معاشی مسائل کا ذمہ دار کون۔۔؟

Published on September 10, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 217)      No Comments

تحریر: غزل میر
پاکستان کے حالات ساری دنیا کے لئے واضح ہیں،مہنگائی اور غربت کے علاوہ مسائل کی اگر تفصیل سے بات کی جا ئے تو شروع کہاں سے کیا جا ئے اور ایسی گفتگو ختم تو ہو نے نہ پائے گی۔پاکستان کی عوام میں بہت زیادہ لوگ ملک سے باہر مقیم ہو نے کی خواہش رکھتے ہیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ خواب بہت لوگوں کیلئے خواب ہی رہ جا تا ہے جو اگر پورا ہو جائے تو مسائل شائد کم ضرور ہو تے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسائل صرف کم ہو نے کے بجائے تبدیل ہو جا تے ہیں۔یعنی اور قسم کے مسائل یقینا پیدا ہو تے۔ خواب پو رے ہو بھی جائیں تو ضروری نہیں ہے کہ ان خوابوں کا حقیقت سے تعلق ہو ۔ہم بہت سے ایسے خواب دیکھ جا تے ہیں جن کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہو تی،اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ ملک تبدیل کرنے اور پناہ کی تلاش میں ہجرت کرنے میں بہت فرق ہے۔سویڈن کے سیاسی نظام کی وجہ سے سویڈن میں پناہ کی تلاش میں ہجرت کرنے والے مہاجرین کی بہت زیادہ تعدادہے۔اخلاقی طور پر یہ بہت اچھی بات ہے کہ سویڈن دوسرے ممالک کے ضرورت مند لوگوں کی مدد کر نا چاہتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔مہاجرین کیلئے سویڈن میں بہت مفاد ہیں، سویڈن یورپ میں ایک ایسا ملک ہے جس میں اگر آپ مہاجر ہیں اور آپ کا کیس اگر منظور ہو جا ئے تو تین سے پانچ سال کے بعد مستقل سکونت کی اجازت مل جانا ممکن ہےاور
زبان نہ آنے پر سویڈش سیکھنے کی تعلیم مفت ہے۔سویڈن اپنے سماجی نظام یعنی سوشل سسٹم کے لئے دنیا میں مشہور ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مہاجرین سو یڈن کو منتخب کرتے ہیں بلکہ بہت لوگ جو ملک تبدیل کرنا چا ہتے ہیں سویڈن کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔لیکن سویڈن ملک کیلئے ایک منفی پہلو یہ ہے کہ نسل پر ستی سویڈن میں بڑھتی نظر آتی ہے،مہاجرین کو زبان نہ آنے کی وجہ سے بہترین نوکری ملنا ممکن نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے وہ سوشل سسٹم پر نہ ہی صرف گزارا کرتے ہیں بلکہ کچھ اسے اپنی کمائی کا واحد ذریعہ بنا لیتے ہیں،سویڈن کا سوشل سسٹم عوام کی ٹیکس کی ادائیگی سے چلتا ہے جو نیک نیت سے نوکری کر کر کے ٹیکس دیتے ہیں ان کیلئے مہاجرین کی سوشل سسٹم پر سالوں سال”گزارا ” کرنا غیر منصفانہ بات ثابت ہو تی ہے۔ اس پر بحث اکثر ہو تی ہے کہ جاب کرنے والی عوام مہاجرین کا خرچہ ٹیکس کے ذریعے اتارتی ہے۔مہاجرین کو اچھی نوکری نہ ملنے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جرم کی طرف متوجہ ہو جا تے ہیں۔لیکن جو جرم کی دنیا سے نکلنا چاہے اس کیلئے بھی سوشل سسٹم کی وجہ سے بہت سہولیات ہیں۔ملک جو بھی ہو اس کو بہتر بنانے کا ثبوت دینا انسان کا فرض ہے جو صدیوں سے اس نے پورا نہیں کیا۔سویڈن کی عوام یہ فرض پو را کرتو رہی ہے لیکن اسے یہ فرض پو را کرنے کی سزا نہیں ملنی چاہیے-ایک گھر جو اپنا ہے اسے بہتر بنانے کا حسین خواب پو را ہو نا ممکن ہے ٹھیک ویسے ہی ایک نیا گھر ڈھونڈنے پر مل جا نے کا خواب پورا کرنا بھی ممکن ہے۔ لیکن اس خواب کے پورا ہو جانے پر یہ ایک مسلسل جاری عمل ہو نا چاہے کہ جس ملک کا انتخاب ہم فخر سے کریں اسے بہتر بنانے کا حصہ بھی بنیں۔ آخر میں اس غزل کے ساتھ اپنے کالم کا اختتام کررہی ہوں۔
تازاہ پھلوں کی مہک جہاں سے آ ئے
ہاتھوں سے وہاں لکڑی کے محل بنا ئے جائیں
سمندر میں مِلیں پھولوں کے گلدستے وہاں
رہتے بھی لوگ نیلی جھیلوں پے جہاں
کہتے ہیں اِسے دنیا میں جنت کا نظارہ
ہے یہ وہ جگہ جہاں پانی پے ہے شِکارا!
ڈل لیک کے پاس ہائوس بوٹ جو کھڑی پانی پے
لال رنگ کے پردے اس کی کھڑکیوں میں لگے
سردی میں کانگری سے ہاتھ گرم کریں ا پنے وہ
رات کو رنگین قالین پر قہوہ پئیں جو
پہاڑوں کی نوک پر برف ٹھنڈی لگے جب
سماوار میں گرم کی جاے نون چاے تب
سنیں ہوں گے نام گل مرگ اور پہل گام
بولی جاتی ہے یہاں کوشر زبان عام
شادی پے وازوان لگے جب
آخر میں گشتابا حاضر ہو تب
ہے غزل کا کشمیر سے کچھ ایسا واسطہ
کے کٹ گیا جمو سری نگر کا راستہ

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes