تعلیمی انقلاب خواب یا حقیقت

Published on November 9, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 575)      No Comments

\"rsid
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملکی ترقی اور محفوظ مسقتبل کی ضمانت تعلیم اور معیاری تعلیم میں ہی مضمر ہے،مستقبل کے چیلنجز سے ہم آہنگ نظام تعلیم ہمارے آج کے نوجوان کو کل کو معمار وطن بنانے میں بنیادی،فعال اور اہم کردار ادا سکتا ہے،ہمارے ہاں ماضی میں اس شعبہ کی جانب اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس طرح اس کی ضرورت تھی،ہر اانے اور جانے والی حکومتوں نے ملک و قوم کے مستقبل سے قطع نظر اپنی سیاسی ناؤ بچانے اور چند ووٹوں کے حصول و اپنے بے روزگار ووٹروں کو خوش کرنے کی خاطر محکمہ تعلیم کو بحثیت روزگار فراہمی کے طور پر استعمال کیا اور جس گاؤں سے بھی کسی بھی گھر کے سفارشی اور بیروزگار نے میٹرک پاس کی اسے پرائمری ٹیچر لگا دیا یا پھر قواعدو ضوابط پورے کرنے کیلئے اسے اسی شعبہ کیلئے پی،ٹی،سی یا دیگر اسی طرح کی تربیتی نشستوں کے سرٹیفکیٹ حصول کیلئے انہیں چند ماہ کڑوے کروانے کی ترغیب کی اور پھر انہیں محکمہ تعلیم میں بھرتی کر لیا،قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سکولوں میں پڑھانے والے زیادہ تر ٹیچرز وہی سفارشی اور کاغذی پرزیوں کے ہی ہیں جن کے رحم و کرم سے ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے خاص کر پرائمری سکولوں چل رہے ہیں،گاؤں کی چند مرحلے زمین محکمہ تعلیم کو عنایت کر کے خود ہیڈ ٹیچر کی پوسٹ سنبھال لی اور اپنے مزارعہ کو اسی سکول کا چوکیدار بھرتی کر لیا،اب سکول میں کوئی بچہ آئے یا نہ آئے یہ ان کی بلا سے البتہ سرکاری خزانے سے ہی تعمیر کر کے سرکار نے انہیں ایک محفوظ بیٹھک یا حجرہ تعمیر کر کے دے دیا جو ان کی خاندانی رسومات ادائیگی سے لیکر روز مرہ کے معمولات کو نمٹانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے،محکمہ تعلیم میں حد درجہ غفلت اور لاپرواہی کے باعث ہمارے ہاں جو بھی بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے اس کا واسطہ ان ہی ان پڑھ اور سفارشی اساتذہ سے پڑتا ہے جنہیں خود کچھ لکھنے یا پڑھنے کیلئے بھی اپنے ہی سکول کے چوکیدار یا کسی جاننے والے کا سہارا لینا پڑتا ہے اورنتیجتاہمارا بچہ بنیادی طور پر ہی وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا جس کی اسے مستقبل میں ضرورت پڑتی ہے اور پھر حصول علم سے بھاگنے اور تعلمی سلسلہ منقطع کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے،تعلیم پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر پاکستان کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے، تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم تعلیم کے لیے مناسب بجٹ مختص کرنے میںآج سے ہی نہیں بلکہ تب سے ناکام ہیں جب سے ملک میں تعلیمی درسگاہوں کی بنیاد رکھی گئی اور یہ سلسلہ اسی مقام سے جُڑتا ہے جب دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نقشہ ابھر کے سامنے آیا،حالیہ انتخابات سے قبل ملک کی تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں نے مناسب تعلیمی سہولیات فراہمی اور تعلیمی انقلاب برپا کرنے کیلئے وعدے وحید کیے تاہم مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران قوم سے وعدے کیے تھیکہ وہ ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ اپنے عمل سے ممکن بنائیں گے جبکہ میاں نواز شریف کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ وہ تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گے اور تعلیم کے بجٹ کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھا دیا جائے گا، جبکہ عمران خان نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نفاذ اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا، ویسے بھی 2010ء کی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق تعلیمی بجٹ 7 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ اس وقت کی حکومت نے تو کردیا تھا مگر 2013۔14ء کے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں مجموعی طور پر تعلیم کے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا، ایک اندازے کے مطابققومی اور چاروں صوبوں کے تعلیمی بجٹ کا کل تخمینہ 400 ارب روپے بنتا ہے جبکہ پاکستان کا کل جی ڈی پی 20 ہزار ارب روپے ہے، اس طرح تعلیم کا کل بجٹ جی ڈی پی کا 2 فیصد ہے،سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایوان اقتدار میں آنے والے ہرحکمران نے تعلیمی شعبے کیساتھ سوتیلے پن کا ہی سلوک کیا،اور ملک کے اشرافیہ اور حکمران طبقوں نے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کیساتھ شاید ملک عزیز کے نوجوانون کو ذمہ دار شہری بنانے کی جانب سنجیدہ کوششوں میں اپنا حصہ نہیں ڈالا اور غریب و مفلوک الحال مگر باصلاحیت نوجوانوں کے راستے روکنے کی کوششوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،دوسری جانب18ویں ترمیم کے مطابق آئین کے آرٹیکل نمبر 25 میں ریاست کو یہ آئینی ذمے داری سونپی گئی تھی کہ 4 سے 14 سال کے ہر بچے کو لازمی اور مفت تعلیم دی جائے گی،ملک عزیز میں تعلیمی اصلاحات کا کیا حال ہے یہ ذکر کرنا فی الوقت اہمیت اس لیے بھی نہیں رکھتا کہ وفاقی حکومت میں شامل کسی بھی وزیر نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش کی ابتداء تک ہی نہیں کی البتہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایوان اقتدار تک رسائی رکھنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے عمل سے چنا کوششوں کیساتھ اس امر کی جانب عوامی توجہ حاصل کر لی ہے کہ وہ تعلیمی انقلاب برپا کرنے میں سنجیدہ ہے تاہم ہزارہ ڈویژن کے بیشتر سکولوں کا ہم اپنے ان ہی کالموں میں اس سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں8سال گزرنے کے باوجود بھی عمارتوں تک کی تعمیر ممکن نہیں ہو سکی،جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس شعبہ سے وابستہ افراد میں وہ سفارشی بھی شامل ہیں جنہوں نے تدریسی شعبہ کو فرض کے طور پر نہیں بلکہ روزگار سے وابستگی کا ذریعہ بنایا اور وہی معلم نما برسر روزگار افراد سکولوں میں حاضری اس لیے بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ ان کا ایک ہی بہانہ ہے کہ سکولوں کی تعمیرات نہیں اور بچوں کے بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں،بیشتر سکولوں میں سہولیات فقدان کے حوالے سے بھی شکایات سامنے آرہی ہیں،مثال کے طور پر بالاکوٹ کی ایک یونین کونسل ست بنی پمبارہ میں مسجد سکول میں بچوں کی تعداد 150ہے اور اسی سکول میں چند خصوصی بچے بھی موسمی اثرات سے بے خبر حصول علم میں اپنی تشنگی تو مٹا رہے ہیں مگر اسی سکول میں عرصہ دراز سے ایک ہی استاد تعینات ہے جبکہ محکمہ نے چند روز قبل ایک مہربانی کی ہے کہ اسی سکول میں مستعار ایک اور استاد کو اضافی ذمہ داری دی ہے،بالاکوٹ ہی کے ایک گرلز مڈل سکول پیرہن کو 2005میں اپ گریڈ کر کے ہائی سکول کا درجہ دیا گیا اور علاقے کی ایک اہم ضرورت کو اس وقت کی حکومت نے پورا تو کر دیا مگر زلزلے کے سانحہ نے اسی یونین کونسل گرلاٹ کی عوامی امیدوں کو بھی تہہ و بالا کر دیا ملبہ میں تبدیل ہونے والے سکول کی دوبارہ عارضی شلٹرز میں کی گئی اور باقی کاکام عدم تعمیر کا شکار ہو کر رہ گیا اور باقی کسرمحکمہ اوقاف نے تنازعہ پیدا کر کے سکول اراضی سے ملحقہ مقام پر حکم امتناہی حاصل کر لیا اور محکمہ تعلیم کی چشم پوشی کہا جائے یا کہ غفلت کہ 8سال گزر گے نہ تو یہ تنازعہ حل ہو سکا اور نہ ہی سکول کی چار دیواری مکمل کر کے جوان طالبات کو پردہ فراہم کیا گیا بلکہ اسی سکول میں تعینات استانیاں بھی محکمے کی غفلت بھینٹ چڑھی ہوئی ہیں اور کھلے آسمان تلے بچیوں کو تعلیم تو دلوا رہی ہیں مگر مشرقی اقدار حکمران اور غفلت کی نیند سونے والوں کے رحم و کرم پر متاثر کر رہی ہے،تاریخ بتلاتی ہے کہ اگرحکمران طبقہ ملک و قوم سے سچی و دلی محبت کرتا ہو تو وہ ریاستی وسائل کو بروئے کار لاکر معجزے برپا کرسکتا ہے جبکہ جذبہ اور جنوں سے عاری حکمران قوم پر بوجھ بن جایا کرتے ہیں،صوبہ خیبر پختونخواہ کی عوام نے عمران خان اور ان کی ٹیم سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اس لیے عمران خان کو ملکی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے اپنی کوششوں کیساتھ خاص کر اسی تعلیمی شعبہ کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھنی ہو گی،صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کیلئے حائل رکاوٹوں کے خاتمے اور ان پڑھ معلم نما برسر روزگار افراد کو اس شعبہ سے الگ کر کے پڑھے لکھے اور باصلاحیت مگر حقدار افراد کو ہی ذمہ داریان سونپ کر اپنے حصے کا حق ادا کر کے ایک اعلٰی و ارفع روایت کی بنیاد رکھیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题