برآمدات اور ترسیلات زر کو بڑھا کر مہنگائی اور قرضوں سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے گا فرخ حبیب

Published on October 5, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 157)      No Comments

سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع ٹیکسٹائل پالیسی دی جس میں صنعتی عمل کو تیز کرنے کیلئے گیس اور بجلی کے نرخوں کا تعین کیا
فیصل آباد (یو این پی)حکومت پائیدار معاشی ماڈل پر عمل کر رہی ہے تاکہ برآمدات اور ترسیلات زر کو بڑھا کے مہنگائی اور قرضوں سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ یہ بات اطلاعا ت و نشریات کے وزیر مملکت میاں فرخ حبیب نے آل پاکستان بیڈ شیٹس اینڈ اپ ہولسٹری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس عام اور ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ صرف تین چار سال قبل ٹیکسٹائل کا شعبہ بد ترین بحران کا شکار تھا اور پاور لومز کباڑ کے بھاﺅ بک رہی تھیں تاہم اپوزیشن میں ہونے کے باوجود عمران خان نے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جامع ٹیکسٹائل پالیسی دی جس میں صنعتی عمل کو تیز کرنے کیلئے گیس اور بجلی کے نرخوں کا تعین کیا گیا۔ انہوںنے 18ویں آئینی ترمیم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے ذریعے مختلف صوبوں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے نئے مسائل پیدا کئے گئے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بر سر اقتدار آنے کے بعد گیس 6.5ڈالر ایم ایم بی ٹی یو اور بجلی 7سینٹ پر دینے کا اعلان کیا جس سے صنعتوں کی مسابقتی قوت میں اضافہ ہوا اور مالی مسائل کا شکار یہ شعبہ دوبارہ ترقی کی راہ پر چڑھ گیا۔ صنعتوں میں بڑے یونٹوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرخ حبیب نے کہا کہ آج کے بڑے صنعتی یونٹوںنے بھی اپنے سفر کا آغاز چھوٹے یونٹوں سے کیاتھا۔ اس لئے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایس ایم ای سیکٹر کے مسائل حل کر کے برآمدات میں فوری طور پر 4ارب ڈالر کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کرونا کا ذکر کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں کاروبار بند ہو گئے تھے مگر وزیر اعظم عمران خان کی دو رس سوچ کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی عمل جاری رہا اور ہمارے برآمد کنندگان نے خوب ترقی کی ۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا کی وجہ سے بھارت کی شرح نمو منفی سات فیصد اور برطانیہ کی بھی منفی رہی جبکہ بنگلہ دیش کی معیشت بھی جمود کا شکار رہی ۔ انہوںنے کہا کہ ان مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی شرح نمو ڈیڑھ سے دو فیصد تک متوقع تھی مگر حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ ساڑھے چار فیصد سے اوپر آچکی ہے او رتوقع ہے کہ پائیدار معاشی ماڈل پر عمل سے یہ بہت جلد پانچ فیصد کو بھی کراس کر جائے گی۔ ڈالر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس میں اتار چڑھاﺅ کا سلسلہ پہلے بھی جاری تھا لیکن برآمدات میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ گڈز اور سروسز کی برآمدات 31ارب ڈالر پر رہیں جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں نے 2020ءکے دوران ساڑھے 29ارب ڈالر وطن عزیز بھیجے۔ انہوںنے کہا کہ اسی طرح نان Debt سرمایے کی آمد 60ارب ڈالر سے زائد ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاﺅنٹس میں بھی ڈھائی سو ارب ڈالر آچکے ہیں جبکہ روزانہ تقریباً ایک ہزار نئے اکاﺅنٹس کھل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات جلد 39ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گی جبکہ ترسیلات زر بھی 31سے 32ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ اس طرح نان Debt سرمایے کی آمد 70سے 75ارب ڈالر تک متوقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈالر پر دباﺅ کو کم کرنے کیلئے غیر ضروری درآمد پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایس ایم ای سیکٹر کے مسائل کو حل کرانے کیلئے اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ اس سلسلہ میں اُن کی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے بھی ملاقات کرائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان برآمدات کو بڑھانے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور ہر ہفتہ وہ مختلف سیکٹرز کے نمائندوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم حال میں ہی وسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان اور ازبکستان کے دورے پر گئے تو مقامی صنعتکاروں کو بھی ساتھ لے کر گئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے خراب معاشی صورتحال پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائے ۔ قرضوں کی وصولی کو موخر کیا گیا جبکہ اصل زر پر سود سمیت دیگر مراعات پر متعلقہ سیکٹرز کو 651ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ۔ مالیاتی پالیسی کے تحت شرح سود 7فیصد کرنے سے بھی برآمد کنندگان کو ساڑھے چار سو ارب کا فائدہ ہوا ۔ اس طرح انہیں لون ری شیڈول ہونے سے بھی 244ارب روپے کا فائدہ دیا گیا۔ انہوںنے بتایا کہ سٹیٹ بینک نے لوگوں کے روزگار کو بچانے کیلئے بھی عملی اقدامات اٹھائے اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے کم شرح منافع پر 238ارب روپے جاری کئے گئے۔ اسی طرح تاجروں کو بجلی کے بلوں میں 50ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا کہ ایس ایم ای سیکٹر کی 10ملین روپے کی سرمایہ کاری کی حد کو 20ملین تک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بینکوں کے کمرشل فنانس کے حوالے سے بتایا کہ اس کا صرف ساڑھے چھ فیصد ایس ایم ای کو ملا۔ انہوں نے بتایا کہ 2021کے دوران ایس ایم ای سیکٹر کو ساڑھے چار سو ارب روپے کی فنانسنگ کی گئی۔ کمرشل بینکوں نے کنزیومر فنانس کے تحت بھی 400ارب روپے جاری کئے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری سرگرمیاں صنعتوںکے ذریعے سے بڑھتی ہیں۔ یہ تیز ہوگی تو اس کے کثیر الجہتی اثرات پوری معیشت پر مرتب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 10ملین تک کے قرضے ایک فیصد کی شرح سود پر جاری کئے گئے۔ اگر ان کی بروقت ادائیگی نہ ہو تو 40فیصد میں سے 60فیصد فنانسنگ کی گرانٹی حکومت پاکستان دے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ فنانسنگ کولیٹرل فری ہو گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر TURFکے تحت 432ارب روپے جاری کئے گئے۔ سٹیٹ بینک یہ فنانسنگ بھی ایک فیصد پر کرے گا جبکہ بینکوں کیلئے زیادہ سے زیادہ حد 4فیصد مقرر کی گئی ہے۔ اس طرح مختلف بینکوں نے 2سے 4فیصد پر بھی قرضے جاری کئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان قرضوں کا فائدہ اٹھانے والوں میں40فیصد کا تعلق ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہے۔ جبکہ 20فیصد نے گرین منصوبوں کیلئے یہ سرمایہ حاصل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ TURFاچھی سکیم تھی مگر اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں فیصل آباد کے بہت کم لوگ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایم ای سیکٹر نے تیزی سے ترقی کی جس کی وجہ سے برآمدات بڑھنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے اور کئی اداروں کو ہنر مند افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ایک کاروباری خاتون کی طرف سے پیش کی جانے والی اس تجویز کو بھی سراہا کہ سیل ٹیکس انوائس کو بزنس Instrument کے طور پر استعمال کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی کا براہ راست کاروباری اخلاقیات سے تعلق ہے۔ تاہم اس سے سیل ٹیکس کی ادائیگی کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ جسے تنظیمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس سلسلہ میں قانون بنانے کی بھی کوشش کرے گی ۔ انہوں نے چین کی طرف سے 70کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں بھی غربت کے خاتمہ کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ انہوںنے بتایا کہ اس مقصد کیلئے 22ارب روپے سے کامیاب جوان پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں کولیٹرل کے بغیر 1ملین تک کے قرضے دیئے جا رہے ہیں۔ ایس ایم ای سیکٹر کو ڈھائی کروڑ تک کے قرضے 5-3فیصد کی شرح سود پر دیئے جا رہے ہیں۔ اب اس حد کو بڑھا کے 5کروڑ تک کیا گیا ہے جبکہ اس سکیم کے تحت 100ارب روپے تک کی فنانسنگ ہو سکتی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے اسحاق ڈار کے دور میں 3840ارب روپے ٹیکس جمع کیا جس میں ایڈوانس ٹیکس اور برآمد کنندگان کے ری فنڈ کی رقم بھی شامل تھی جبکہ ہم نے 4732ارب روپے جمع کئے اور صرف ایک سال میں ڈھائی سو ارب کے ری فنڈ بھی جاری کئے۔ انہوں نے بتایا کہ آج داخل ہونے والے DTLLکی اگلے دن واپسی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے خاص طور پر ایس ایم ای سیکٹر کو کیش فلو کا مسئلہ پیش نہیں آتا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو خام مال کی فراہمی کیلئے کپاس کی کم از کم امدادی قیمت مقرر کر دی گئی ہے اس دفعہ کپاس کی شاندار فصل ہوئی جبکہ فوڈ سیکورٹی پر بھی کام ہو رہا ہے جس کے تحت مختلف اجناس کی پیداوار کو بڑھایا جائے گا۔ انہوںنے بتایا کہ 22ہزار ایکڑ کے رقبے میں سے صرف 5ہزار ایکڑ پر کاشت ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر سرمایہ کاری لاک رکھی تھی۔ مگر حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے 500ارب کے رئیل اسٹیٹ کے پراجیکٹس رجسٹر ہوئے ہیں۔ اس سے تعمیرات کے شعبہ میں تیزی آئے گی ۔ حکومت بڑے یونٹوں کے ساتھ چھوٹے یونٹوں کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ بھی وعدہ کریں کہ اب پاکستان کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے کیلئے برآمدات کو بڑھائیں گے۔ آل پاکستان بیڈ شیٹس اینڈ اپ ہولسٹری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے انتخابات کے بعد پر امن طور پر انتقال اقتدار کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ حکومت بھی آئندہ انتخابات میں پر امن انتقال اقتدار کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈانڈسٹری کو آئندہ انتخابات میں الیکٹرانکس ووٹنگ مشین کا تجرباتی استعمال کرنا چاہیے تاکہ ملک میں اس کے استعمال کی راہ ہموار ہو سکے۔ انہوں نے فیڈمک کے بورڈ میں ایپبوما کو نمائندگی دینے کا بھی یقین دلایا ۔ پنڈورا پیپرز کی رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ غریب ملکوں کے 7ٹریلین ڈالرترقی یافتہ ملکوں میں پڑے ہیں جن کی واپسی کیلئے اقدامات کے علاوہ منی لانڈرنگ کے تمام کیسوں کی بھی فوری تحقیقات ہو نی چاہیں۔فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر عاطف منیر شیخ نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر پورے شہر کی صنعتی، تجارتی اور کاروباری تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ۔ وہ بطور صدر تمام سیکٹرز کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ایس ایم ای سیکٹر کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ روزگار مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم ٹیکسٹائل کی مقامی صنعت خصوصی پیکج کی منتظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس یارن کی برآمد سے ہم ایک ڈالر کماتے ہیں اُس کی ویلیو ایڈیشن سے ہم 12سے 16ڈالر تک کا زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو اس سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کپاس کی شاندار فصل ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس برآمدی آرڈر کافی زیادہ ہیں۔ اور ہمیں اپنی برآمدی ضروریات کیلئے اعلیٰ کوالٹی کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی یارن کی درآمد پر ڈیوٹی کو دس سے کم کر کے 5فیصد کر دیاہے تاہم ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے پیش نظر اس کو صفر کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اب بھی سو روپے کی برآمدات کیلئے 80روپے درآمدات پر خرچ کرتے ہیں جسے آئندہ پانچ سالوں میں 80-20کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر زیرو ریٹ سکیم کے تحت چل رہا تھا۔ مگر اس پر 17فیصد سیل ٹیکس عائد کر دیا گیا ۔ اس کے ری فنڈ کے دوران بھی 5فیصد کی ادائیگی کو موخر کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ صورتحال تھوڑے سرمایے سے کاروبار کرنے والوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہے۔ انہوں نے ایپبوما کی طرف سے ایس ایم ای سیکٹر کیلئے زیر وریٹنگ سکیم کے مطالبے کی بھر پور حمایت کی تاکہ برآمدات بڑھا کے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ صرف برآمدات بڑھا کے ہی ہم ملک کو قرضوں کے چکر سے نکال سکتے ہیں۔ ایپبوما کے نومنتخب چیئرمین عارف احسان ملک نے بتایا کہ تمام پالیسی ساز اداروں میں ان کی تنظیم کو نمائندگی دی جائے تاکہ ملک میں ایس ایم ای سیکٹر کی جامع اور تیز رفتار ترقی کیلئے ٹھوس بنیاد رکھی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 30فیصد حصہ ایس ایم ای کا ہے جسے صرف ایک سال میں دوگنا کیا جا سکتا ہے۔ سبکدوش ہونے والے سینئر وائس چیئرمین انجینئر بلال جمیل نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار ایس ایم ای سیکٹر کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے جبکہ پالیسی ساز ی میں بھی اُن کی ایسوسی ایشن کو شامل کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کی صدارت وزیر اعظم خود کرتے ہیں جبکہ اس میں ایپبوما کے چیئرمین خواجہ یونس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایپبوما نے DTREبارے پالیسی بنا کے وزارت کامرس کو دی ہے جس کو ٹیکسٹائل پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ فیصل آباد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مختلف متعلقہ اداروں سے رابطوں کے ذریعے ممبران کے مسائل فوری طور پر حل ہو رہے ہیں جبکہ ٹی ڈیپ اور سمیڈا کے تعاون سے کیپسٹی بلڈنگ کے پانچ سالہ پروگرام پر بھی کام ہو رہا ہے۔ تقریب میں نیشنل گروپ کے میاں محمد ادریس ، ایپبو ما کے چیئرمین خواجہ یونس ، سٹیٹ بینک فیصل آباد کے ڈپٹی چیف منیجر محمد اکبر، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر تنویر احمد ، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ڈائریکٹر اللہ داد تارڑ اور دیگر مہمانوں نے بھی خطاب کیا جبکہ آخر میں شیلڈیں تقسیم کی گئیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme