عدم اعتماد کامیاب ہونے کی وجہ

Published on May 9, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 69)      No Comments

تحریر ہانیہ ارمیا لاہور

عدم اعتماد، ایک ایسی تحریک ہے جس سے مراد وہ ووٹ یا بیان اخذ کیا جاتا ہے جو کسی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ عہدیدار مزید اس عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہے۔ عدم اعتماد کا استعمال اکثر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھائے جو آئین، قانون اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہو۔جب حزب اختلاف حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو اور حکومت گرانا چاہے تو اس کا آئینی طریقہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔
پاکستان میں سنہ1973 کے آئین میں جب تحریک عدم اعتماد کا طریقہ وضع کیا گیا تو اس وقت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دوتہائی اکثریت حاصل تھی اسلیے کبھی یہ تحریک کسی نے پیش کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ مگر آگے چل کر 1977 کے مارشل لا کے بعد 1988 میں جب ملک میں دوبارہ جمہوری سفر شروع ہوا تو تحریک عدم اعتماد جیسی فضا بھی اس کا مقدر بن گئی۔پاکستانی پارلیمانی تاریخ اس قسم کی سیاسی ہلچل سے بھری پڑی ہے 1947 سے 2022 تک تین بار ملک کے منتخب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جا چکی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا تین وزیر اعظم کر چکے ہیں مگر پہلی دو تحریکیں تو ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اور وزارت کا قلمدان نہ گرا سکیں۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی حزب اختلاف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ یہ ناکامی بین الاقوامی اخبارات کی بھی شہ سرخیوں میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ قومی اسمبلی میں اس تحریک کو 12 ووٹوں سے رد کردیا گیا۔ 237 ارکان کے ایوان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہٹانے کے لیے 119 ووٹ درکار تھے تاہم تحریک کو 107 ووٹ حاصل ہوسکے، وزیراعظم نے 125 اعتماد کے ووٹ حاصل کیے جب کہ 5 ارکان غیر حاضر تھے۔دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد اگست 2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ہٹانے کے لیے لائی گئی۔ تاہم اس بار بھی اپوزیشن کامیاب نہ ہوسکی۔342 ارکان کے ایوان میں شوکت عزیز کو ہٹانے کے لیے 172 ووٹ درکار تھے تاہم عدم اعمتاد کی تحریک کو 136 ووٹ مل سکے اور شوکت عزیز 201 ووٹ لے کر وزارت کا عہدہ بچا گئے اور وزارت عظمیٰ کے منصب پہ فائز رہے۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ مگر تیسری بار وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹنگ کا مرحلہ تو بہت صبر آزما رہا۔عمران خان ملک کے تیسرے وزیراعظم تھے جن کے خلاف اپوزیشن نے عدم اعتماد تحریک جمع کرائی یہ تحریک 8 مارچ کو جمع کرائی گئی۔ مگر اسپیکر کی جانب سے مختلف حیلے بہانوں کے باعث ووٹنگ تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ یہ عدم اعتماد ہر لحاظ سے باقی دونوں تحریکوں سے مختلف ثابت ہوئی اور پاکستانی سیاست میں اس نے تاریخ رقم کی۔ ڈپٹی اسپیکر نے تین اپریل 2022 کو اسے سازش قرار کر مسترد کر دیا دوسری بار 9 اپریل کو دوبارہ ووٹنگ کروانے کا حکم سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہوا مگر اس بار بھی حکومتی پارٹی کے سپیکر نے ووٹنگ سے متعلق اپنی پرانی روش کو قائم رکھا اور بلاوجہ تاخیر کرتے رہے مگر رات دس بجے سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے باعث چار و ناچار ووٹنگ کروانی پڑی اور عمران حکومت تکبر کے آسمان سے زمین پہ آ گری۔ پینل آف چیئر ایاز صادق نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق 342 ارکان میں سے 174 ووٹ آئے ہیں اور یہ کثرت رائے کے ساتھ منظور ہوئی۔ اس تحریک میں نہ صرف اپوزیشن نے، بلکہ حکومت پارٹی کے منحرف بیس ارکان نے بھی تحریک کے حق میں ووٹ ڈالے۔
اور یوں عمران خان 9 اپریل کو وزارت کے عہدے سے برطرف کر دئیے گئے وہ 3 سال 7 ماہ 21 دن تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے۔ عمران خان پارلیمانی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں باقاعدہ آئینی طریق کار کے تحت عدم اعتماد کی قرارداد کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے خطابات میں یہ بات فخریہ کہی کہ آج ہم نے تاریخ رقم کی۔ پہلی بار کسی منتخب حکومت کو آئینی اور جمہوری طریقے سے گرایا گیا ہے۔
اس عدم اعتماد کی کامیابی کی بہت ساری وجوہات میرے پیش نظر ہیں سب سے پہلی اور اہم وجہ عوام کا عمران خان پہ یقین کا اٹھ جانا ہے کم توڑ مہنگائی نے عوام کے سامنے خان صاحب کی شفاف سیاست کا نقاب اتار دیا ملک کا ایک عام شہری جسے محنت کرنی ہے اور رزق کمانا ہے تاکہ اس کا خاندان زندہ رہ سکے اس عام شہری کے لیے اسکا حکمران اس وجہ سے اچھا ہے اگر وہ اس کے لیے ضروریات زندگی کو آسان بناتا ہے مگر کرونا کی تباہ کاریوں نے ہماری معیشت کو ایسا ڈبویا کہ عام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں
عوام ملک کی ایسی طاقت ہے جو جس حکمران کے ساتھ ہے اس کو دنیا کی کوئی طاقت عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔اور اسی مہنگائی کے عذاب کا فائدہ مخالفین کو ہوا۔ کیونکہ وہ سارے عمران خان کے خلاف متحد تھے۔
کامیاب سیاستدان کی علامت یہ یے کہ وقت آنے پہ وہ معاملات کو سنبھالنا جانتا ہو۔ اور اپنے عہد کے باقی سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر ملک چلانے کا ہنر جانتا ہو مگر عمران خان ایک اچھے لیڈر تو ہو سکتے ہی مگر اچھے سیاستدان نہیں۔
اور عمران خان خود بھی یہ بات جانتے تھے کہ انکا جانا اب یقینی ہو چکا ہے۔ اسی لیے وہ ووٹنگ پہ تاخیر کرتے رہے۔آج چاہے وہ جتنا مرضی شور مچا لیں کہ یہ سازش تھی مگر یہ تو طے ہے کہ اس عدم اعتماد تحریک کی کامیابی نے تاریخ رقم کر دی ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes