ا نجمن فروغ اردو ادب کا ایک اور یادگار مشاعرہ : ندا فاضلی اور امجد اسلام امجد کی خصوصی شرکت

Published on July 5, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 1,199)      No Comments

Nida Amjid...
کویت سٹی( عبدالشکورابی حسن)انجمن فروغ اردو ادب کے صدر عبداﷲ عباسی نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے مقامی ہوٹل میں ایک بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا جس میں عہدِ حاضر میں اردو کے دو عظیم شعراء ندا فاضلی اور امجد اسلام امجد نے کویت میں اردو کے چاہنے والوں کو اپنے کلام سے محظوظ کیا۔ پروگرام کے ابتدائی حصہ کی کمپیئرنگ افروز عالم نے کی جبکہ بقیہ حصہ کی نظامت کے فرائض مہمان شاعر عزیز نبیل نے اپنے مخصوص انداز سے انجام دیئے۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت انٹرنیشنل سکول خیطان میں چھٹی جماعت کے طالب علم محمد علی حسن نے حاصل کی۔ حمد و نعت پیش کرنے کا شرف محترمہ روبیلہ عادل نے حاصل کیا۔
میرے مولا کرم ہو کرم
تجھ سے فریاد کرتے ہیں ہم
پیام لائی ہے بادِ صبا مدینے سے
رحمتوں کی اٹھی ہے گھٹا مدینے سے
شمع فروزاں کرنے کی رسم ادا کی گئی۔ سفارتخانہ پاکستان کے چارج ڈی افیئرز محمد حسن وزیر کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، مہمان شعراء عزیز نبیل، الطاف رانا، ندا فاضلی کو اسٹیج پر براجمان ہونے کی دعوت دی گئی۔ تالیوں کو گونج میں اردو کے عظیم شاعر امجد اسلام امجد کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ تقریب کے میزبان عبداﷲ عباسی نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ آپ لوگوں کا ساتھ میرے ساتھ رہا تو ہر جمعہ ایسی محافل منعق کر سکتا ہوں۔ اردو ادب سے محبت کرنے والے بے شمار لوگ کویت میں موجود ہیں۔ عالمی مشاعرہ جسے ’’ایک شام اردو ادب کے نام‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے، کے انعقاد میں جن لوگوں نے بھی تعاون کیا، وہ ان کے بے حد ممنون ہیں، سب سے پہلے اردو ادب کی خدمت پر عزیز نبیل، الطاف رانا، امجد اسلام امجد کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ یو ایس ٹیکسٹائلز کی جانب سے چارج ڈی افیئرز حسن وزیر کو شیلڈ پیش کی گئی۔ حافظ محمد شبیر اور محمد عارف کی طرف سے ندا فاضلی، امجد اسلام امجد اور عبداﷲ عباسی کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ ڈاکٹر صالحہ جواد موسیٰ کا ہال میں آمد پر پرتپاک استقبال کیا گیا، انڈیا سے آنے والے صاحب قلم طارق فیضی نے عبداﷲعباسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اتنی شاندار تقریب منعقد کرنے پر وہ عبداﷲ عباسی کے شکر گزار ہیں۔ قطر سے آنے والے شاعر عزیز نبیل کو نظامت کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اردو سے محبت کرنے والوں کو میرا سلام، ان کے اشعار دلوں پر اثر کر گئے، نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
یہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو
اس پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
تقریب کے آغاز میں مہمان شعراء کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی، نمونہ نذر قارئین ہے۔
خالد سجاد
ضعیفی اسی لئے مجھ کو سہانی لگتی ہے
اسے کمانے میں پوری جوانی لگتی ہے
زمیں کی خاک تو بکتی ہے کاغذات پہ اور
بشر کی خاک کی بولی زبانی لگتی ہے
افروز عالم
کشتیوں سے اتر نہ جائیں کہیں
لوگ طوفاں سے ڈر نہ جائیں کہیں
زندگی ہے کہ آگ کا دریا
شدت غم سے مر نہ جائیں کہیں
ڈاکٹر منظر عالم منظر
سکونِ زندگی کو میں سزا کی صف میں رکھتا ہوں
کہ میں شمع جلاتا ہوں ہوا کی صف میں رکھتا ہوں

شاہجہاں جعفری حجاب
(بیوی کی فریاد پردیسی شوہر سے)
سفر میں تھک گئی ہوں چلتے چلتے
شمع بجھنے کو جلتے جلتے
خدارا اب مجھے آرام دے دو
میں مٹی ہو رہی ہوں گلتے گلتے
محترمہ شاہجہاں جعفری کے بعد مہمان شعراء کو باری باری مائیک پر بلایا گیا، سب سے پہلے عزیز نبیل نے اپنا کلام پیش کیا۔
سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں
ضرورت آپڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں
میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو
وہی سب کچھ ہمارے دشمن جانی بھی کرتے ہیں
الطاف رانا (بحرین سے آنے والے)
گم اپنے میں ہوں ذات کی وسعت میں نہاں ہوں
اے بے خودی اب تو ہی بتا دے میں کہاں ہوں
اخلاص کے سکے میں مجھے مفت خریدو
ہر دوسرے سکے میں تو مہنگا ہوں گراں ہوں
*
خود ہی ساقی نہ جب تک سنبھالے
پینے والا سنبھلتا نہیں
دل بجھ گیا رانا روتے روتے
شعلہ پانی میں جلتا نہیں
تالیوں کی گونج میں عالمی شہرت یافتہ شاعر ندا فاضلی کو مائیک پر بلایا گیا جو بالی ووڈ کے فلمی گیتوں کے حوالہ سے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی رات بڑی نیک نام، گلفام اور خوش کلام ہے، یہ اردو شاعری کے احترام کی رات ہے جہاں ایسی شاعری کا احترام کیا جاتا ہے وہاں دل سے کام لیا جاتا ہے، دل سے دل کو سلام کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں اردو شاعری نے آنکھ کھولی، حضرت امیر خسرو کی شاعری مشترکہ تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔
سیدھا سادا ڈاکیا جادو کرنے یہاں
اور ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
*
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
*
کل رات کچھ ایسا ہوا
اب کیا کہوں کیسا ہوا
میرا بدن بستر پہ تھا
میں چل رہا تھا چاند پر
*
ہوش والوں کو خبر کیا ہے ہوشیاری کیا

یہ دل کٹیا ہے سنتوں کی یہاں راج کیا بھکاری کیا؟
ندا فاضلی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرحدیں زمین پر بنتی ہیں دلوں پر نہیں، آپ دیکھ لیں آج ندا فاضلی کے ساتھ امجد اسلام امجد مشاعرہ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کلام پیش کرتے ہوئے کہا
ہمارا میر جی سے متفق ہونا ہے ناممکن ناممکن ناممکن
اٹھانا ہے پتھر عشق کا تو ہلکا کیا بھاری کیا
انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے انتقال پر لکھے اشعار بھی پیش کئے
تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا وہ جھوٹا وہ جھوٹا تھا
*
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اﷲ نگہباں یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہندو بھی مزے میں مسلمان بھی مزے میں
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی
*
کراچی ایک ماں ہے ممبئی ایک بچھڑا ہوا بیٹا
یہ رشتہ آج تک کوئی توڑ سکا ہے نہ توڑے گا
یہ اشعار انہوں نے اس تناظر میں پیش کئے کہ ان کی والدہ کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ آزادی کے بعد بھی کراچی میں ہی مقیم رہیں۔ ندا فاضلی کا پراثر محبتوں بھرا کلام سننے کے بعد شرکاء کو اردو کے عظیم شاعر امجد اسلام امجد کا انتظار تھا، انہوں نے کہا کہ وہ پہلے بھی کویت آچکے ہیں، یہاں کے مکین بڑی محبت کرنے والے اور اردو شاعری کو سمجھنے والے ہیں۔ انہوں نے شرکاء کی فرمائش پر بھی اشعار سنائے۔
مجھے فطرت کے حسن بے نہایت سے محبت ہے
کہ میں خود اس کا حصہ ہوں حصہ ہوں
اسی کی بے کناری میں مجھے حیران رہنے دو
مجھے روبوٹ بننے سے بڑا خوف آتا ہے

مجھے یہاں رہنے دو مجھے انسان رہنے دو
انہوں نے اپنی نظم Self made بھی پیش کی جو انہوں نے دس سال پہلے بھی کویت کے سامعین کو سنائی تھی۔
فصلِ گل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج دیر سے نکلتا ہے
امجد اسلام امجد نے مشہور غزل کے اشعار شرکاء کی فرمائش پر پیش کئے۔
کہاں آ کے رکے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
*
ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خواب پرانے ہو جاتے ہیں
*
اگر کبھی میری یاد آئے تو
چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
انجمن فروغ اردو ادب کی طرف سے امسال اردو ادب کا ایوارڈ منفرد طرز کے شاعر خالد سجاد کو دیا گیا۔ دریں اثناء سٹار ملک جو پاک انڈیا دوستی کے لئے اپنی گاڑی پر دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کر رہے ہیں، تقریب میں آمد پر خوش آمدید کہا گیا، وہ ائرپورٹ سے سدھے تقریب میں پہنچے تھے، مہمان خصوصی ڈاکٹر صالحہ جواد موسیٰ نے شاندار تقریب کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی، انہوں نے کہا کہ کویت کی سرزمین پر ایسی تقاریب بہت کم ہوتی ہیں۔ کویت میں اردو کے فروغ کے لئے عبداﷲ عباسی قابل قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ مہمانان کو کھانا پروگرام شروع ہونے سے پہلے پیش کر دیا گیا تھا، آخر میں شرکاء مہمانان کے ساتھ تصاویر
بنواتے رہے، اس طرح یہ تقریب کئی خوشگوار یادیں لئے اختتام کو پہنچی۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes