‎بہتر لائحہ عمل خوشحال گھرانہ کی ضمانت

Published on November 13, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 124)      No Comments

‎تحریر:غزل میر
‎انسان کی خواہشات ایک جیسی بھی ہیں اور مختلف بھی- پاکستان میں خواہشات غربت ,نظام اور ثقافت کی وجہ سے یورپ کے لحاظ سے الگ ہیں- مثال کے طور پر پاکستان میں صرف بیٹے ہو نے کی خواہش لو گ تعلیم یافتہ ہو نے کے باوجود آج بھی رکھتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بچے ہو نے کی خواہش بہتر معیار زندگی سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ایک عمر کا ہونے کے بعد سب انسان گھر بسانیں اور ایک ساتھی کا ہونے کے بارے میں سوچتے ہیں، آج کی دنیا میں بھی انسان کا آخری مقصد ایک ساتھی یا پھر بچوں کا ہو نا ہی ہے۔بچے ہو نے سے پہلے بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں جنکاری کپلز(میاں بیوی) کو نہیں ہو تی لیکن ان باتوں کے بارے میں ان کی ذاتی رائے ہو تی ہے جس کی وجہ سے فیصلہ وہ پہلے کر لیتے ہیں کے آگے جاکے کیسے بچوں کو پالیں، مثال کے طور پر کچھ کپلز(جوڑے) والدین بننے سے پہلے آئی پیڈ کا استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن ان کا یہ فیصلہ ناممکن ثابت ہو تا ہے -آج کی دنیا میں آئی پیڈ بالکل نظر انداز کئے نہیں جا سکتے۔ وجہ آج کی تیز رفتار زندگی ہے، کیریئر اور فیملی لائف رکھنے کی خواہش میں آئی پیڈز بچوں کو نہ دینے کا فیصلہ والدین بننے کے بعد تبدیل ہو جا تا ہے۔ یورپ میں زیادہ تر لوگ کیریئر کے حساب سے بچے ہونے کی پلاننگ(منصوبہ بندی) کرتے ہیں بیشک زندگی میں بچے کی پیدائش انسان کا مقصد ہے، ان کا ہو نا لیکن ایک بہت بڑا فیصلہ بھی اور یہ کوئی چھپی بات نہیں ہے کہ بچوں کو پیار اور محبت کے علاوہ بہتر تعلیم دینے کیلئے مالی طور پر مستحکم ہو نا ضروری ہے۔یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ پاکستان میں جن کے بچے نہیں ہیں(اور جو پہلے سے لوئر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں) مالی طور پر غیر مستحکم ہیں لیکن آگاہی نہ ہو نے کی وجہ سے بھی فیملی پلاننگ(خاندانی منصوبہ بندی) نہیں کی جاتی، پروٹیکشن کے زر یعے فیملی پلاننگ لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے دیتی ہے کے بچے پیدا ہوں یا نہ ہوں کب ہوں اور کتنے ہوں لیکن بچے پلاننگ کے بغیر ہی ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بیرونی مسائل میں بھی اضافہ ہو تا ہے۔غربت میں کمی نہیں آتی، کم تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ زیادہ آبادی کا ہو نا ہے۔
‎ محکمہ پاپولیشن ویلیفئر کے تجر بہ کا ر ڈاکٹرز اور عملہ مدد اور آگاہی کیلئے ہوم ویزٹ جب کرتے ہیں تو ان سے ملنے کیلئے اکثریت انکار کردیتی ہے۔ اکثر خاندان والے اور لوگ اس موضع کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں جو کہ ڈاکٹرز کی مدد لینے سے انکار کا باعث بنتی ہے۔

‎۔بچوں کی نہیں بلکہ بچوں کی پروش کی خواہش کو اہمیت دینی چاہئیے- کم بچے اور ان کی اچھی پروش اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ان کے پاس معیاری تعلیم ہو تاکہ وہ ایک بہترین زندگی گزار سکیں۔بیشک یورپ میں پلاننگ عام ہے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ بچے ہونے سے پہلے پلاننگ یقینا اہم ہے، ہر کام پلیںن کیا نہیں جا سکتا، بہت سے کپلز(جوڑے) یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ایک عمر کے ہو کر ان کے ایک ،دو یا پھر تین بچے ہونگے لیکن اتنی زیادہ پلاننگ اپنے مطابق کرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ جب وہ ماں پاب بننا چاہیں تو قدرت ان کا ساتھ دے ۔پلاننگ بے حد ضروری ہے لیکن جو پلان نہیں کیا جاسکتا اسے بغیر کسی خوف یا مایوسی کے خود سے ہونے دینا بھی اہم ہے۔میں آخر میں اس غزل کے ساتھ اپنے کالم کا اختتام کررہی ہوں۔
‎ حوصلہ میراث ہے انسان کی
‎اک انوکھا ڈر بھی ہے انسان کا
‎ہر محبت اندھی ہوتی ہے مگر
‎دل پرکھنا پھر بھی ہے انسان کا
‎جسم اور روح ساتھ چلتے ہیں مگر
‎روشن ضمیری گر بھی ہے انسان کا
‎ہر نئی امید پر دھڑکے یہ دل
‎الجھنوں میں گھر بھی ہے انسان کا
‎خشک پتوں کو بھی دیکھے ہے ہرا
‎ذہن بازی گر بھی ہے انسان کا
‎کب محبت کو میں سمجھی ہوں غزل
‎یہ تو دردِ سر بھی ہے انسان کا
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes