ظالم جادوگر کی جان کس میں ہے ۔۔۔؟

Published on September 30, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 645)      No Comments

Junaid
صدیوں پہلے کی کہانی ہے، ایک جادوگر بہت ظالم تھا ۔ اس کے ظلم سے حکمران اور عوام تنگ تھے ۔ جادوگر اس قدر طاقتور تھا کہ بڑے بڑے سورما اس کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں ۔ حکومت اور عوام کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوئے اور ظالم جادوگر کو شکست دینے کے لئے سوچنے لگے ۔ لیکن کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ کس طرح اس ظالم جادوگر سے نجات حاصل کی جائے ،اجلاس میں ایک عمر رسیدہ رہنما بھی موجود تھا ۔ اس نے بتایا کہ دور پہاڑ کی چوٹی پر ایک بزرگ کی جھونپڑی ہے ۔ یہ ولی صفت بزرگ ہر وقت اﷲ کی یاد میں مشغول رہتا ہے ۔ ہم اپنے معزز رہنماؤں کا وفد اس کے پاس بھیجتے ہیں ۔ شاید وہ اس مشکل سے نجات کا کوئی راستہ بتائے ۔ سب نے اس عمر رسیدہ رہنما کی بات پر سر ہلایا ۔ فوری طور پر معززین کا چار رکنی وفد تشکیل دیا گیا اور وہ پہاڑ کی چوٹی پر بزرگ سے ملنے کے لئے روانہ ہوا ۔ کئی سو میل مسافت طے کرکے یہ لوگ بزرگ کے جھونپڑے کے پاس پہنچے تو وہاں ہر طرف ہریالی تھی اور چرند پرند کی آوازیں ماحول کو حسین بنارہی تھیں ، بزرگ نماز میں مشغول تھے ۔ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے وفد سے آنے کا مقصد دریافت کیا ۔ سب نے اپنی پریشانی انہیں بتائی، جس پر بزرگ نے کچھ دیر آنکھ بند کرکے سوچا اور پھر کہنے لگے کہ ظالم جادوگر کی ہلاکت بہت مشکل ہے ، کیونکہ اس کی جان ایک طوطے میں ہے ۔ جب تک اس طوطے کو پکڑ کر جادوگر کے سامنے ہلاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس کی ہلاکت نہیں ہوگی ۔ اور یہ کام شمالی پہاڑوں پر رہنے والا ایک نوجوان لکڑہارا ہی کرسکتا کیونکہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی کسی کا دل دکھایا ہے ۔ شمالی پہاڑوں کے اس سلسلے میں ہی ایک غار میں وہ طوطا ایک پنجرے میں بند ہے اور اس کی نگرانی جادوگر کی پیدا کردہ بلائیں کررہی ہیں ۔ بزرگ نے ایک تلوار وفد کو دی اور کہا کہ یہ تلوار اس نوجوان کو دینا اور وہ سب بلاؤں کو ختم کرکے طوطے کا پنجرہ لے آئے گا اور پھر یہ پنجرہ جادوگر کے سامنے لے جانا اوراس کے سامنے طوطے کو ہلاک کردینا یوں تمہیں اس جادوگر سے نجات حاصل ہوجائے گی ۔ بزرگ سے ملاقات کے بعد معززین کا وفد شمالی پہاڑوں میں پہنچا ، وہاں لکڑہارے سے ملاقات کی اور اسے قوم کو نجات دلانے کیلئے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ، نوجوان لکڑہارا تلوار لے کر طوطے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور پھر اس نے جادوگر کی تمام بلاؤں کو ختم کرکے طوطے کا پنجرہ حاصل کیا اور اسے لے کر جادوگر کے سامنے پہنچا اور اس کے سامنے اس نے طوطے کی گردن مروڑ کر جسم سے علیحدہ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بھی تڑپ تڑپ کر مر گیا اور یوں اس قوم کو ایک بزرگ کی بتائی ہوئی ترکیب سے ظالم جادوگر سے نجات مل گئی ۔
یہ کہانی شاید آپ نے بھی پڑھی ہو یا اپنی نانی یا دادی اماں سے سنی ہو ، لیکن کمپیوٹر کا دور ہے آج کی نسل کو نانی اماں یا دادی اماں سے کہانیاں سننے کی عادت نہیں اس لئے شاید انہوں نے یہ کہانی نہیں سنی تھی اور اس لئے نئی نسل نکل کھڑی ہوئی عمران خان کے دھرنے کیلئے گھروں سے ۔ عزم و ہمت اور حوصلہ تو تھا لیکن وہ راز عمران خان کے پاس بھی نہیں تھا اور نہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس کہ کس طرح ناانصافی پر مبنی معاشرے اور انصاف نہ کرنے والے حکمرانوں سے نجات حاصل کی جاسکے ۔ یوں ایک ماہ گزرجانے کے باوجود دھرنے اور تصادم بھی نواز حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔
نواز حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاج پر ایک مشترکہ الزام یہ لگایا جاتا رہا ہے کہ یہ لوگ قوم، ملک یا انصاف اور اصلاح معاشرہ یا تبدیلی معاشرہ کے لئے احتجاج نہیں کررہے ہیں ، بلکہ ان کا احتجاج اور دھرنوں کا مقصد غداری اور آئین کی پامالی کے مرتکب سابق جنرل اور صدر پرویز مشرف کو بچانا ہے ۔ پرویز مشرف اگرچہ اب فوجی وردی میں نہیں ۔ لیکن ان پر جو الزامات اور مقدمات ہیں وہ اس وقت کے ہیں جب وہ وردی میں تھے ، پاک آرمی کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی ۔ نواز شریف کے دل میں ذاتی انتقام تھا تو پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے مشرف وہ ٹارگٹ ہے جس پر تمام تر حقائق سے پردہ اٹھ جانے کے باوجود بے نظیر بھٹو کی شہادت کا الزام عائد کرکے اصلی قاتلوں کو بچانا مقصود ہے ۔ یعنی مقاصد الگ الگ لیکن دشمن مشترک ۔ تاہم وہ قوتیں جو جنہیں پاکستان کی مسلح افواج سے محبت ہے اور جو یہ سمجھتی آئی ہیں ، اس وقت پاک فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کی موجودگی حب الوطنی اور اتحاد کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے ۔ لہذا مشرف پر مقدمات اور الزامات کی بوچھاڑ کرنا دراصل پاکستان آرمی کو بدنام کرنا ہے ۔ کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی جنرل ضیاء الحق اور نواز لیگ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اپنی حکومتیں گنواچکی تھیں اور یہ زخم ان کے دل میں تازہ تھے ، لہذا ایک مرطوب حکمت عملی کے تحت پہلے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور اب پی پی اس کردار کو نبھارہی ہے اور اندرون خانہ دونوں ایک نہ ہونے کے باوجود ایک ہیں ۔ اور دونوں نے اپنے انتقام کے لئے پرویز مشرف کی شخصیت کو منتخب کیا تاکہ ان قوتوں کو پیغام دیا جاسکے جنہوں نے ان کی حکومتوں کو ختم کیا تھا یا ان کے رہنماؤں کو پھانسی کے تختہ تک پہنچایا تھا کہ ’’ انتقام بھلایا جاسکتا ہے بھولا نہیں جاتا ‘‘ ۔
یہ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتقام کی راہ پر گامزن ہیں ۔ دونوں نے اپنے اقتدار کے ایام میں وطن عزیز کی ظاہری خدمت کی لیکن باطنی خدمت نہیں کرسکے ، سڑک اور گاڑیاں چلائیں لیکن بجلی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے ، بلکہ قوم کو عذاب میں مبتلا رکھ کر اپنا کمیشن غیر ملکی اکاؤنٹس میں جمع کروایا ۔ صاف پانی قوم کو میسر نہیں ، لیکن ان دونوں پارٹی کی حکومت نے یہ مضر صحت پانی بھی عوام کی پہنچ سے دور کردیا ۔ صحت و تعلیم کے شعبوں پر فنڈز مختص کئے ، لیکن گئے کسی اور اکاؤنٹ میں ۔ یوں سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ، کسی نے عوام کی خدمت نہ کی ۔ اور شاید پی پی دور حکومت میں زرداری اور نواز کے کانوں میں عوام کا یہ احساس پہنچ گیا تھا کہ’’ اس دور حکومت سے بہتر تو مشرف کا دور تھا ، جب زندہ رہنا آسان تھا اب تو موت آسان اور زندگی مشکل ہوچکی ہے ‘‘۔ دونوں محسوس کیا کہ اگر عوام کا یہ احساس عوامی سوچ بن گئی تو مشرف دوبارہ اقتدار میں آئے گا اور پھر پائی پائی کا حساب ہوگا ۔ یوں مشرف کا راستہ روکنے کے لئے یہ دونوں جماعتیں ایک نکاتی ایجنڈا پر ایکدوسرے کے گناہوں پر پردہ ڈال کر جمہوریت کی بقاء اور سلامتی کا راگ الاپتی آرہی ہیں ۔ انہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے پس پردہ ’’ فوج کا ہاتھ ‘‘ محسوس ہورہا ہے تو عمران خان کے انقلاب میں بھی وہ ’’ فوجی بوٹوں کی آواز سن رہے ہیں ‘‘ ، اس لئے گھبرا کر چیخ پڑے کہ ان دھرنوں کا اسکرپٹ رائٹر کوئی اور ہے ۔ عوام سڑکوں پر ہیں ، سول سوسائٹی بھی خلاف ہے ، ظلم کی انتہا کردی گئی ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں جماعتیں محض ’’ جمہوریت کی علمبردار ‘‘ کے نام نہاد لقب کی ایما پر بین الاقوامی قوتوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں ۔ اب تو یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ دونوں ہی حکومتوں نے دھاندلی سے حاصل کامیابی کو بین الاقوامی میڈیا کی زبان نوٹوں سے بند کرکے اسے اپنی حقیقی کامیابی ثابت کیا تھا، لیکن اب وہ قوتیں بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس کامیابی کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔
لیکن کب تک آخر کوئی تو ایسا ہے جس کے پاس وہ راز ہوگا کہ ’’ جادوگر کی جان کس میں ہے ‘‘ اور شاید متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے وہ طوطا آخر تلاش کرلیا ہے ، اسی لئے انہوں نے شدت کے ساتھ پاک فوج کو بار بار مخاطب کرکے اپنی پارٹی کے خلاف ہونے والے 92ء آپریشن کو زندہ کیا ہے ۔ وہ اپنے بھائی اور بھتیجے کے قتل کا انصاف مانگ رہے ہیں ، وہ اپنے گمشدہ درجنوں کارکنوں کو تلاش کررہے ہیں ، وہ اپنے دفاتر سے غائب کیا جانے والا اثاثہ واپس کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ، وہ اپنی قوم پر لگے غداری کا داغ دھونے اور غداری کا الزام لگانے والوں کو کٹہرے میں لانے کی بات کررہے ہیں ۔ سوالات پاک فوج سے کئے جارہے ہیں ، لیکن سمجھ دار کے لئے اشارہ کافی ، سب سوالات کے جواب دیئے جائیں گے اور ملزم یا مجرم کا تعین ہوگا تو بس ایک ہی نام سامنے آئے گا ’’ نواز شریف ‘‘ یا ’’ نواز حکومت اور اس کے ذمہ داران ‘‘ ۔
بس اب اس کہانی کے انجام کے لئے تلاش ہے اس بہادر لکڑہارے کی ، جو ایماندار بھی ہے اور بہادر ، جس کے پاس ایمان کی تلوار بھی ہے ، جو ان تمام بلاؤں کا خاتمہ کرسکے جو برائی کے پیکر ظالم جادوگر کی جان جو ایک طوطے میں ہے کی حفاظت پر معمور ہیں ۔ الطاف حسین نے تو اس بہادر نوجوان کو جنرل راحیل شریف کی شکل میں تلاش کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کب قوم اور وطن کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog