پاکستان کے مسائل پہلے کم ہیں؟

Published on April 2, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 483)      No Comments

logoq
سعودی عرب سے ملحقہ مملکت جو ایک مسلم ملک ہے اس کانام یمن ہے اور اس کے اور سعودی عرب کے درمیان بارڈر بہت وسیع وعریض ہے یہ ایک پہاڑی علاقے کی طرح ہے بلکل ویسے ہی جیسے پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے کہ گھسپیٹیوں کے آنے جانے کا تدارک کرنا بے حد مشکل ہے سعودیہ کا قصبہ جازان بھی یمن کے ساتھ ہی لگتا ہے۔حوثی قبائل نے بغاوت کوئی آج نہیں کی بلکہ کافی عرصے سے بغاوتی جذبات ان کے ذہنوں میں پنپ رہے ہیں ۔ سعودی عرب اس وقت اس پلان پر کاربند ہے کہ’’ اقتدار کی بالادستی کے لیے کچھ بھی کرنا درست ہے‘‘ حالانکہ اس لاپرواہی کے تباہ کُن نتائج سامنے آتے ہیں سعودیہ عرب نے اس ضمن میں کہ ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے وہاں اپنا صدمقرر کروایا بقول حوثی قبائل ان کے حقوق سلب کئیے گئے جس کے پیشِ نظر بغاوتی گروہ نے وہاں کے صدر منصور ہادی سے جبراٌ زبردستی استعفیٰ لے لیا جس کی خبر جب سعودی فرمانروا تک جا پہنچی تو انہوں نے پہلے عالمی ممالک سے بات چیت کے بعدوہاں بمباری کا آغاز کردیا اور ہلاکتوں کی تعداد ان گنت ہوتی جارہی ہے پاکستان اس معاملے میں کہتا ہے کہ سعودی عرب کو اگر خطرہ لاحق ہوا تو مربوط اقدامات اٹھائیں گے تاہم فوج بھیجنے یا نہ بھیجے میں ابھی خاصا تضاد ہے اور دو رائے کا شکار پاکستانی سیاست دان شش وپنج میں گھِرے ہوئے ہیں اور اے پی سی بلانے کے مطالبات بھی کیے جارہے ہیں۔تاہم سعودی عرب نے پاکستان کا ہر بُرے وقت میں ساتھ دیا ہے لیکن ضروری نہیں کہ پاکستان سعودی حکومت کے ہر حکم کی تعمیل کرے سعودی فرمانروا کو اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن انہوں نے جو فیصلہ لیا ہے وہ انتہائی گھمبیر ہے اور سب کا ٹھیکیدار بننے والا امریکہ بھی سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے کچھ مسلمان ممالک بھی اس امر میں سعودیہ کی بربریت کو سپورٹ کر رہے ہیں ۔حوثی قبائل کو ایران کی قطعاٌ سپورٹ حاصل نہیں ہے یہ محض کچھ لوگ ہیں جو عجیب سی خبریں گردش میں لا رہے ہیں یہ جنگ یقیناًفرقہ واریت و تعصب کا پیش خیمہ نہیں ہے لیکن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مذہبی فسادات برپا ہورہے ہیں جبکہ صورتِحال مختلف ہے ۔کچھ علماء حضرات عجب منطق پیش کر کہ لوگوں کو مشتعل کرنے کے در پہ ہیں جو انتہائی غلط بات ہے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک آپسی چپقلش کو کیوں شدید تر کیے جارہے ہیں ؟ کیوں مسلم ممالک مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں؟ یمن کے پسماندہ علاقہ جات سے لے کر ائیرپورٹ تک کو فضائی بمباری سے اکھاڑ کر برباد کر کہ رکھ دیا گیا ہے اور زمینی راستے سے سعودی عرب نے فوج کو بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے خدشات تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امن سے دوری کرلی جائے اور خوامخواہ خانہ جنگی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا جائے۔پاکستانی نیوز چینلز پر یہ بحث ہر پروگرام میں ہی چھڑی رہتی ہے لیکن لاحاصل نتیجہ اور نقطہ نظر میں تضاد لوگوں کو حقیقت سے آشکار نہیں ہونے دیتا ۔ایران امریکا کے ساتھ معاہدات طے کررہا ہے اور لوگ تاثر لے رہے ہیں کہ ایران ہی ہے جس نے باغیوں کی حمایت کر کہ انہیں شے دی حالانکہ ایران کا اس سب میں کوئی کردار نہیں۔آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا بھی درست نہیں تاہم جو سعودیہ کر رہا ہے اس کی بھی حمایت نہیں کرتے۔زرداری صاحب بلکل ناپ تول کر بیان دیتے ہیں اور پہلے رہنما ہیں جنہوں نے اس ایشو پر تشویش کر کہ سب کو یکجا ہوکر سوچنے کا مشورہ دیامزید کہا کہ پاکستان کو امن کی بحالی میں کردار ادا کرنا چاہیے تمام فیصلہ سب کو اعتماد میں لے کر کیے جانے چاہیءں۔ 504محصور پاکستانی یمن کے الحدیدہ ائیرپورٹ سے وطن واپس لوٹ گئے تاہم سینکڑوں اب بھی کٹہن حالات میں پھنسے ہوئے ہیں پاکستان کے اعلیٰ حکام سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں خواجہ آصف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سعودیہ ہمارے بھائی ممالک میں سے ہیں اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور بارہا یہ بھی کہہ چکے ہیں کے فوج وہاں بھیجنے پر فیصلہ نہیں ہوا۔اصل میں شیعہ سنی کا مسئلہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے لیکن ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ یہ لگے جیسے فرقہ واریت ہی اس سب کی وجہ ہے۔آرمی چیف تما م بڑے اہداف کو پانے یعنی دہشتگردوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ حکومتی وزراء کی طرف دیکھیں تو ان کی باتوں سے سعودی بادشاہوں کے لیے اتنی وفاداری چھلکتی ہے ان کی اتنی بڑھتی ہوئی رقبت نے انہیں پاکستان کے مسائل بھُلا دئیے ہیں لگتا یوں ہے جیسے انہوں نے سعودیہ کے حکومتی استحکام کی قسم کھا رکھی ہو۔حالات کی سنگینی اور اقتدار کی لالچ نے بگڑتی امن کی صورتحال میں جنگ کو تواتر پر پہنچا دیا ہے۔بالاخر سعودیہ اور یمن کے باغی مذاکرات سے ہی حل تلاش کریں گے لیکن پاکستانی لیڈران خدارا اپنے اور قوم کے وقت کا ضیائع نہ کریں کیونکہ اس ملک کے مسائل زیادہ ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ توقف و غوروفکر کو بجا لایا جائے پھر کوئی قدم اٹھایا جائے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Theme