بلقیس ایدھی۔ ایک عہد تمام ہوا

Published on April 17, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 175)      No Comments

تحریر… مہر جاوید
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
بیابان اور سنسان سڑک کے کنارے پڑا ایدھی فاٶنڈیشن کا جھولا اور اس پر انسانیت کا کلیجہ کاٹنے والا جملہ کہ  ”قتل نہ کریں ۔ جھولے میں ڈال دیں۔ایک گناہ کر کے دوسرا گناہ کیوں مول لیتے ہو۔ جان اللہ کی امانت ہے“۔ یہ جملہ کسی اور کا نہیں ماں جی بلقیس ایدھی کا تھا۔ جی ہاں وہ بلقیس ایدھی جن کو قوم کی ماں قرار دیا گیا۔ جنہوں نے قومی اور عالمی سطح پر سماجی خدمات پر اپنا لوہا منوایا اور آج دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کھڑی کر کے انسانیت کی خدمت کو بامِ عروج مہیا کیا۔
سولہ ہزار سے زاٸد بچوں کی ماں اور لاکھوں یتیموں کا سہارا معروف سماجی راہنما اور مرحوم عبدالستار ایدھی کی بیوہ اپنے ابدی سفر کی طرف کوچ کر گٸیں۔ خوش بختی ملاحظہ ہو کہ 14 اگست 1947 یعنی رمضان المبارک میں پیدا ہوٸیں اور 15 اپریل 2022 کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہی 74 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ایک ماہر نرس سے اپنے کیرٸیر کا آغاز کرنے والی یہ عظیم ہستی جس نے زندگی کی 50 بہاریں ایدھی صاحب کے ساتھ گزاریں کچھ عرصہ سے عارضہ قلب، ضیابیطس اور اور بلند فشارِ خون میں مبتلا تھیں۔
آج پاکستانی قوم نے بلاشبہ ایک مسیحا، ایک خوبصورت روح، ایک عظیم ماں اور ایک سپر وومن کو کھو دیا اور یوں ایک عہد تمام ہوا۔میں صدقے جاٶں اس اعلٰی اقدار اور انسانیت کا  دردِ دل رکھنے والی ماں کے جس نے کتنے ہی ایسے بچوں کو نہ صرف پالا بلکہ معاشرے کے کامیاب افراد بھی بنایا  جن کی اپنی ماٸیں ان کو چھوڑ چکی تھیں۔ یقیناً آج خدا اور اس کے فرشتے بھی ایسی روح کو خوش آمدید کہ رہے ہوں گے اور بلا شبہ عرش پر ایک والہانہ استقبال ہوا ہو گا کہ خدا کی ایک عظیم بندی اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو کر پیش ہوٸی ہیں۔ عرش سجا دیا گیا ہوگا۔ بہشت میں جشن ہوگا اور جنت کے بچے خوش ہو رہے ہوں گے۔ آج انسانیت بھی فخر سے جھوم اٹھی ہو گی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔
ماں جی بلقیس ایدھی کا سبق دیکھیں  کہ: کوشش کرو کہ کسی انسانی جان کو تم سے آرام پہنچے یا جو دستِ شکستہ ہے اس کو تمہارے ذریعے روٹی ملے۔ قیامت کے بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت اور چلن نہ ہو گا جتنا دل کا خیال رکھنے اور دل خوش کرنے کا ہو گا“ 
ایک اور جگہ کیا خوب فرمایا کہ: انسان اور انسانیت۔ یہی مذہب، یہی دین، یہی ایمان، یہی محبت ، یہی ہمدردی ، یہی اللہ کی رضا ، یہی اسلام کا تقاضا اور یہی ہمارے آخری نبی ﷺ کا پیغام ہے۔ آہ۔۔اب یہ سبق کون یاد کرواۓ گا؟
آپ نے ہمیشہ مذہب، زبان ، رنگ ، ذات پات کی تفریق کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ انسانیت کی خدمت کی۔ شوہر کے جانے کے بعد اس مشن کو ادھورا نہیں ہونے دیا۔ دن رات کی پرواہ کیے بغیر اندھیروں  اور مٹتی ہوٸی امیدوں میں روشنی کا چراغ تھامے رکھا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہم زمین زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔
بلاشبہ آپ خدمتِ انسانیت کا درخشندہ عہد تھیں۔ لاکھوں لوگوں کی امید کا دِیا تھیں جو آج نمدیدہ ہیں۔ 
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا۔
مگر دوسری طرف قوم کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جسے قوم کی ماں کا درجہ دیا گیا اسی قوم کے طرّم خانوں کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگی۔ سواۓ چند روایتی تعزیتی جملہ بازیوں کے علاوہ عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ قوم کی اس عظیم ماں کو بھی قومی پرچم میں قومی رسومات کے ساتھ اور قومی سطح پر دفنایا جاتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم آج کاروبارِ سیاست کا کھیل ایک دن کے لیے روک دیتے اور صرف ایک قوم بن کر اپنی قوم کی اس ماں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے۔ یاد رہے کہ جو قوم اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہے اسے قوم کہلوانے کا بھی حق نہیں ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ان کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرماۓ اور جنت میں اعلٰی مقام عطا فرماۓ اور ان کے زیرِ سایہ ہزاروں بچوں کے دکھوں کا مداوا فرماۓ۔ آمین
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes