان کو موت کی آغوش تک لے جاتی ہے۔نفرت بانٹنے والوں کو تو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ یہ مختصر سی زندگی محبت کے لئے بھی ناکافی ہے پھر بھی نفرت کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ایسی ہی کسی دوڑ کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔
ایسے لگتا ہے مجھے اس زندگی کی دوڑ میں
ہاتھ کچھ آئے نہ آئے دوڑتے رہ جائیں گے
شاعر کو بھی شائد موت پر یقین نہیں۔وہ کچھ ہاتھ لگنے کی خواہش میں عمر بھر دوڑنے کی بات کرتا ہے۔
حقیقت میں زندگی کے سفر میں منزل کا نام ہی تو موت ہے یہی سبب ہے کہ اب جدید شاعر موت کو اپنی زندگی کی تھکاوٹ سے نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
اب پہلے شاعر کی سوچ دوسرے کی ”ڈاکٹرائن ”سے یکسر مختلف ہے۔موت کے یقین پر ہی نیکی کرنے والوں کی خواہش کا اظہار ملتا ہے۔اچھے لوگوں کی سوچ ہی برائی کو روکتی ہے
۔دوسرے پر برتری کے لئے اپنے ہی کئی ہم زاد انسانوں کے لئے گڑھے کھود کر اپنی جیت کا اعلان کرتا ہے دنیا کے ہر ملک ہرقوم اور ہر  قبیلے میں یہی ہورہا ہے۔دنیاداری کو نظریہ ضرورت کے طور پر اپنانے والے  اب ضمیر کی بیداری سے انقلاب برپا کرنے کی باتیں بھی  کررہے ہیں۔وہ لوگ جو خود قابل اصلاح ہیں پورے سماج کی اصلاح کے  ”ٹھیکدار”بنے بیٹھے ہیں۔اپنے کردار کو کسی طور صائب نہ بنا سکنے پر دوسروں کی خامیاں تلاش کرکے انہیں ٹھیک کرنے کے لئے سرگرم کردار نبھاتے ہیں ان بے کردار لوگوں کا یہی چلن ہی انکی منافقت کا اظہار ہے مگر انہیں اس بات کا شعور کہاں؟.دنیا میں اچھائی کے  غلبے کی خواہش رکھنے والوں کو موت پر یقین ہے تبھی تو وہ حقیقی زندگی کا شعور رکھتے ہیں۔ جب تک ہر فرد دنیا میں اپنے وجود اور موت کی اٹل حقیقت کا کھوج نہیں لگالیتا زندگی کے حقیقی مقصد سے دور ہی رہے گا۔انسان کو اپنی ذات کا ہی پتہ  نہیں چل سکے گا۔دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے مگر اسکے لئے بہت بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔موت پر حقیقی یقین رکھنے والوں کی زندگی مثالی ہوتی ہے انکے چلن سے انسانیت کی بقا اور سلامتی کے راستے نکلتے ہیں ایسے انسان ہر عہد میں دنیا داروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے انکی موت کے لئے اشرافیہ سازشوں کے جال بچھاتی ہے۔موت پر یقین نہ رکھنے والے سازشیں ضرور رچاتے ہیں مگر موت سے فرار کے تمام راستے ان پر بھی  مسدود ہو جایا کرتے ہیں۔سچے اور کھرے لوگ سیدھی سادھی سچی بات کرتے ہوئے عملی طور پر انسان دوستی کا پیکر بن کر ذہنوں پر نقش رہتے ہیں۔صدیاں انکی تعظیم کرتی ہیں اور یہ لوگ صدیوں پر بھاری رہتے ہیں۔صدیوں پر چھائے رہنے والوں کے کردار بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔دنیا داری کے دلدادہ اقتدار پرست اور شہرت کے متمنی جعلی دانشور موت کی حقیقت سے دور ہوکر خود ہی اپنا کردار اپنی زندگی میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ایسے لوگوں کی زندگی دوسروں کے لئے کبھی بھی مفید نہیں ہوتی انکے کردار سے وحشت پھوٹتی ہے۔ایسے برے لوگوں کو ملنے والی وقتی کامیابیوں سے اچھائی نہیں مرتی۔اچھے لوگوں کے کردار پر الزام تراشیوں سے حقائق کبھی مسخ نہیں کئے جاسکتے۔موت پر یقین رکھنے پر ہی زندگی کی سچائی طشت ازبام ہوگی۔اچھے برے لوگوں کے درمیان فرق واضح طور پر سامنے آتا رہے گا تب انسان کو زندگی کے حقیقی معنی ومفہوم سمجھ آسکیں گے تو پھر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں بھی کوئی مشکل نہیں رہے گی

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes