سولہ دسمبر اور ضمیر کے قیدی

Published on December 16, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 636)      No Comments

faiz final pic تحریر : فیض خان 
16دسمبر اسلامی مما لک کا وہ سیاہ ترین دن جب بین الاقوامی سازش کے تحت دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک پاکستان کو دو حصوں میں تقسم کر دیا گیاوہ اسلامی مملکت جس کے حصول کے لئے بر صغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں سروں کا نذرانہ پیش کیا ،ہزاروں ماؤں اور بہنوں کی عزت پامال ہوئیں،معصوم بچوں کو نوک نیزا پر بلند کیا گیا،ہزاروں کڑیل جوانوں کے سینوں کو سنسناتی گولیوں سے بھونا گیاالغرض آہ و بقاء کی وہ داستان جو وادی کربلا میں پیش آئی دھرائی گئی جس کے نتیجے مین ارض پاک کوہندو بنئے اور ان کے ہندو نواز گماشوں نے دو حصوں میں بانٹ کر اقوام عالم کے سامنے دو قومی نظرئیہ کودفن کرنے کی حتمی جسارت کی ور دنیا کے نقشے سے مشرقی پاکستان کے نام کو مٹا کر بنگلہ دیش لکھ دیا گیا اور اس طرح پاکستان 16دسمبر 1971کو اپنے ایک بازو سے محروم کردیا گیا ۔اس بات سے قطع نظر کہ اس سازش میں کون کون ملوث تھا یہ بات ہر ذی شعور پر عیاں ہوچکی ہے کہ اس جرم میں صرف عالمی طاقت ،بھارتی حکومت یا ہندو نواز بنگالی ملوث نہیں تھے بلکہ ہمارے اپنے بھی برابر کے شریک تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی حمود الرحمن کمیشن کیس کو سرکاری سطح پر اوپن نہیں کیا گیا ہے جو کہ اپنی جگہ الگ سیاہ داستان ہے۔آج کے دن کی مناسبت سے کچھ اس لئے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہماری وہ پود جو درسی کتابوں ،اخبار ات،رسائل اور الیکٹرونک میڈیا بالخصوص ٹی وی ڈراموں اور سلور اسکرین کے ذریعے قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد پیش آنے والے حالات و واقعات سے تو کسی حد تک واقف ہیں مگر صد افسوس ملک کے دو لخت ہونے سے پہلے اور دو لخت ہوجانے کے بعد وطن کے نام پرموجودہ دنیا کی سب سے بڑی اور بھاری قربانی دینے والوں اور ان کی لواحقین و متعلقین سے بالکل نا آشنا ہیں ،قوم کے آنے والی نسل کو اس قومی سانحے سے بے خبر رکھنے والے جہاں پاکستان کا حکمراں طبقہ ہے وہاں اس سانحے سے چشم پوشی کرنے والوں میں ہمارے ادیب،مصنف،صحافی،پرنٹ میڈیا و الیکٹرانکس میڈیا سمیت ہم جیسے متعلقین بھی ہیں،ہمارے وہ سیاسی رہنماء و سیاسی جماعتیں جواپنے اغراض و مقاصد میں منتقلی کو سر فہرست دکھا کر عرصہ دراز تک محصورین کے نام پر ووٹ حاصل کرتے رہے،ان کی اولادوں کو کراچی کی سڑکوں پر دوڑا کر سیاسی مفادات سمیٹتے رہے اور پاکستان میں موجود پاکستان کے لئے ایک ہی نسل میں تیسری بار قربانی دینے والوں ،انکی اولادوں اور سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش کے 66کیمپوں میں آج بھی پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے والے تقریبا ڈھائی لاکھ محب وطن پاکستانی کوکو ان کا جائز حق دلوانے میں لعل و لیت سے کام لیتے رہے ہیں ،آج ہم بد قسمتی سے نا صرف انہیں فراموش کر چکے ہیں بلکہ اسیاسی اغراض و مقاصد کے کتابچوں سے بھی نکال چکے ہیں۔لیکن میرا مقصد فقط ان چند الفاط کی ادائیگی سے اختتام پذیر نہیں ہوتا میرا اصل مقصد وہ بات عام قاری تک پہنچانا ہے جس سے عمومی پاکستانی نا آشنا ہیں،میرا اصل مقصد ان محب وطن پاکستانیوں پر بات کی جائے جنہوں نے اور جن کی اولادوں اور جنکے متعلقین نے 1971میں مشرقی پاکستان میں فقط دو قومی نظرئیہ کو استحکام بخشنے کے لئے تاریخ کی بڑی قربانی پیش کی اور اس جرم وفا پر بنگلہ دیش کے 66کیمپوں پر محبوس کر دیے گئے ،جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا انسانی حقوْق کی پامالی کی گئی انہیں 8×8فٹ کی کھولیوں میں زندگی کے ایام گذارنے پر مجبور کیا گیا مگر صد افسوس عالمی انسانی حقوق کے چمپئن اور بالخصوص پاکستان کے حکمراں و سیاسی جماعتوں نے زبانی جمع خرچ کے علاواہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ماسوائے چند محب وطن اور انسان دوست شخصیات جنکی ذاتی کاوشوں سے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے تعاون سے محصورین کی منتقلی عمل میں آئی اس کار خیر میں لارڈ اینل ، ڈاکٹر ایس حسنین شریف اور حسن امام رضوی کے نام سر فہرست ہیں ،محصورین کی پاکستان منتقلی سب سے پہلے 1977 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںآئی جب ایک لاکھ 69ہزار محصورین کو پاکستان لایا گیا، بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں محصورین کو پاکستان لانے والے ہوائی جہاز کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جہاز میں سوار مسافروں کو زمین پر اترنے کی اجازت نا ملنے پر بہت سے وطن سے محبت کے جنون میں مبتلاء افراد سمندر میں کود گئے ان میں سے کچھ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے اور بہت ہلاک ہوگئے،جنرل ضیائالحق نے 1984میں مذید تین لاکھ محصورین کی منتقلی پر رضامندی ظاہر کی اور رابطہ عالمی اسلامی ورلڈ لیگ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور ان کی آباد کاری کے لئے آباد کاری کا فنڈ قائم کیا گیا اور دسمبر 1985میں صدر ضیائالحق نے پہلی بار جنیوا کیمپ کا سرکاری دورہ کیا اور محصورین کو واپس لانے کا وعدہ کیا لیکن پھروعدے سے مکر گئے اور بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ایک فوجی آرڈی نینس کے ذریعے محصورین کی منتقلی کے راستے کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس غیر قانونی اور غیر انسانی قانون کا عدالت میں چیلنج کیا جاتا مگر وائے افسوس کہ ایسی کوئی تدبیر کہیں دیکھنے میں نہیں آئی اسی طرح اپریل 1988بے نظیر بھٹونے جلا وطنی کے بعد ملک واپسی کے بعد محصورین کو پاکستان لانے اور شہریت دینے کا وعدہ کیا مگر 1988میں اقتدار میں آنے بعد محصورین کو وآپس لانے سے انکار کردیااسی طرح 1990میں نواز شریف اقتدار میں آنے کے بعد محصورین کو لانے اور پنجاب میں بسانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور انکی آباد کاری کیلئے فلیٹ کی تیاری شروع کردی گئی مگرسب سے قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس کار خیر میں سب سے زیادہ متحرک شخصیت وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائن کو نامعلوم افراد کی جانب سے موت کے گھاٹ اتار کر منتقلی کے باب کو بند کرنے کی کوشش کی گئی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے مگر اب جبکہ 2014اختتام پذیر ہے بنگلہ دیش میں محصورمحب وطن پاکستانی کی تیسری نسل جنہیں عالمی سطح پرضمیر کا قیدی قرار دیا گیا کی نگاہیں وطن سے محبت کا دعوی کرنے والوں سے پوچھ رہی ہیں کہ جرم وفا کی سزا آخر کب تک؟
ایک سوال جو اکثر ہم جیسے بھولے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ محصورین کو پاکستان میں کیوں نہیں بسایا گیا اس ضمن میں بعض خود ساختہ سیاسی سیانوں کا موقف ہے کہ محصورین پاکستان آنے کے بعد ہر حال میں کراچی کا رخ کرتے اس طرح سند ھ میں مہاجروں اور پرانے سندھی آبادی کا تناسب بگڑ جاتا جو کہ سراسر مفروضوں پر مبنی ہے کیو نکہ آج بھی ملک کے تمام شہروں میں محصورین کی اولادیں اور انکے متعلقین آباد ہیں اور اس شہر کی ترقی و کامرانی میں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں ،آج بھی اسلام آباد،راوالپنڈی،گوجرانوالہ،ملتان،لاہور،فیصل آباد،اوکاڑا،سمیت صوبہ خیبر پختونخوااور صوبہ بلوچستان میں محصورین آباد ہیں اور مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ مدضم ہوچکی ہے ،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ کے چند ناعاقبت اندیشوں کا مفروضوں پر مبنی اندیشہ بے معنی اور نسلی تعصب کی سڑاند سے کم نہیں تو اور کیا ہے؟

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme