دنیا بھر سے متعدد ایوارڈ سمیٹنے والی پاکستانی کی پہلی تاریخی مختصر فلم”ان ماسکنگ“ نے دنیا بھر میں نام اور پہچان دی، اداکار/تحریرنگار و ہدایتکارطلال فرحت

Published on October 30, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 724)      No Comments


سفارش پر بالکل یقین نہیں رکھتا تھا، اپنے ہنر اور کام سے آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن سے اپنا نام بنانا چاہتا تھا

افسوس نہیں کہ مجھے پی ٹی وی میں نوکری نہیں ملی

بات چیت؛ ڈاکٹر بی اے خرم

طلال فرحت کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ بیرسٹر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، شوق ان کا فوٹوگرافی، ڈائریکشن ، اچھے اور ٹیلنٹڈ لوگوں سے ملنا ہے، ان کے والد فرحت علی خان (مرحوم) بیرسٹر تھے اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن سے بھی وابستہ رہے، گھر میں کوئٹہ سمیت پاکستان کی مشہور شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا تھا، خاندان کے دیگر افراد، بیرسٹر، وکیل، ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں میں اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں ، خاندان میںواحد ہیں جنہوں نے میڈیا کا انتخاب کیا، شروع سے کوشش کی کہ وہ اپنا کام ایک منفرد انداز سے کرتے آئیں، انہوں نے اپنی زندگی کا پہلاتاریخی کام سافٹ ویئر کے حوالے سے کیا، انہوں نے دنیا میں پہلی بار قرآن شریف کی آڈیو سی ڈی کو دنیا بھر میں متعارف کرایا، آج بھی وہ سی ڈی تقریبا دنیا بھر کے ہر مسلم گھرانے میں سنی جاتی ہے اور یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے معروف چینلز پر اس سے استفادہ حاصل کیا جاتا رہا ہ، دو ہزار بیس میں انہوں نے اسی کام کے سلسلے میں ایک اور جدت اپنائی اور دوبارہ دنیا میں اپنا نام ریکارڈ کرایا انھوں نے مقامی سافٹ ویئر کمپنی کے اشتراک سے سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے لیے ”قرآن ویڈیو“ کے نام سے ویڈیوز کو سافٹ ویئر کی صورت میں ترتیب دیا جو کہ ہر آیت کے حوالے سے ویڈیوزپر مشتمل تھیں، واضح رہے کہ اس سے قبل اس طرح کا کام پاکستان کی تاریخ میںپہلی بار ہوا ہے، یہی نہیں بلکہ انہوں نے دوہزار تیرہ میں پہلی کاپی رائٹ قرآن شریف کی آڈیو موبائل ایپلیکیشن تیار کی، جسے معروف اداکار و صداکار عبید اللہ زبیر کی آواز میں نہایت پروفیشنل انداز میںریکارڈ کیا گیا ہے، یہ پاکستان کی تاریخ میں ہیں نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اسے مشہور آئی فون کمپنی نے اپنے موبائل ایپلیکیشن میں استعمال کیا اور المحمدو للہ آج بھی اس کی دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہ یہ ایپلیکیشن ڈاﺅن لوڈ کر رہے ہیں۔ طلال فرحت نے اس سلسلے کو جوڑے رکھا اوردو ہزارچودہ میں وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور نیا باب رقم کر چکے ہیں یعنی اس بار انہوں نے قرآن شریف کی مکمل تفسیر مشہور آئی فون کمپنی کے لیے موبائل ایپلیکیشن کی صورت میں تیار کی، جسے معروف اداکار و صداکار عبید اللہ زبیر کی آواز میں نہایت پروفیشنل انداز میںریکارڈ کیا گیا ہے۔ میڈیا سے بھی وابستہ رہے، گزشتہ تیس برسوں سے پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن، کراچی مرکز میں بحیثیت معاون پروڈیوسر(آﺅٹ سورس) سینئر اور جونیئر پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا اور سیکھا، حمد و نعت، قوالی، محفل میلاد، محرم الحرام کے خصوی پروگرام، میوزیکل شوز، لائیو شوز، مارننگ شوز، پی ٹی وی ایوارڈز، طویل ڈرامے، ٹیلی تھیٹر، نوجوانوں کے شوز سمیت نہ جانے کتنے پروگراموں میں اپنی خدمات پیش کیں، یہی نہیں بلکہ پاکستان کی پہلی سائکو تھرلر فیچر فلم ”ہوٹل“ میں بحیثیت ایسوی ایٹ ڈائریکٹر اپنی خدمات فراہم کیں، جس نے بین الاقوامی فلمی میلے میں دو بہترین ایوارڈ حاصل کیے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چھوٹے قد پر دستاویزی فلم’اٹھننی“ بنا کر دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کیا، حال ہی میں ”کووڈ“ پر مختصر دورانیے کی فلم ” ان ماسکنگ“ میں اداکاری کے جوہر دکھائے جس نے دنیا بھر کے فلمی میلوں میں شرکت کر کے بارہ ممالک سے ان ماسکنگ نے بین الاقوامی ایوارڈ سمیٹے اورچھبیس ممالک میں اس کی اسکریننگ ہوئی، ہمہ جہت شخصیت اداکار، تحریر نگار اور ہدایکار طلال فرحت سے ہم نے پنجاب کے ڈسٹرکٹ وہاڑی سے متصل شہر بورے والا میں گھر پر دعوت رکھی اور دوران عشائیہ کافی دیر تک بات چیت رہی؛

سوال؛ پی ٹی وی کیا ہے؟
طلال فرحت؛ ”پاکستان ٹیلی وژن ایک ادارہ نہیں بلکہ اسے تعلیمی ادارہ کہیں تو یہ بات درست ہوگی، یہ درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں محبت بکھیرنے والاذریعہ بھی ہے، میں نے اپنی زندگی کی کئی قیمتی سال پروڈکشن سیکھنے میں لگا دیئے اور آج بھی میں کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی سے سیکھ ہی رہا ہوں، میں جب بھی پی ٹی وی کراچی مرکز گیا، ایک نئی امید اور نئے جذبے کے ساتھ گیا اور کچھ سیکھ کر ہی باہر نکلا۔
سوال؛ یہ بتائیے کہ ٹیلیوژن کی طرف آنے کا کب اور کیوں سوچا؟
طلال فرحت؛ یہ بات انیس سو چوراسی کی ہے ، کراچی میں پی ٹی وی کا ایک مشہور شادی شدہ جوڑا ہادی الاسلام صاحب اور ان کی اہلیہ سطوت الاسلام صاحبہ(مرحومین) رہتے تھے، انہوں نے ایک دن ساتھ چلنے کو کہہ دیا، یوں میںپی ٹی وی کراچی مرکز پہنچ گیا، شوق بہت تھا کہ دیکھیں کہ اس بکس میں اور شیشے کے پیچھے کام کس طرح ہوتا ہے، سو اس خواہش کو لے کرمیں اُن دونوں کے ہمراہ ٹی وی پہنچ گیا۔
سوال؛ جب ٹی وی پہنچے تووہاں پہنچ کر کیا محسوس کیا؟
طلال فرحت؛ ان کے ساتھ ریسیپشن پر گیا وہاں جا کر میرے نام کا پاس بنا، خوشی کی انتہا نہیں تھی،وہیں پر پہلی بار ملاقات محترمہ فاطمہ ثریا بجیا سے ہوئی، انہوں نے سطوت صاحبہ کو گلے سے لگایا اور میرے سر پر رکھ کر حسب عادت انہوں نے دعا دی اور کچھ دیر بات چیت بھی کی، چند لمحوں بعد ہمارے قدم سیڑھیوں کی جانب اٹھ گئے اور پھر پروڈیوسرعلی رضوی صاحب کے کمرے میں داخل ہو گئے، وہاں پر مشہور ٹی وی آرٹسٹ محمود علی، رضوان واسطی، ظہور احمد اور دیگر آرٹسٹ بیٹھے ہوئے تھے، علی رضوی صاحب نے کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا اور ہمیں نشست پر بیٹھنے کے لیے کہا، مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میں ان اداکاروں کے درمیان موجود تھا جن کو میں اسکرین پر دیکھتا تھا۔
سوال؛ ٹیلی وژن میں رہ کر زندگی کے قیمتی دن کیسے گزارے؟
طلال فرحت؛ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سطوت صاحبہ کے ساتھ ایک مرتبہ مشہور پروڈیوسر مرحوم شہزاد خلیل کے آفس میں گیا تھا، وہاں پر حیدر امام رضوی اور شعیب منصور بھی بیٹھے تھے، انہوں نے مجھ سے میرے بارے میں پوچھا ، انہوں نے ایک ایسا سوال کیا جس پر میرا موڈ آف تو ہوا مگر آج ان کی ایک بات نے میری زندگی بدل دی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ والد کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ چند سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا اور وہ بیرسٹر تھے، جس پر شعیب منصور صاحب نے کہا کہ گھر کا خرچہ کون چلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ میرے بڑے بھائی ابھی ڈاکٹر بن رہے ہیں اور وہ ڈاﺅ میڈیکل کالج میں پڑھ رہے ہیں، شہزاد حلیل صاحب نے تعلیم پوچھی تومیں نے بتایا کہ میں ابھی انٹرکر رہا ہوں، جس پرشہزاد صاحب نے صرف ایک بات کہی،”آپ ابھی آپ جا کر تعلیم حاصل کریں، ابھی عمر آپ کی چھوٹی ہے مگر آپ کا حوصلہ اور لگن انشااللہ ایک دن ضرور آپ کو یہاں لائے گا“، جس پر شعیب منصور نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ” آپ نے بتایا آپ کے والد بھی حیات نہیں، یقینا آپ کی والدہ آپ کے لیے ضرور پریشان ہوتی ہوں گی کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ لہذاان کی پریشانی کو کم کرنے میں انکا ساتھ دیں،مجھے یقین ہے کہ آپ کی امی کی دعا ضرور ایک نہ ایک دن آپ کو یہاں ضرور لائے گی“۔ اس وقت تو یہ بات سن کر بڑا رونا توآیا مگر آج جب بھی میں اس دن کو یاد کرتا ہوں تو آنکھوں میں نمی ضرور تیرتی ہے کیوں کہ ان کی تمام باتیں سچ تھیں،انہوں نے تعلیم پر زیادہ زور دیا کیوں کہ تعلیم انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور وہ ہی سچی اور سیدھی راہ بھی دکھلاتی ہے، ایک بات اور میں بتاتا چلوں کہ میں نے جتنا اپنے گھر سے نہیں سیکھا جتنا میں نے پی ٹی وی میں رہ کر تمام اسٹاف سے سیکھا، کس سے کس طرح اور کس موڈمیں کیا بات کرنی ہے، الحمدو للہ مجھے فخر ہے کہ میرا مدرسے کالج اور اسکول تو تھے ہی مگر سیکھنے میں سب سے بڑا مدرسہ میرا پی ٹی وی ہے، مجھے افسوس نہیں کہ میں مجھے وہاں نوکری نہیں مل سکی چاہتا تو مل سکتی تھی میرے والد کی جان پہچان اس وقت کے بڑے بڑے سربراہوں سے تھی، وہ ان کو جانتے تھے مگر میں” سفارش“ پر بالکل یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنے ہنر اور کام سے آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن سے اپنا نام بنانا چاہتا تھا، مگر مجھے فخر ہے کہ میںپی ٹی وی کا ایک حصہ تو بنا رہاجس کے لیے میں جتنا بھی اللپ پاک کا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
سوال؛ آپ آج تک پی ٹی وی میں کنفرم کیوںنہیں ہوئے؟
طلال فرحت؛ اس سوال کے کرنے کا اب فائدہ تونہیں، جب آپ نے پوچھ ہی ڈالا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ میں نے اُس وقت سے لے کر اب تک پی لی وی کے تمام اعلی عہدیداران کو اپنے بارے میں بتایا، وہ بھی میرے کام سے واقف تھے مگر نہ جانے کیوں ان سب نے آنکھوں پر پٹیاں بندھیں تھیں، سب کو زبانی یاد دلاتا رہا،کئی بار درخواستیں بھی دیں مگر شاید میری قسمت میں کنفرمیشن تھی ہی نہیں، مجھے اس کا دکھ نہیں کہ میں پی ٹی وی سے وابستہ نہیں ہوسکا مگر مجھ خوشی ہے کہ میں نے جس انداز سے کام کیا اور جس طرح سے تمام پروڈیوسرز، کیمرہ مین اور دیگر اسٹاف نے میرے ساتھ برتاﺅ رکھا،میں پی ٹی وی کا دلی شکر گزار ہوں اور زندگی بھر رہوں گا، ہم ایسے کام کرتے تھے کہ بالکل ایسے جیسے ہم ایک فیملی کے ممبر ہوں، میں نے تقریبا ہر پروڈیوسر کے ساتھ کام کیا، کچھ کے ساتھ زیادہ اورکچھ کے ساتھ بہت کم، مگر جو بھی کیا الحمدوللہ عزت کے ساتھ کام کیا، کسی کو کہنے کا موقع نہیں دیا کہ فلاں کام غلط ہوا ہے، میری کوشش یہی رہتی تھی کہ میں کسی کوشکایت کا موقع نہ دوں، یہ سب اللہ پاک کی دین کے ساتھ ٹی وی کے پروڈیوسرز اور خاص کر تمام کیمرہ مین کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے مجھے موقع دیا کہ میں ان کے کام کے سلسلے میں معاونت کر سکوں۔
سوال؛ وہ کون سے ایسے فنکار جن کے ساتھ کام کر کے خوشی محسوس ہوئی ہو اورآپ کے لیے یادگار رہا ہو؟
طلال فرحت؛ مجھے یاد ہے اچھی طرح سے کہ جب پی ٹی وی ٹیلی تھیٹر ریکارڈ کیا کرتا تھا، اس میں ایک کھیل ”یور ابیڈینٹ سرونٹ“ علی رضوی صاحب نے ریکارڈ کیا تھا، اس میں میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے شفیع محمد صاحب مرحوم کے ساتھ ایک چھوٹا سا رول اداکیا تھا، جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا اسی طرح ساحرہ کاظمی ”روزی“ کر رہی تھیں، اس میں کچھ کرداروں کے لیے آڈیشن ہوئے، میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ کس طرح وہ سلیکٹ کرتی ہیں اور کیا طریقہ کار ہے؟ عرض اسی اثنا میں ساحرہ کاظمی نے مجھے بلایا اور میرا نام پوچھ کر ڈائری میں لکھ لیا،چندروز بعد میں ٹی وی آیا تو انہوں نے دیکھ کر مجھے کہا کہ کل آپ کی ریکارڈنگ ہے، مجھے حیرت ہوئی اور میں نے جی اچھا کہہ کر وہاں سے اجازت چاہی اور یوں میں چلا گیا، میں ایک بات بتاتا چلوں کہ مجھے تھوڑا بہت ایکٹنگ کا شوق ہو چلا تھا، جس کا اظہار علی رضوی صاحب سے کیا بھی، مگر شاید انہوں نے کبھی سیریس نہیں لیا اور سوائے دو ڈراموں کے انہوں نے مجھے کوئی کردارکبھی نہیں دیا، یہی نہیں اس زمانے میں جب بھی میں سیٹ پر دوسرے لوگوں کو کام کرتے دیکھتا تو میں پریشان ہو جاتا تھا، اس لیے کیمرہ آن ہوتے ہی میں گھبرا سا جاتا تھا، خیر ایک دن گھر ایک لفافہ آیا، اسے جب کھولا تو اس میں پی ٹی وی کا ایک کنٹریکٹ اور اس میں سوروپے لکھے ہوئے تھے، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ پہلی بار ٹی وی سے چیک آیا مگر جب اس کنٹریکٹ کو پڑھا تو س پر ”روزی“ ڈرامہ لکھا تھا، (یہ وہی ڈرامہ تھا، جس میں مرحوم معین اختر نے اپنی زندگی کی لازوال اداکاری کر کے ملک گیر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کی) اب مجھے محسوس ہوا کہ اس پر میرا حق نہیں، کیونکہ جب میں نے کام کیا ہی نہیں تو میں کس لیے اسے لوں؟ خیر جب چیک دیکھا تو ہنسی رکے نہ رکے، کیوں کہ چیک پر صرف دس روپے لکھا تھا جب کہ کنٹریکٹ پر سوروپے لکھا تھا، اس طرح وہ چیک میں نے ریٹرن نہیں کیا اور وہ چیک آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، جس سے میری چند یادیں تو وابستہ ہیں جنہیں میں یاد کر کے از کم اپنے ماضی کے جھروکوں میں پہنچ جاتا ہوں ۔
سوال؛ اچھے پروڈیوسر ز کی فہرست میں کون پسندیدہ ہے؟
طلال فرحت؛ یہ ماننے والی بات ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ہمارے پاکستان ٹیلی وژن کا ہر پروڈیوسر اپنا ایک نام رکھتا ہے، خواہ اس نے کوئی بھی پروگرام کیا ہو، کیونکہ جو پروگرام آن ایئر جاتا ہے وہ کافی تحقیق کے بعد ہی آن ایئر ہوتا ہے، اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پی ٹی وی کے فلور سے اپنے کام کا آغاز کرے، رہی بات اچھے پروڈیوسرز کی تو میں حقیقتا سچ کہوں گا کہ سب ہی اچھے ہیں، بس آپ کو ان کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ آتا ہو، میں نے ماضی میں سینئر پروڈیوسرکاظم پاشا، منظور قریشی، شاہین انصاری، علی رضوی، ناہید حسن زیدی، زرتاج علی،رفعت ہمایوں، امین میمن، شجاعت علی، حمید ھالیپوتہ، تسنیم اسلم، مقبول احمد شجراع، آصف انصاری اور دیگر سینئرزکے ساتھ کام کیا، سب سے زیادہ کام میں نے ناہید حسن زیدی، زرتاج علی صاحبہ کے ساتھ کیا،زرتاج صاحبہ کے ساتھ میں نے طویل ترین نوجوانوں کا شو ”ستاروں سے آگے“ کیا جس میںہم نے نہ جانے کتنے فنکاروں اور ہنرمندوں کو متعارف کرایا، سینئر پروڈیوسررفعت ہمایوں صاحبہ کے ساتھ ٹیلی فلم، مزاحیہ خاکے، خواتین کے دن پر خصوصی پروگرام کرنے کا اتفاق ہوا، غرض ہر پروڈیوسر کا ایک اپنا الگ رنگ اور کام کرنے کا انداز ہے اور یہ تمام پروڈیوسر پاکستان کا سرمایہ ہیں۔
سوال؛ پاکستان کی پہلی سائکوتھرلر فیچر فلم ”ہوٹل“ کے بارے میں پڑھنے والوں کوبتائیں؟
طلال فرحت؛ ”ہوٹل“ پہلی بالی ووڈ کی سائکوتھرلر فیچر فلم ہے جولالی ووڈ میں شوٹ کی گئی ہے، جس کی کہانی ایک بھارتی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے شوہر کے ہمراہ ہندوستان کے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کر رہی ہوتی ہے، دوران سفرراستہ میں رات ہوجاتی ہے وہ ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں، وہاں اُس کی ملاقات اپنی اُس بہن سے ہوتی ہے جو کہ پیدا ہی نہیں ہوئی، فلم میں مرکزی کردار فلمسٹار میرا جی نے ادا کیا ،مجھے اس فلم میں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس فلم میں تقریبا بارہ نئے فنکاروں کو سینما اسکرین پر متعارف کرایا اس سلسلے میںدلی طور سے شکر گزار ہوں پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کا جنہوں نے میری صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنی بڑی ذمہ داری دی اور الحمدو للہ میں نے خوش اسلوبی سے پوری کی، ساتھ ہی میں دلی طور پر شکر گزار ہوں تمام کاسٹ، کریو،پوسٹ پروڈکشن یونٹ، اسسٹنٹس، اسپاٹ بوائز اورخصوصی طور پر پاکستان کے تمام الیکٹرانک میڈیا اور صحافیوں کا جنہوں نے بھرپور تعاون کیا اور فلم کی پروموشن کے سلسلے میں مثبت رپورٹنگ کی،میں یہ بتاتا چلوں کہ اس فلم میں میں نے تقریبا ہر شعبے میں کام کیا، رہی بات کام کی تو اس میں میں نے بطور معاون ہدایتکار، آرٹ ڈائریکٹر، لوکشین انچارج،پراپس انچارج، لاجسٹک سیل، بھارتی ٹیکسی ارینجر اور ساتھ ہی تمام اخبارات و رسائل و ویب سائٹس پر فلم کی پروموشن کے لیے اپنی ماہرانہ خدمات انجام دیں۔
سوال؛ ایک اچھی فلم یا ڈرامہ کے لیے کیا ضروری ہے؟
طلال فرحت؛ ایک اچھے اور نئے موضوع کے ساتھ آئٹم سانگز اور آتشیں اسلحے استعمال کیے بغیر بھی اچھی فلم بن سکتی ہے، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فارمولا کلچر اور گنڈاسے کے ساتھ آتشیں اسلحے سے پاک ایک ایسی کہانی عوام کے لیے اسکرین پر پیش کریں، جسے فیملی کے ہر فرد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکے ، آج کل ملک کی صورتحال میں فلم ایسا میڈیم ہے جسے پوری دنیا میں پسند ہی نہیں بلکہ اسے ہاٹ قرار دیا جاتا ہے، اس لیے فلم انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کے لیے ہم لوگوں کوہی کوشش کرنی ہوگی کہ ہم دیگر ممالک کی طرح اپنے فلم کے معیار کو انٹر نیشنل انداز میں پیش کریں اور اس سلسلے میں آج کل جو فلمیں بنائی جا رہی ہیں وہ پاکستان فلم انڈسٹری میں نیا چینج لا چکی ہے۔
سوال؛ آج کے فنکاروں کے بارے میں کیا تاثرات ہیں؟
طلال فرحت؛ آج کے دور کے نوعمر زیادہ ترشوقیہ فنکار ”فن“ سے زیادہ ”کار“ کے پیچھے بھاگتے نظر آ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا فن گلیوں میں گم ہو گیا ہے،ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس ”فن“ کو ڈھونڈنے کے لیے کوئی آسمان سے نہیں آئے گا اس کے لیے ہمیں خود باہر نکلنا پڑے گا اور فن کو دوبارہ اسی مقام پر لانے کی کوشش کی جائے گی جومعیار پاکستان بنتے وقت تھا، ہمارا فن ابھی بھی زندہ ہے مگر اس فن کو کچھ ایسے لوگوں نے خراب کر دیا ہے جن کو فن کے نام کی الف ب نہیں پتا، لہذا ہماری نئی جنریشن کو آگے بڑھنا ہے اور اسے اس کا وہ مقام وہ معیار واپس لانے میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے، آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ایک ٹی وی، فلم یا تھیٹر ہی تو رہ گیا ہے کہ جہاں ہم اپنی فیملیز کے ساتھ ایک اچھے ماحول میں خوبصورت فنکار کو کام کرتا دیکھیں، مگر افسوس کہ اس فن کے نام پر چند عناصر نے اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے اسکرپٹ،آرٹسٹ اور ڈائریکشن پر تھوڑی توجہ دی جائے تو ایک اچھی پروڈکٹ نکالی جا سکتی ہے مگر آج کے دور میں جس طرح سے بے تکا کام نظر آرہا ہے اس سے فن کے نام کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، گو کہ ابھی بھی سینئرز اچھا اور معیاری کام کر رہے ہیں اور ان کا کام پسند بھی کیا جا رہا ہے مگر آج کل کی نسل شاید جلد بازی میں وہ مقام حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں محنت کم ہو اورمشہور ہونے کے ساتھ پیسہ زیادہ حاصل ہو، اس طرح کی سوچ میں یقینا وہ کام نظر نہیں آئے گا جو ایک محنت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، لہذا ہمیں خود بھی کوشش کرنی ہو گی اور نئی نسل کوبھی آگے بڑھنا ہوگا کہ اچھے اسکرپٹ کے ساتھ اچھے ڈرامے، تھیٹر اور فلمیں بن کر ہمارے ملک کا نام روشن کریں انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ملک کے بہتر اور مثبت مستقبل کی کمان ہماری نوجوانوں کے ہاتھ ہوگی نیز نئی جنریشن کو چاہیئے کہ وہ ماضی کی تلخ حقیقتوں اور تجربوںکی روشنی میں فلمی مستقبل کو مثبت اندازمیں اورآگے کی جانب لے جانے میں اہم کردار ادا کریں۔
سوال؛ کبھی اپنے کام پر غرور کیا اور جیت ملنے کی خوشی ہوئی ؟
طلال فرحت؛ کسی کی مدد کرنے سے ہنر میں کمی نہیں آتی اور میری نظر میں غرور ایک بیماری ہے جو کبھی بھی کسی بھی کم ظرف کو لگ سکتی ہے، میںدعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک مجھے اس بیماری سے بچائے،یہ بھی دُرست ہے کہ آج کل ”ہارنے“ والے انسان پر لوگ دراصل اس کی موت پر” جیت“ کا جشن منا کر اس کی” تضحیک “کرتے ہیں یہ اب یہاں کا وطیرہ بن چکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جیت دراصل اس وقت ہوتی ہے جب پیٹھ پیچھے آپ کی کوئی اچھائی بیان کرے، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے کام کی راہ میں کوشش کرو اور کبھی بھی پیچھے نہ ہٹو کیوں کہ اللہ نے کوشش مانگی ہے نتیجہ نہیں، لہذا اس بات پر میں اپنے کام پر لگا رہتا ہوں اور الحمدو للہ کامیابی ملتی رہتی ہے۔
سوال؛ کوئی ایسی بات جو دل سے کہنا چاہتے ہوں؟
طلال فرحت؛ آج کل کے معاشرے میںایک دوسرے کے خلاف چنگاری لگانے کے لیے ماچس یا لائٹر کی ضرورت نہیں بلکہ اب تو ”زُبان“ سے کام کیا جا رہا ہے اور میرے خیال میں یہ ہی کافی ہے، ہم سب کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے دور رہنا چاہیے، یہ غیبت کبھی نہ کبھی آپ کو کنوئیں میں دھکیلنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرجاتی ہے لہذا ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں اور بلاوجہ کسی کی غیبت کرنے سے پرہیز کریں، اس سے سب ہی کا فائدہ ہے یاد رکھیں کہ پرندہ اپنے پنجے کی وجہ سے اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے جال میں پھنستا ہے، میں نے اب یہ سمجھ لیا کہ اس دنیا میں چاہنے والے کم اور جلنے والے بہت زیاوہ ہیں اس لیے اپنے کندھے ہمیشہ جھکا کر چلیں اور محبت سے ایک دوسرے سے پیش آئیں، میری خواہش ہوتی ہے کہ جو تکلیف میں خود برداشت نہیں کر سکتا وہ میں دوسروں کو نہ دوں۔
سوال؛ بنیادی طور پر مختصر دورانیے کی فلم ”ان ماسکنگ“ کیا ہے؟
طلال فرحت؛ یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی مختصر فلم ہے کہ جس نے بارہ ایوراڈ حاصل کر لیے ہیں”ان ماسکنگ“ ایک شارٹ فلم ہے جو صرف دو گھنٹے کی شوٹنگ میں تیار کی گئی ہے، جس میں اورجنل لائٹس کا استعمال کیا گیا ہے جس کے رائٹر، پرڈیوسر اور ڈائریکٹر ´حالد حسن خان ہیں،فلم میں صرف تین اداکار دانش وکیل، علی اور طلال فرحت ہیں، یہ ایک مریض اور ڈاکٹر کی کہانی ہے، مریض(یعنی میں) اپنی جان بچانے کے لیے کووڈ ویکسین نہیں لگوانا چاہتا ہوں جبکہ ڈاکٹر(دانش وکیل) مرجانا چاہتا ہے ،ویکسین کے سلسلے میں جو میرے تحفظات ہیں ان سے آگاہی کے لیے میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، ”ان ماسکنگ“ فلم کو دنیا کے کئی فلمی مقابلوں میں بھیجا اور فلم نے بارہ کے قریب ایوارڈز اپنے نام کر کے پاکستان کا نام بلند کیا اور چھبیس سے زائد ممالک میں اس کی اسکریننگ کی یوں میں سمجھتا ہوں کہ ”ان ماسکنگ“ نے میرے نام کو دنیا بھر میںروشناس کرایا اور پہچان بنائی، جس کے لیے پہلے تو میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں اور پھر فلم کے ہدایتکار خالد حسن صاحب کا کہ جنہوں نے مجھے یہ کردار دیا۔
سوال؛ مستقبل میں کیا پلان ہے؟
طلال فرحت؛ میں آج کل ایک فیچر فلم کے اسکرپٹ پر کام کر رہا ہوں، فلم کامرکزی خیال اور ہدایات خالد حسن خان کی ہیں۔
سوال؛ آخر میں پڑھنے والوں کے لیے چند سطریں؟
طلال فرحت؛ اپنی ”غلطی“ ماننے کی خود میں ”ہمت“ ہونی چاہیے اوراصل طاقت ”برداشت“ کرنے میں ہے، ”انتقام“ میں نہیں۔
ختم شد

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog