نئے صوبے ضروری

Published on November 24, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 481)      No Comments

pic
تحریر ۔۔۔اصغر حیات
پاکستان میں ایک بار پھر نئے صوبوں کے حوالے سے گرما گرم بحث کاآغاز ہوگیا ہے۔ اس بار اس بحث کا نقطہ آغا ز،بلاول کی تقریر ہو، خورشید شاہ صاحب کابیان ہو ، یا پھر ایم کیو ایم کا سندھ حکومت سے علیحدہ ہوکر مہاجر صوبے کی تحریک اعلان ۔ ماضی کی طرح اس بار بھی یہ بحث ایک بے ہنگم طریقے سے شروع ہو ئی ہے ۔درحقیقت ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔معاملہ کتنا ہی سنجیدہ اور اہم نوعیت کا کیوں نہ ہو ، اس پر بحث اسی بے ہنگم طریقے سے شروع ہوتی ہے اور اسی طرح اختتام پذیر ہوتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ بحث نتیجے سے خالی رہتی ہے ۔ یہاں پر سیاسی جماعتیں ، قائدین اور لیڈران اپنے سیاسی مقا صد کے حصول کے لئے اس قسم کی بحث کا آغاز کرتے ہیں ۔
پاکستان میں نئے صوبوں کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے ۔مختلف ادوار میں ہزارہ صوبہ بہاولپور صوبہ چترال صوبہ سرائیکی صوبہ ملاکنڈ صوبہ اور مہاجر صوبہ،پوٹھوہار صوبہ بنانے کے حوالے سے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں اور آوازیں اٹھتیں رہی ہیں۔ان مطالبات میں شدت اس وقت آئی جب سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں آئین کی آٹھارویں ترمیم کے تحت تمام جماعتوں کی مشاورت سے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا۔جس پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ۔ہزارہ ڈویژن کے تینوں اہم شہروں ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور ہر ی پور میں عوام سڑکوں پر آگئے ۔اس دوران ہونے والے پر تشدد واقعات میں 8 افراد جان بحق ہوئے اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے، اور تشدد کی اس لہر نے پورے ہزارہ ڈویژن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ہڑتالوں اور مظاہروں کے باعث ہفتوں تک سکول ہسپتال اور بازار نہ کھل سکے ۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ عوامی رد عمل کے سامنے تمام لیڈران اور تمام سیاسی جماعتیں بے بس نظر آرہی تھیں۔کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی ڈوبتی ناؤ بچانے کے لئے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ شدت سے دہرایا۔ابھی اس حوالے سے صرف بحث کا ہی آغاز ہوا تھا کہ ایم کیو ایم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ہزارہ صوبہ اور سرائیکی صوبہ بنانے کی قرار داد قومی اسمبلی میں جمع کروا دی ۔گو ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ہزارہ اور سرائیکی بیلٹ میں نہ ہونے کے برابرہے لیکن قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کر کے پارٹی نے اہم سیاسی چال چلی تاکہ مستقبل قریب میں مہاجر صوبے کے لئے راہ ہموار کی جاسکے۔
خیر اس دوران جب اُ س وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سرائیکی صوبہ بنا نے کا اعلان کیا تو اسے جنوبی پنجاب میں بہت پذیرائی ملی اور دو ہفتے کے اندر ہی سیاسی میدان میں ہونے والے معرکے میں حیران کُن نتائج سامنے آئے ،جب پیپلز پارٹی نے ملتان میں ہونے والا ضمنی الیکشن کا معرکہ جیت لیا ۔ یہ تیس سال میں پہلا موقع تھا جب پیپلز پارٹی اس نشست پر کامیاب ہوئی تھی۔یہ حیران کُن نتائج دیکھ کر پیپلز پارٹی کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور انہوں نے قومی اسمبلی سے سرائیکی صوبہ بنانے کی قرار داد بھی منظور کر لی ۔بلکہ سپیکر قومی اسمبلی فہیمدہ مرزا نے بغیر دیر کیے نئے صوبوں کے قیام کے لئے 14 رکنی کمیشن بھی تشکیل دے دیا۔یہ وہ وقت تھا کہ نئے صوبوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔یوں لگ رہا تھا کہ ملک میں نئے صوبوں سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں ہے اور نئے صوبوں کے علاوہ حکومت کے تمام کا م ختم ہوگئے ہیں۔حکومت اتنی عجلت میں تھی کہ اسے کچھ سوجھائی دے رہا تھا کہ نئے صوبوں کے حوالے سے کمیشن کن کن افراد پر مشتمل ہو ؟ان کی اہلیت کیا ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔حکومت کو جلدی میں جو بھی ملا اٹھا کر کمیشن میں ڈل دیا ۔جن میں عالم ٖفاضل جمشید دستی صاحب بھی شامل تھے ۔جو کمیشن اس قدر عجلت میں بنا یا گیا ہو ، اس کی کا رگردگی کیا ہوسکتی ہے ۔
بڑھتی ہوئی آباد ی نے پوری دنیا کے ممالک کے لئے بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں۔ان مسائل کے حل کے لئے دنیا بھر میں عدم مرکزیت کا تصور فروغ پا رہا ہے ۔اس تصور کا تحت دنیا کے بہت سے ممالک نے چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹ قائم کر کے انہیں فیصلہ سازی اور منصوبہ سازی میں خود مختاری دی ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نے ان ممالک کو درپیش بہت سے مسائل سے چھٹکا را دلا یا ہے اور اب یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔جاپان کی آبادی 12 کروڑ ہے جبکہ اس نے 47 انتظامی یونٹ قائم کررکھے ہیں، فرانس کی کل آبادی ساڑھے 6 کروڑ ہے جبکہ اس کے صوبوں کی تعداد22 ہے۔جرمنی کی آبادی 8 کروڑ ہے جبکہ اس کے 16 صوبے ہیں۔کنیڈا کی آبادی صرف 3 کروڑ ہے جبکہ اس کے صوبوں کی تعداد 10 ہے، اسی طرح سپین کی کل آبادی 5 کروڑ ہے اور اس کے صوبوں کی تعداد پچاس ہے۔اسی طرح اگر اپنے پڑوس پر نظر دوڑائیں تو آزادی کے وقت بھارت کے کل 6 صوبے تھے جو آج بڑھ کر 36ہوگئے ہیں۔افعانستان کی آبادی تین کروڑ ہے جبکہ یہاں 34 صوبے قائم ہوچکے ہیں ۔ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے جبکہ صوبوں کی تعداد 23 ہے، ایران کی آبا دی 8 کروڑ ہے اور اس کے 31 صوبے ہیں۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے خطے میں مسائل کے حل کے لئے کتنے غیر سنجیدہ ہیں اور خطے کے باقی ممالک اس دوڑ میں کتنے آگے نکل گئے ہیں۔قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی تین لاکھ تھی جو آج بڑھ کر دو کروڑ ہو چکی ہے ۔ دنیا کے کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی کراچی سے کم ہے اور ان کے بیسوں انتظامی یونٹ بھی موجود ہیں۔یونان ( ایک کروڑ آبادی ) 73 صوبے،چلی ( ڈیڑھ کروڑ آبادی) 54 صوبے،مالدیپ (چارلاکھ آبادی)20 صوبے ،ارمینا ( تیس لا کھ آبادی) 11 صوبے،بولیویا ( ڈیڑھ کروڑ آبادی)100 صوبے،بلغاریہ ( ستر لاکھ آبادی) 28 صوبے،فجی ( 9 لاکھ آبادی ) 14 صوبے۔کچھ لوگ پاکستان میں 25 سے 30 صوبے بنانے کی بات کرتے ہیں۔پاکستان میں ڈویژن کی سطح پر تقسیم موجو د ہے ۔ لیکن انہیں فیصلہ ساز ی اور منصوبہ ساز ی کا اختیار نہیں ہے ۔اگر انہیں فیصلہ سازی کا اختیار دے کر صوبے بنا دیا جائے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ڈویژن کی سطح کو اگر صوبہ بنا دیا جائے تو پنجاب میں 9 صوبے (بہاولپور،ڈیرہ غازی خان ،فیصل آباد،گجرنوالہ ،لاہور،ملتان ، راولپنڈی ، سرگودھا،ساہیوال )،سندھ میں 5 صوبے (کراچی ،حیدر آباد ، لاڑکانہ ،میرپور خاص ،سکھر)خیبر پختونخوا میں 7 (بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان،ہزارہ،کوہاٹ،مالاکنڈ، مردان،پشاور)،جبکہ بلو چستان میں 6 صوبے ( قلات،مکران،نصیر آباد،کوئٹہ ،سبی ،ژوب ) وجود میں آئیں گے ۔یوں پورے پاکستان میں27 صوبے وجود میں آئیں گے ، ان صوبوں میں آزادکشمیر ، گلگت بلتستان اور فاٹاشامل نہیں ہیں۔این ایف سی ایواڈز کا فارمولا اگر ان چھوٹے انتظامی یونٹس پر لگا کر دیکھا جائے تو پنجاب میں ضلعی حکومتوں کو ملنے والے مالی وسائل170 فی صد بڑھ جائیں گے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ کراچی ہوگا ۔کراچی بندرگا ہ اور معاشی سرگرمیو ں کے باعث اس کی حیثیت ممتا ز رہے گی ۔بلوچستان میں گواردر پورٹ کے باعث بننے والا صوبہ مکران بھی امتیازی حیثیت کا حامل رہے گا ۔گواردر پو رٹ کی ڈویلپمنٹ مکمل ہونے کے بعد اس صوبے کا شمار دنیا کے امیر صوبوں میں ہوگا۔پنجاب کا ضلع رحیم یار خان پورے سندھ کے برابر گندم پیدا کرتا ہے اس کی اہمیت کے باعث صوبہ بہاولپو ر کا شمار بھی ملک کے امیر ترین صوبوں میں ہوگا۔کے پی کے کا صوبہ ہری پور بھی تربیلا ڈیم اور سونے کے بے شمار ذخائر کے با عث امیر صوبہ بن جائے گا ۔تھر میں ملکی کوئلے کے 80 فیصد ذخائر کے باعث مجوزہ صوبہ میر پو رخاص بھی امیر ترین یونٹ بن کر ابھرے گا۔ضلع گھوٹکی میں قادر پو ر گیس فیلڈ کے باعث صوبہ سکھر بھی اپنی محرومیوں سے آگے نکل جائے گا۔14 ارب ڈالر کے ماربل اور زمرد کے ذخائر اور نئے پن بجلی کے منصوبوں کے باعث مجوزہ صوبہ مالاکنڈ کا شمار بھی امیر ترین صوبوں میں ہوگا۔پنجاب کا مجوزہ صوبہ گجرنوالہ تین ارب ڈالر کے سالانہ بناسپتی چاول پیدا کرنے کی وجہ سے امیر ترین ہوگا ۔ سب سے اہم صوبہ کوئٹہ ہوگا معدنی وسائل سے مالامال اور علاقائی اعتبار سے اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ یہاں سونے، چاندی، تانبے، سنگ مرمر اور کرومائیٹ کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت125 ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ان سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔یوں چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹ بننے کے باعث بہت سے علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع ہو جائے گا ۔بہت بڑی آبادی کے علاقوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی ۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آرڈبلیو)کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پچیاسی فیصد شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں بسنے والے بیاسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ آڑھا ئی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔WHO کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48 فیصد آبادی صحت اور صفائی کی سہولیات سے محروم ہے ۔ان تما م مسائل پر قابو پانے کے لئے چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹ انتہا ئی ناگزیر ہیں۔لیکن ان انتظامی یونٹس کے قیام میں بے شمار مشکلا ت حاہل ہیں۔خا ص طور پر ایسا معاشرہ جہاں جذباتیت اور جنونیت عروج پر ہو ،لوگ فر قے ، برادری ، علاقے اور زبان کے نام پر مرنے مارنے کے لئے تیا ر ہو جاتے ہوں۔جہاں ہر چھوٹی سی بات پر خونی تنازعا ت کھڑے کر دیے جاتے ہوں ۔لاشیں گرنے میں دیر نہ لگتی ہو ۔ وہاں پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھا نے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ماضی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ صرف ایک صوبے کا تبدیل ہونے پرتشدد کی لہر نے ایک پورے ڈویژن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔نئے صوبے بنانے کے حوالے سے ہم اوس پڑوس کی مثالیں تو دیتے ہیں۔بھارت میں اگر 6سے 36 صوبے بنے ہیں تو ان کے سیاستدانوں کا رویہ انتہائی مہذبانہ تھا۔دنیا کے جن جن ممالک میں نئے صوبے بنے ہیں وہاں کے ہما رے حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔وہاں سیاستدانوں ، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کا رویہ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ صوبوں کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کریں۔اگر لسانی بنیادوں پر صوبے بنا ئے گئے تو ملک میں تشدد اور بے چینی پھیلنے کا خطرہ ہے ۔یہ ایک یک قومی نہیں بلکہ کثیر القومی ریاست ہے۔یہاں بڑی قومیتوں کے ساتھ ساتھ نسلی اقلیتیں بھی آبا د ہیں۔اگر قومیتوں کی بنیا د پر صوبے بنے تو پھر نسلی اقلیتوں کا استحصال شروع ہوسکتا ہے۔ایسی صورت میں یہ نسلی اقلیتیں بھی اپنے لئے ایک الگ صوبے کا مطالبہ کریں گی ۔ ہمارے سیاستدان اصل مسائل کا ادراک اور ان کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے چنانچہ وہ مزید الجھنوں کا سبب بن رہے ہیں جن سے یہ مسائل اور پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔زرداری صاحب کے دور میں ہونے والی تما م تر کو ششیں سیاسی تھیں اور صوبوں کا نعرہ لگا کر سیاسی فوائد حاصل کر نے کی کو شش کی گئی ۔ایک غیر سنجیدہ کمیشن بنا یا گیا جس نے سیاسی وابستگیوں کی بنیا د پر فیصلے لینے کی کو شش کی ۔سرائیکی صوبے میں پنجاب ، سندھ ، کے پی کے او ر بلوچستان کے سرائیکی علاقوں کو شامل کیا جانا تھا لیکن کمیشن نے اراکین نے سندھ کے علاقوں کے بارے میں ذکر گول کردیا ۔ ایسی صورت میں اگر سرائیکی صوبہ بنایا بھی جاتا تو کیا باقی صوبے اسے تسلیم کرتے ۔پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام میں بے شما ر پیچیدگیاں موجودہیں۔یہاں گزشہ 16 سالوں سے مردم شماری نہیں ہوئی ۔اصولی طور پر مردم شماری ہر دس سال بعد ہونا ضروری ہے ۔جس کے باعث نئی حلقہ بندیوں کا عمل بھی رکا ہوا ہے ۔ملک کے ایک حلقے میں امیدوار دو لاکھ سے زیائد ووٹ کے کر کامیا ب ہوتا ہے تو ایک حلقے میں چند سو ووٹ لے کر کامیا ب ہوتا ہے ۔نئے صوبوں کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ شفاف قومی کمیشن بنایا جائے۔جس میں سیاسی وابستگیوں سے پاک سنجیدہ لوگوں کو ذمہ داریاں دی جائیں ۔جو ایسا فارمولا تشکیل دیے جسے پورے ملک کے لئے یکساں طور پرلا گو کیا جاسکے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme